فیس بک اور ٹوئٹر کے بعد جب سے میں نے واٹس ایپ دریافت کیا ہے میں بھی کچھ عقلِ کل سا ہو گیا ہوں۔ بلوچستان سے لے کر برلن تک کی لمحہ بہ لمحہ خبریں میرے پاس ہوتی ہیں۔
دوزخ کے درجۂ حرارت کے بارے میں ہونے والی جدید ترین سائنسی تحقیق سے بھی واقف ہوں اور کچے پیاز سے کینسر کا علاج کیسے ہو سکتا ہے یہ بھی بتا سکتا ہوں۔ اتنی علمی مصروفیت کی وجہ سے ظاہر ہے کتابوں سے تھوڑی دوری ہو گئی ہے تو گذشتہ دنوں دل کو سمجھایا کہ سوشل میڈیا تمہارے بغیر بھی کچھ گھنٹے گزارا کر لے گا یہ جو میز کے اوپر اور نیچے کتابوں کے انبار لگے ہیں ان کا بھی کچھ کرو۔
پہلی کتاب جس پر نظر پڑی اٹھا لی۔ دوستووسکی کی قدرے غیرمعروف کہانیوں کا مجموعہ۔ اردو میں اگر ترجمہ ہو تو نام ہو گا دائمی خاوند اور دوسری کہانیاں۔ دل کڑا کر کے پڑھنے کی کوشش کی۔ ایک استاد نے بتایا کہ دوستووسکی کی کسی بھی کتاب کے پہلے پندرہ بیس صفحے حوصلہ کر کے پڑھنے چاہییں کیونکہ وہ کہانی کو سست روی سے شروع کرتا ہے لیکن جب تک آپ کہانی کے 20ویں صفحے تک پہنچتے ہیں تو آپ کہانی کے سحر میں آ چکے ہوتے ہیں اور رکتے نہیں۔
پہلی کہانی کے آغاز میں روسی سرکار کے تین انتہائی اہم اہلکار بیٹھے شیمپین پی رہے ہیں اور حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک انتہائی سینیئر جنرل ہے جو تھوڑا جذباتی ہے، انسان اور انسانیت کی باتیں کرتا ہے۔ اگر آج کے پاکستان میں ہوتا تو یقیناً تبدیلی کا حامی ہوتا۔
محفل برخاست ہوتی ہے تو جنرل صاحب ہلکے ہلکے سرور میں رواں دواں ہوتے ہیں۔ ان کی بگھی کا کوچوان کہیں غائب ہو گیا، اس کی تلاش میں ایک غریبوں کے محلے میں پہنچ جاتے ہیں جہاں ایک گھر میں شادی ہو رہی ہے۔ انھیں پتہ چلتا ہے کہ شادی ان کے اپنے ادارے میں کام کرنے والے ایک معمولی کلرک کی ہے جس سے جنرل صاحب نے کبھی بات کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔
شیمپین کے نشے میں انھیں خیال آتا ہے کہ اگر وہ بن بلائے شادی میں شامل ہو جائیں تو ان کا غریب کارندہ اور اس کے گھر والے کتنے حیران ہوں گے۔ غریب امیر کا فرق ایک لمحے میں ختم ہو جائے گا۔ ایک جونیئر کلرک کی شادی پر جنرل۔ یہ بات تو غریب لوگ اپنی اولادوں کی اولادوں کو بتائیں گے۔ جنرل صاحب دروازہ کھولتے ہیں اور شادی میں گھس جاتے ہیں۔
دوستووسکی لکھاریوں کے لکھاری ہیں۔ کوئی دو سو سال سے پوری دنیا میں پڑھنے لکھنے والے انھیں پیراستاد مانتے ہیں۔ زیر تذکرہ کہانی میں جب جنرل صاحب غریب کارندے کی شادی میں داخل ہوتے ہیں تو دوستووسکی لکھتا ہے کہ وہ ایسے داخل ہوا جیسے خلیفہ ہارون الرشید ہوتا تھا۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ دوستووسکی ہمارے عظیم خلیفہ کے بارے میں جانتا تھا اور اس کے کارناموں کے بارے میں بھی۔ اور بھی خوشگوار حیرات ہوئی کہ دوستووسکی نے خلیفہ ہارون رشید کا نام اس طرح سے استعمال کیا اور آگے بڑھ گیا جیسے وہ کوئی اس کی اپنی روسی زبان کا روزمرہ استعمال ہونے والا محاروہ ہو۔
