Site icon DUNYA PAKISTAN

لارڈز میوزیم میں رکھی گیند اور چڑیا سے پاکستانی کرکٹ کی تین نسلوں کی جذباتی وابستگی

Share

چڑیا آ، دانا کھا، پانی پی، اُڑجا۔۔۔

گھر کے بزرگ چھوٹے بچوں کو عام طور پر یہی روایتی کہانی سناتے آئے ہیں لیکن سابق ٹیسٹ کرکٹر بازید خان جس چڑیا کی کہانی سے آشنا ہوئے وہ ’دانا پانی‘ والی نہیں بلکہ اپنے دادا ڈاکٹر جہانگیرخان کی گیند پر جان سے ہاتھ دھونے والی چڑیا تھی۔

بازید خان کہتے ہیں ’میں بہت چھوٹا تھا جب دادا کا انتقال ہوگیا لہٰذا میں ان کی زبانی تو اس چڑیا کے بارے میں نہ سُن سکا لیکن جب ہوش سنبھالا تو والد ماجد خان کی زبانی یہ سنا۔

’جب والد صاحب نے پہلی بار یہ واقعہ بتایا تو میں نے یہ سوچا کہ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے ایسا ہوتا رہتا ہوگا لیکن جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا اور خود کھیلنے لگا تو پھر مجھے احساس ہوا کہ یہ ایک منفرد واقعہ ہے۔‘

اس چڑیا کی کہانی آخر ہے کیا؟

تین جولائی 1936 میں لارڈز کرکٹ گراؤنڈ پر کیمبرج یونیورسٹی اور ایم سی سی کے درمیان میچ جاری تھا۔

کیمبرج یونیورسٹی کے میڈیم فاسٹ بولر محمد جہانگیرخان ایم سی سی کے ٹام پیئرس کو بولنگ کررہے تھے کہ اُڑتی ہوئی ایک چڑیا ان کی گیند کی زد میں آگئی اور گِر کر مرگئی۔

اس چڑیا کو اسی گیند کے ساتھ محفوظ کر کے لارڈز کے تاریخی ایم سی سی میوزیم میں رکھ دیا گیا جہاں یہ 84 سال گزرجانے کے باوجود آج بھی دیکھنے والوں کی دلچسپی کا سبب بنی ہوئی ہے۔

،تصویر کا کیپشنجہانگیر خان

’لندن جارہے ہو وہ چڑیا ضرور دیکھنا‘

بازیدخان کہتے ہیں ′میں جب انڈر 15 ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے انگلینڈ جارہا تھا تو والد صاحب (ماجد خان) نے مجھ سے کہا کہ لندن جارہے ہو موقع ملے تو لارڈز میوزیم میں اس چڑیا کو ضرور دیکھنا۔‘

’میں نے جب پہلی بار شوکیس میں رکھی یہ چڑیا دیکھی تو میں اس واقع میں کھو گیا۔

’میوزیم کے عملے نے جب مجھے اس واقع کی تفصیل بتائی تو اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ یہ چڑیا اور اس سے منسوب واقعہ کرکٹ کی دنیا میں کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ اس شخص کو یہ جان کر بھی بہت خوشی ہوئی تھی کہ میں ڈاکٹر جہانگیرخان کا پوتا ہوں۔‘

بازید خان کہتے ہیں ’میں جب بھی انگلینڈ جاتا ہوں لارڈز کے میوزیم جا کر یہ چڑیا ضرور دیکھتا ہوں اور جب کوئی ایسی چیز جس سے آپ کے خاندان کی یادیں وابستہ ہوں اسے دیکھنے کا اپنا مزا ہے۔

’کچھ عرصہ قبل یہ چڑیا مجھے نظر نہیں آئی کیونکہ اسے وہاں سے کہیں اور منتقل کردیا گیا تھا لیکن گذشتہ سال ورلڈ کپ فائنل کے موقع پر جب میں میوزیم میں گیا تو یہ چڑیا اسی شوکیس میں مجھے نظر آئی۔‘

سمندری بگلا ماجد خان کے شاٹ کی زد میں

ڈاکٹر جہانگیر خان کی گیند کی زد میں آنے والی چڑیا تو نہ بچ سکی شاید قدرت نے اسے ایک تاریخی حیثیت دے کر محفوظ کردینا تھا۔

،تصویر کا کیپشنماجد خان

تاہم 1977 میں جب پاکستانی کرکٹ ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر تھی تو ایڈیلیڈ ٹیسٹ کے دوران ایک سمندری بگلا ماجد خان کے ایک تیز شاٹ کی زد میں آگیا لیکن اس کی جان بچ گئی۔

