گزشتہ سال 24 جولائی کی شب وزیراعظم عمران خان کی واشنگٹن سے واپسی ایک ہیرو کی فاتحانہ واپسی کی طرح تھی۔ غیر ملکی فضائی کمپنی کے طیارے نے شب ڈیڑھ بجے اسلام آباد ایئرپورٹ پر لینڈ کیا تو وہاں جشن کی کیفیت تھی (اپنے خصوصی طیارے کی بجائے کمرشل ائیر لائن سے سفر وزیراعظم کی طرف سے کفایت شعاری کا مظاہرہ تھا)۔ شہرِ اقتدار میں دفعہ 144 کے باوجود تبدیلی کے دیوانے ہزاروں کی تعداد میں چھوٹی بڑی ریلیوں میں ایئرپورٹ پہنچے تھے۔ وزیراعظم کا چہرہ وفورِ مسرت سے گلنار تھا۔ وہ کہہ رہے تھے‘ یوں لگتا ہے‘ میں ایک اور ورلڈ کپ جیت کر لایا ہوں۔
23 جولائی کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کا بنیادی ایجنڈا افغانستان میں امن اور امریکی فوجوں کے باعزت انخلا کیلئے سہولت کاری تھا‘ لیکن میڈیا بریفنگ کے دوران میزبان صدر سے ایک پاکستانی اخبار نویس کے سوال پر کشمیر ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر ہو گیا۔ اس سوال پر کہ کیا آپ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی یا مصالحت کاری کا کردار ادا کریں گے؟ صدر ٹرمپ کا جواب تھا: وزیراعظم مودی نے بھی دو ہفتے قبل اوساکا میں‘ مجھ سے اسی خواہش کا اظہار کیا تھا‘ مجھے خوشی ہو گی اگر میں یہ کردار ادا کر سکوں۔ اس پر بھارت میں ہاہا کار مچ گئی‘ مودی سرکار نے تردید کر دی۔ عالمی سطح پر کشمیر کے ہائی لائٹ ہونے پر اہلِ پاکستان اور کشمیری عوام میں مسرت اور اطمینان کی کیفیت فطری تھی۔
صدر ٹرمپ کی طرف سے کشمیر پر اس پیشکش کو ابھی دو ہفتے گزرے تھے کہ مودی سرکار کشمیر پر آخری کاری وار کر گزری۔ اکتوبر 1947ء کے نام نہاد الحاق کی آڑ میں جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے بعد پنڈت نہرو کی کانگریسی حکومت نے دنیا کی آنکھ میں دھول جھونکنے کیلئے‘ کشمیر کو ”سپیشل سٹیٹس‘‘ دے دیا تھا۔ یہ آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A تھے‘ جن کی رو سے کوئی غیرکشمیری‘ کشمیر میں کوئی جائداد نہیں خرید سکتا تھا۔ یہاں ملازمت حاصل نہیں کر سکتا تھا‘ یہاں کا ڈومیسائل نہیں لے سکتا تھا۔ یہ سب کچھ اہلِ جموں و کشمیر کے حقِ خودارادیت کا متبادل تو نہیں ہو سکتا تھا‘ جس کا وعدہ پنڈت نہرو اقوامِ متحدہ میں کر آئے تھے اور جس کا واضح اظہار عالمی ادارے کی قراردادوں میں بھی تھا کہ پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ اہلِ جموں و کشمیر اپنی آزادانہ مرضی سے کریں گے۔ 1971ء سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی کے مابین معاہدہ شملہ (جولائی 1972ء) میں سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن قرار دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو ”دوطرفہ‘‘ معاملہ قرار دے دیا گیا (جسے دونوں ملکوں نے باہم مذاکرات کے ذریعے حل کرنا تھا) لیکن ہندوستان نے دوطرفہ مذاکرات کو بھی نتیجہ خیز نہ ہونے دیا۔