لیکن ظاہر ہے کہ دوستووسکی کا کردار ہمارا خلیفہ نہیں ہے بلکہ شیمپین پیے ہوئے ایک روسی جنرل ہے جو تبدیلی کا خواہشمند ہے اور غریب لوگوں میں گھل مل جانا چاہتا ہے۔ اسے پہلا دھچکا اس وقت لگتا ہے جب اسے احساس ہوتا ہے کہ شادی والے گھر میں اس کی آمد سے ایک دم سناٹا چھا جاتا ہے، لوگ اس سے دور، دور ہیں۔ پھر اس کا غریب کارندہ کسی سے پیسے پکڑ کر شیمپین کی بوتل منگواتا ہے۔ جنرل صاحب لوگوں کو تسلی دیتے ہیں کہ وہ شادی کا جشن جاری رکھیں اور وہ تو محض ان کی خوشیوں میں شریک ہونے آئے ہیں۔
وہ اور شیمپین پیتا ہے اور تھوڑی دیر بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ لوگ اسے خاص اہمیت نہیں دے رہے بلکہ اس کے سامنے کھسرپھسر بھی کر رہے ہیں۔ وہ ظاہر ہے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ جنرل صاحب کیوں پدھارے ہیں۔ انھیں کس نے بلایا ہے اور اگر بلایا ہی تھا تو کسی کو بتایا کیوں نہیں۔
جنرل صاحب پریشانی میں اور شیمپین پیتے ہیں اور پھر افواہ پھیل جاتی ہے کہ جنرل صاحب اصل میں کافی ٹُن ہیں۔ مہمان اپنا ناچ گانا پھر شروع کر دیتے ہیں، مزید چندہ کیا جاتا ہے اور جنرل صاحب کے لیے ایک اور بوتل شیمپین کی بوتل منگوائی جاتی ہے۔
جیسے جیسے نشہ بڑھتا ہے جنرل صاحب مہمانوں کو انسانیت کے رشتوں اور تبدیلی کے بارے میں ایک لیکچر دینا چاہتے ہیں لیکن اتنی دیر میں کھانے کا وقت ہو جاتا ہے۔ جنرل صاحب کو عزت کی جگہ بٹھایا جاتا ہے اور چونکہ شیمپین ختم ہو چکی ہے سو انھیں ووڈکا پیش کی جاتی ہے۔ جنرل صاحب نے زندگی میں کبھی ووڈکا نہیں پی لیکن اپنے غریب میزبانوں کی خاطر وہ ووڈکا بھی چڑھا جاتے ہیں۔
جن لوگوں کو روسی ادب سے تھوڑا شغف ہے وہ جانتے ہیں کہ کلاسیکی کہانیوں کو کردار بعد میں آتے ہیں ووڈکا پہلے آ جاتی ہے اور بعض مرتبہ تو ووڈکا کی بوتل خود ایک کردار ہوتی ہے لیکن جنرل صاحب کا تعلق جس اشرفیہ سے ہے وہاں صرف شیمپیئین ہی پی جاتی ہے۔
جنرل صاحب کا حشر وہی ہوتا ہے جو ساری عمر شیمپین پینے کے بعد پہلی دفعہ غریبوں کی ووڈکا پینے والوں کا ہوتا ہے۔ کہانی کا انجام جاننا چاہتے ہیں تو دوستوسکی کو پڑھ لیں۔
کبھی اپنے حکمرانوں کے سادگی کے دعوے اور غریبوں میں گھل مل جانے کی خواہش سے ڈر لگتا ہے کہ پہلے ان غریبوں سے بھی پوچھ لیں کہ وہ آپ کی میزبانی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
کہانی کا ٹُن جنرل ایک بار اپنے غریب میزبانوں سے پوچھتا ہے کہ تمہیں پتہ ہے کہ میں کیوں آیا ہوں تو ایک نوجوان بول پڑتا ہے کہ تم ایک بدمعاش ہو جو اپنے آپ کو ایک بڑا آدمی ثابت کرنے کے لیے یہاں آیا ہے۔ اس پر دوسرے غریب رشتے دار نوجوان کی خوب پٹائی کرتے ہیں۔