آسٹریلوی کرکٹ میدانوں میں سمندری بگلے بہت بڑی تعداد میں اڑتے رہتے ہیں اور متعدد بار وہ بلے بازوں کے تیز شاٹس کی زد میں آجاتے ہیں۔

اب تک صرف دو بار کلائیو لائیڈ اور کپل دیو کے شاٹس سے سمندری بگلوں کی موت واقع ہوئی ہے۔

ڈاکٹر جہا نگیر خان کون ہیں؟

ڈاکٹر جہانگیر خان پاکستان کے ٹیسٹ کرکٹر اور سابق کپتان ماجد خان کے والد ہیں۔ انھوں نے غیر منقسم ہندوستان کی طرف سے چار ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں انھوں نے چار وکٹیں حاصل کی تھیں۔

وہ 1932 میں انگلینڈ کے خلاف اولین ٹیسٹ میچ کھیلنے والی غیرمنقسم ہندوستان کی ٹیم میں شامل تھے۔

انھوں نے ایتھلیٹکس مقابلوں میں بھی غیرمنقسم ہندوستان کی نمائندگی کی۔

،تصویر کا کیپشنجہا نگیر خان

ڈاکٹر جہانگیر خان نے کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد وہ سلیکٹر رہے۔ وہ 1961 میں فضل محمود کی قیادت میں انڈیا کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم کے منیجر تھے۔ وہ اپنی اصول پسندی کے لیے مشہور تھے۔

اس دورے کی رپورٹ میں انھوں نے کپتان فضل محمود اور متعدد کھلاڑیوں کی جانب سے ڈسپلن کی خلاف ورزی کا ذکر کیا تھا جس پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے فضل محمود اور حنیف محمد پر جرمانے بھی عائد کیے تھے۔

ڈاکٹر جہانگیر خان کی اصول پسندی کی ایک اور مثال یہ ہے کہ جب ان کے بیٹے ماجد خان کا ٹیسٹ ٹیم میں سلیکشن ہونے والا تھا تو انھوں نے سلیکشن کمیٹی سے استعفی دے دیا تھا۔

باپ بیٹے میں ایک بات یہ مشترک ہے کہ ڈاکٹر جہانگیر خان نے اپنے اولین فرسٹ کلاس میچ میں 107 رنز کی اننگز کھیلنے کے علاوہ 42 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کی تھیں۔

اسی طرح ماجد خان نے اپنے اولین فرسٹ کلاس میچ میں 111 رنز اسکور کرنے کے ساتھ 67 رنز دے کر 6 وکٹیں حاصل کی تھیں۔

گھر میں سجی تین ٹیسٹ کیپس

بازید خان صرف ایک ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی نمائندگی کر سکے ہیں لیکن اس میچ میں سر پر سجانے والی ٹیسٹ کیپ ان کے لیے اس لیے بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ وہ ان کے دادا اور والد کی ٹیسٹ کیپ کے ساتھ رکھی ہوئی ہے۔

بازید خان کا کہنا ہے کہ والد صاحب (ماجد خان) کو اپنے کیریئر میں استعمال میں ہونے والی اشیا اپنے پاس رکھنے کا زیادہ شوق نہیں رہا لہٰذا انھوں نے کئی اشیا عطیہ کردی تھیں یا تحفے میں دے دی تھیں۔ مثلاً انھوں نے ایک بلیزر پاکستان کرکٹ بورڈ کے میوزیم کے لیے دے دیا جبکہ ایک بلیزر ایچیسن کالج کے میوزیم کو دیا تھا۔

بازید خان کہتے ہیں ماجد خان نے اکتوبر 1976 میں نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں جس بیٹ سے کھانے کے وقفے سے قبل سنچری بنائی تھی وہ بیٹ انھوں نے میلبورن کرکٹ گراؤنڈ کے میوزیم کو دے دیا تھا۔

،تصویر کا کیپشنبازید خان

بازید خان کہتے ہیں کہ ماجد خان کو سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ کھانے کے وقفے سے قبل ان کی یادگار سنچری کی کوئی فوٹیج محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن میں ایک ریل پر دوسری ریکارڈنگ کردی جاتی تھی لہٰذا اس اننگز کا کوئی بھی حصہ محفوظ نہ رہ سکا۔

بازید خان کا کہنا ہے ماجد خان پاکستان ٹیلی ویژن میں ڈائریکٹر رہے تو اس وقت بھی انھوں نے اپنی اس اننگز کی ریکارڈنگ کو بہت تلاش کیا لیکن انھیں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔

Exit mobile version