پاکستان کے سابق آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف نے ایک بار صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کہا تھا ’فوج میرے ساتھ ہے، اگر میں یونیفارم میں نہ بھی ہوا تب بھی فوج میرے ساتھ ہو گی، یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں۔‘
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی اور سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے گذشتہ روز انھیں سزائے موت دینے کا حکم دیا ہے۔
اس سزا پر سیاسی حلقوں، تجزیہ کاروں اور سوشل میڈیا پر مختلف قسم کا ردعمل دیکھنے میں آیا ہے لیکن تاحال سب سے شدید ردعمل ملک کی مسلح افواج ہی کی جانب سے سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’خصوصی عدالت کے فیصلے پر افواجِ پاکستان میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے اور یہ کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے 40 سال سے زیادہ عرصہ پاکستان کی خدمت کی ہے، انھوں نے ملک کے دفاع کے لیے جنگیں لڑی ہیں اور وہ کسی صورت بھی غدار نہیں ہو سکتے۔‘
حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے مؤقف اپنایا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ردعمل دے گی جبکہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد ملک میں آئین توڑنے کی روایت کا خاتمہ ممکن ہو پائے گا۔
یہاں پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ سنہ 1972 میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے جنرل یحییٰ خان کی جانب سے سنہ 1969 میں لگائے گئے مارشل لا کو غیر قانونی قرار دیا تھا مگر اس مارشل لا کے ساڑھے چار سال بعد ہی سابق فوجی صدر جنرل (ر) ضیا الحق نے ایک اور مارشل لگا دیا تھا۔
کیا مارشل لا کا راستہ رک جائے گا؟
بی بی سی نے ماہرین، تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں سے اس فیصلے کے اثرات سے متعلق سوال کیے کہ کیا واقعی اس فیصلے سے مارشل لا کا راستہ رک جائے گا؟
سینیئر صحافی ضیا الدین سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے کی وجہ سے وقتی طور پر یہ راستہ بند ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں ’یہ ایسا فیصلہ ہے جسے ایمبیشیئس جنرلز کو خاص پیغام گیا ہے مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جب کسی جنرل میں حکومت پر قبضہ کرنے کی خواہش ہو گی تو وہ ایسا کر لے گا، کیونکہ آرمی کے لیے بندوق کے زور پر حکومت کا تختہ الٹنا آسان ہے۔ تاہم میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس فیصلے سے آئندہ چند برسوں تک تو کچھ جھجک آئے گی۔‘
انھوں نے اس رائے سے اتفاق کیا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے میں عدلیہ یا سیاست کے بعض کرداروں کو شامل نہ کرنے سے احتساب کے عمل پر سوال اٹھتے ہیں۔
انھوں نے کہا ’بدقسمتی سے گذشتہ 72 برسوں میں عدلیہ کا کردار بہت مثالی نہیں رہا، ججز ہمیشہ فوج کے ساتھ رہے ہیں، جو فوج چاہتی ہے وہ کرتے رہے ہیں، اب یہ جو صورتحال پیدا ہوئی ہے ممکن ہے کہ اس کی وجہ دونوں اداروں کے درمیان کوئی تصادم یا اختلاف ہو۔‘
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما پرویز رشید سمجھتے ہیں کہ مارشل لا کے راستے میں اب ایک بہت بڑی دیوار کھڑی ہو چکی ہے۔
ان کے خیال میں اب اس دیوار کو پھلانگنا ویسے ممکن نہیں جیسے پہلے وزیراعظم ہاؤس یا ریڈیو اور ٹی وی کی دیوار پھلانگ کر ایک اعلان کے ذریعے پاکستانی عوام کا حق حکمرانی چھین کر آمریت کا نفاذ ہو جاتا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ اب اس دیوار کو پھلانگنے کے لیے ’جو جرات درکار ہے وہ نظر نہیں آتی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ عدالت کا یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد ’آئندہ ایسا قدم اٹھانے والوں اور ان کے معاونین کے لیے ایک خدشے کا موجب بنا رہے گا کہ اس سے قبل غدار بھی قرار دیا گیا، اور موت کی سزا بھی سنائی گئی۔‘
اسی سوال پر جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جب مارشل لا لگائے جاتے ہیں تب حالات کیا ہوتے ہیں اور عوام انھیں ’خوش آمدید‘ کیوں کرتی ہے، یہاں تک کہ اعلی عدلیہ کے ججز بھی انھیں جائز قرار دیتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہا ’اگر دوبارہ کوئی مارشل لگائے اور اس کو جج اور سیاستدان بھی مل جائیں تو کیا فائدہ ایسے فیصلے کا جس میں نہ کسی جج کو سزا ہوئی نہ کسی سیاستدان کو۔‘
امجد شعیب کہتے ہیں ’جو اصل مارشل لا تھا جس سے نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی، اس فیصلے میں اُس مارشل لا کو تو کچھ نہیں کہا گیا۔ یہاں تو یہ بھی واضح کرنا ہو گا کہ کیا سنہ 2007 میں جو ایمرجنسی نافذ کی گئی، کیا وہ واقعی آئین شکنی تھی یا کابینہ کی ایڈوائس پر صدر کا آئینی اختیار؟‘
انھوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ کارروائی ایک شخص کو نشانہ بنانے کے لیے کی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج فوج نے بھی اس پر سخت ردعمل دیا ہے۔ اس لیے ان حالات، ان افراد اور عوام کے ردعمل کا جائزہ لینا چاہیے، اگر سیاستدان ملک پر اپنے مفادات کو مقدم جاننے لگ جائیں تو عوام مارشل لا کا مطالبہ کرتی ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج میں اس فیصلے کو کیسے دیکھا جائے گا؟
اس ضمن میں اگرچہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر کی جانب سے ردعمل پہلے ہی سامنے آ چکا ہے۔
تاہم سینیئر صحافی محمد ضیا الدین سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں مارشل لا سے متعلق فوج کے سٹاف کالجز کے نصاب میں پڑھایا نہیں جاتا ہے۔
’یہ نہیں بتایا جاتا کہ مارشل لاز کیا ہیں، ان میں خرابی کیا ہے، یہ عوام میں مقبول کیوں ہوتے ہیں، اس لیے میں نہیں کہہ سکتا کہ مسلح افواج کے اندر اس فیصلے کا اثر کیا ہو گا۔‘
وہ کہتے ہیں افواج میں ایک چھوٹا مگر مضبوط طبقہ ہی یہ سمجھ لے کہ اب انھوں نے یہ (مارشل لا) نہیں کرنا، ہو سکتا ہے کہ یہ سوچا جائے کہ اس سلسلے کو (نصاب کے ذریعے) کیسے ختم کرنا ہے۔‘
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے فوج کی سوچ میں تبدیلی آنا شروع ہو گی۔
وہ کہتے ہیں ’زمانہ، وقت، حالات، پاکستان کے معاشرے اور اداروں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے، جیسا کہ یہی عدالتیں پہلے آئین شکنی کا حق تک دے دیتی تھیں، اب اداروں میں تبدیلی آ رہی ہے، پہلے پارلیمان میں تبدیلی آئی اور اب عدالتوں میں کہ اب انھوں نے نظریہ ضرورت کی تنسیخ کی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’پاکستان کی فوج بھی اسی سماج کا حصہ ہے اور سوچ کی تبدیلی کا اثر فوج کی سوچ پر بھی پڑے گا۔‘
مگر جنرل (ر) امجد شعیب کہتے ہیں کہ یہ غصہ برقرار رہے گا۔ ان کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ افواج میں کمانڈ کے ساتھ بے مثال وفاداری بھی ہے۔
’بعض ایسے کمانڈر ہوتے ہیں جو فوجی دستوں کے ساتھ قریبی رابطے رکھتے ہیں اور یہ وفاداری ہی وہ اہم ترین وجہ ہے جو فوج کو اکٹھا رکھتی ہے کہ وہ اپنی کمانڈ کے حکم پر میدان جنگ کی طرف چل پڑتے ہیں، تو ایسے میں اگر ان کے کسی سربراہ کو غدار کہا جائے گا تو اضطراب تو ہو گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس مقدمے میں ضروری تھا کہ یہ ’تشریح دیکھی جاتی کہ کیا پرویز مشرف کا عمل واقعی غداری ہے؟‘
امجد شعیب کہتے ہیں کہ فوج میں بے چینی کی وجہ یہ ہے کہ اس مقدمے میں ’صرف ایک شخص کو نشانہ بنانے کا تاثر ملتا ہے، نہ کہ اس کابینہ کو جس نے اس فیصلے میں صدر مشرف کا ساتھ دیا اور نہ ہی اس سے پہلے سنہ 1999 میں مارشل لا کو جائز قرار دینے والے ججز کا کہیں نام ہے۔‘
کیا حکومت اس فیصلے پر عملدرآمد کروا پائے گی؟
پاکستان کی موجودہ حکومت پر اپوزیشن جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی یہ الزام لگاتی ہیں کہ اسے فوج کی حمایت حاصل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پرویز رشید سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت اس عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرائے گی۔
وہ کہتے ہیں ’یہ واضح ہے کہ حکومت فیصلہ رکوانے کے لیے حیلے بہانے کرتی رہی ہے۔ جو حکومت فیصلہ نہیں چاہتی تھی وہ عملدرآمد کیسے کرائے گی۔‘
مگر صحافی محمد ضیاالدین کے خیال میں ابھی یہ مقدمہ چلے گا اور مستقبل میں کوئی بھی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ابھی اس مقدمے کی سپریم کورٹ میں اپیل کا وقت بھی ہے جس کے بعد سماعتوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
’شاید سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے میں بھی مزید چھ یا سات سال لگ جائیں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ فیصلہ ہی نہ آئے۔‘
انھوں نے کہا کہ اگر حکومت اپیل لے کر عدالت عظمیٰ میں نہیں جاتی تو ہو سکتا ہے کہ پرویز مشرف کو پاکستان لانے کی زیادہ کوشش بھی نہ کی جائے۔
کیا پرویز مشرف پاکستان آئیں گے؟
صحافی محمد ضیا الدین کہتے ہیں کہ پرویز مشرف روایتی ردعمل دینے والے انسان نہیں ہیں۔
’ان کا ردعمل غیرروایتی بھی ہو سکتا ہے، وہ بہت ہمت والے اور رسک لینے والی طبیعت کے مالک بھی ہیں لیکن اس کے باوجود مجھے اس بات کا امکان کم ہی نظر آتا ہے کہ وہ پاکستان آئیں گے۔‘
پرویز رشید کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف پاکستان نہیں آئیں گے۔ وہ کہتے ہیں ’پرویز مشرف نے مقدمے کا سامنا نہیں کیا تھا وہ فیصلے کا سامنا بھی نہیں کریں گے۔‘
واضح رہے کہ پرویز مشرف اس وقت دبئی میں مقیم ہیں اور زیرِ علاج ہیں۔ جنرل (ر) امجد شعیب کے مطابق ’انھیں خطرناک بیماری لاحق ہے جو ان کے پٹھوں کو ختم کر رہی ہے۔‘