بادشاہ نے وزیر با تدبیر کو بلایا اور کہا کہ تدبیر ساتھ لے کر آؤ۔ بادشاہ نے مشیر باشمشیر کو بلایا اور کہاکہ شمشیر ساتھ لے کر آؤ۔
وزیر نے تدبیر کی گٹھڑی کاندھے پر رکھی اور بادشاہ سلامت کے حضور پہنچ گیا۔
مشیر نے شمشیر ساتھ لی اور بادشاہ کے آستانے پر حاضری دی۔ بادشاہ نے وزیر سے پوچھا۔
’’تمہارے پاس کیا تدبیر ہے؟‘‘
وزیر نے گٹھڑی کھولی اور جواب دیا!
’’حضور! ایک نہیں کئی تدبیریں ہیں۔ پہلی تدبیر یہ ہے کہ آپ مکمل طور پر شاہانہ زندگی بسر کریں۔ اپنے کرّ و فر کے لئے شاہی خزانے کو بے دریغ استعمال کریں۔ لاقانونیت کو جی بھر کر فروغ دیں کہ شاہانِ سلف کا یہی دستور رہا ہے۔‘‘
بادشاہ سلامت نے یہ سنا تووہ خوش ہوئے اور بولے!
’’ہمیں تم سے اسی وفاداری کی امید تھی لیکن تمہارے ان مشوروں پر عمل کرنے سے رعایا میں بے چینی پھیلے گی اور وہ ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے، کیاخیال ہے؟‘‘
وزیر باتدبیر نے یہ سنا تو کورنش بجا لایا اور بولا!
’’حضور! وہ طبقے جو آپ کے ساتھ لوٹ کھسوٹ میں شریک ہیں وہ آپ کے اقتدارکو مضبوط کرنے میں مدد دیں گے۔ البتہ رعایا کو مطمئن کرنے کے لئے آپ صرف یہ کریں کہ گاہے گاہے ان کے بارے میں ہمدردی اور محبت کے کلمات استعمال کرتے رہیں وہ ان سے خوش ہو جائیں گے۔ ان احمقوں کے لئے اتنا ہی کافی ہے اور یوں آپ ظالم او ر مظلوم دونوں کو خوش رکھ سکیں گے۔‘‘
بادشاہ سلامت کے چہرے پر اطمینان کی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ انہوں نے فرمایا! ’’وزیر باتدبیر! تم ٹھیک کہتے ہو کوئی اورتدبیر؟‘‘
وزیر نے گٹھڑی میں سے ایک اور تدبیر نکالی اور کہا!
’’حضور! ایک تدبیر یہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ اس کے مطابق آپ کو چاہئے کہ انصاف کے تمام راستے مسدود کردیں تاکہ فریادیوں کی فریادیں بھی منصفوں کے کانوں تک نہ پہنچ پائیں اور یوں آوازیں سینوں ہی میں گھٹ کر رہ جائیں۔‘‘
بادشاہ سلامت نے وزیر باتدبیر کی پیٹھ ٹھونکی اور اسے زر و جواہر اور خلعت دے کر رخصت کردیا۔
پھروہ اپنے مشیر باشمشیر کی طرف متوجہ ہوا اورکہا!
’’مشیر! تم ہمیں کیامشورہ دیتے ہو؟‘‘
مشیر نے اپنی شمشیر نکالی اور کورنش بجا لا کر کہا!
’’حضور کا اقبال بلند ہو۔ میرا صرف ایک مشورہ ہے کہ جو لوگ وزیر باتدبیر کی ان تدبیروں کے باوجود سرکشی پر مائل ہوں انہیں بے دریغ تہ تیغ کردیا جائے۔ اس کے بعد کسی کو سر اٹھانے کی جرات نہ ہوگی۔‘‘
بادشاہ سلامت نے مشیر کی پیٹھ ٹھونکی اور اسے بھی زر و جواہرات اور خلعت سے سرفراز کیا۔
پھربادشاہ سلامت نے ایک روز وزیر کو بلایا اور کہا ’’مشیر نے تمہیں قتل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ شاید وہ نہیں جانتا کہ تم مجھے کتنے عزیزہو۔‘‘
اور بعد میں بادشاہ سلامت نے مشیر کو طلب کیا اور کہا:
’’وزیر تمہیں راستے سے ہٹانے کی تدبیر کر رہا ہے۔ اس کی سازشوں سے محتاط رہو ویسے مجھے تم پر مکمل اعتماد ہے‘‘۔
اس کے نتیجے میں درباری دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے اور مخالف کو نیچا دکھانے کے لئے خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت کرنے لگے اور یوں بادشاہ سلامت نے زیادہ یکسوئی کے ساتھ امورِ سلطنت انجام دینا شروع کردیے۔ انہوں نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے تدبیر اورشمشیر دونوں کواستعمال کیا جس کے نتیجے میں انہوں نے ایک عرصے تک شاہانہ زندگی بسر کی۔ شاہی خزانے کو بے دریغ استعمال کیا۔ اپنے درباریوں کوبھی لوٹ کھسوٹ کی مکمل آزادی دی اور ملک میں لاقانونیت اوربدعنوانی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔
پھر ایک روز بادشاہ سلامت کے مخبروں نے انہیں آ کرخبر دی کہ غریب عوام جن کی زندگیاں اجیرن ہوگئی ہیں، سرکشی پرآمادہ ہیں۔بادشاہ نے یہ سنا تو مخبروں کی غلط خبری پر انہیں سرزنش کی پھر شاہی نجومی کو بلایا اورپوچھا کہ تمہارے ستارے کیاکہتے ہیں؟
نجومی نے یہ سن کر کھڑکی میں سے سر باہر نکالا اور پھربادشاہ سلامت کو مخاطب کرکے کہا:
’’حضور! اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ آپ کا اقتدار چند گھڑیوں کا مہمان ہے۔‘‘
بادشاہ سلامت یہ سن کر جلال میں آگئے۔ انہوں نے غصے سے کانپتے ہوئے کہا ’’اے دو کوڑی کے نجومی کیا تیرے ستاروں نے تجھے یہی بات بتائی ہے؟‘‘
نجومی نے ایک بارپھر جان کی امان طلب کی اور کہا:
’’حضور! یہ بات مجھے میرے ستاروں نے نہیں بتائی میں نے ابھی کھڑکی کے باہر حضورکے محل کی دیواروں کے ساتھ اپنی آنکھوں سے لاکھوں افراد کاہجوم دیکھا ہے۔ ان کے چہرے نفرت سے کھنچے ہوئے ہیں۔‘‘
یہ سن کر بادشاہ سلامت کے چہرے پرتشویش کے آثار پیدا ہوئے۔ انہوں نے فوراً وزیر کو طلب کیا۔ وزیر نے تدبیر کی گٹھڑی کھولی اور کہا:
’’حضور! فکر کی کوئی بات نہیں۔‘‘
او ردو کوڑی کے نجومی نے اسے دیکھا اور پھر کھڑکی سے باہر سر نکال کر لاکھوں افراد کے اس غضب ناک ہجوم کو دیکھنے لگا جو نفرت سے بھرے ہوئے چہروں کے ساتھ محل کے دروازے کے باہر جمع ہورہے تھے!