الطاف حسن قریشی کے ”پائنا‘‘ کے زیر اہتمام اگست 2015ء میں ”مسئلہ کشمیر: علاقائی امن و سلامتی کیلئے چیلنج‘‘ پر ایک سیمینار میں پاکستان کے ممتاز سفارت کار اور آزاد کشمیر کے موجودہ صدر جناب مسعود خاں بتا رہے تھے کہ ہندوستانی وزیر خارجہ نٹور سنگھ نے ایک ملاقات میں خورشید محمود قصوری سے کہا تھا:ہم پاکستان کو داد دیتے ہیں کہ اس نے ہندوستان کے تمام تر عالمی اثرو رسوخ کے باوجود مسئلہ کشمیر کو عالمی فورمز پر زندہ رکھا‘‘۔نٹور سنگھ نے یہ بات خورشید قصوری کی دل جوئی کیلئے نہیں کی تھی‘ بلکہ ہندوستانی وزیر خارجہ کی زبانی یہ ایک تاریخی حقیقت کا اظہار تھا۔ ماضی میں دور تک جانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان نے تو اس کیلئے چار جنگیں تک لڑی تھیں۔ جنرل ضیا الحق کے بعد شروع ہونے والے جمہوری دور کی بات کریں تو 5 فروری کو ملک بھر میں” یوم کشمیر‘‘ منانے کا آغاز ہوا۔ نواز شریف‘ اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ اور پنجاب کے (دوسری بار) وزیراعلیٰ تھے۔ قاضی حسین احمد کی تجویز پر انہوں نے 5 فروری کو ملک گیر” یوم کشمیر‘‘ منانے کی اپیل کر دی۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے تائید میں تاخیر نہ کی۔ اگلے روز (6 فروری کو) وزیراعظم صاحبہ کی دعوت پر پارلیمانی لیڈروں اور چاروں وزرا ء اعلیٰ کی خصوصی میٹنگ اور پھر دس فروری کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم بے نظیر کہہ رہی تھیں‘ ہم جنگ نہیں چاہتے‘ نہ کوئی جنگی جنون پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کشمیریوں کے مسلمہ حقِ خودارادیت پر خاموش بھی نہیں رہ سکتے۔ محترمہ کے دوسرے دور (1993-96ء) میں کشمیر کاز کیلئے جو سعی و کاوش ہوئی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ بزرگ سیاستدان نواب زادہ نصراللہ خاں کشمیر کمیٹی کے سربراہ تھے۔ پیرانہ سالی کے باوجود وہ دنیا بھر کے اہم دارالحکومتوں میں پہنچے۔ نواب زادہ صاحب کاسا بلانکا کی او آئی سی سربراہ کانفرنس کی کہانی بھی مزے سے بیان کیا کرتے۔ کانفرنس میں وزیراعظم بے نظیر نے اپنے زوردار خطاب میں کشمیر پر او آئی سی کا ”کانٹیکٹ گروپ‘‘ بنانے کی تجویز پیش کی۔ اگلے روز کانٹیکٹ گروپ کے اولین اجلاس میں یہ بات سب کیلئے خوشگوار حیرت کا باعث تھی کہ (تب) ولی عہد عبداللہ بن عبدالعزیز سعودی عرب کی نمائندگی کیلئے خود چلے آئے تھے۔ اس دور میں ایوانِ صدر میں ”خصوصی کشمیر سیل‘‘ کا باقاعدہ ماہانہ اجلاس ہوتا جس میں وزیراعظم‘ وزیر خارجہ‘ کشمیر کمیٹی کے سربراہ اور عسکری حکام شریک ہوتے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حقِ خودارادیت کی تحریک ایک نیا رُخ اختیار کر چکی تھی۔ سیاسی اور سفارتی محاذ پر آل پارٹیز حریت کانفرنس سرگرم عمل تھی تو نوجوان اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لیے مسلح جدوجہد میں مصروف تھے۔ ہر روز نئے قبرستان‘ نئی قبریں ‘ فیض کے الفاظ میں ؎
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
یو این جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں کشمیر کو فلیش پوائنٹ قرار دیا جانے لگا۔ 28 مئی 1998ء کو پاکستان کے ایٹمی تجربات کے بعد کشمیر نیوکلیر فلیش پوائنٹ بن گیا۔ یورپی یونین اور غیروابستہ ممالک کی تنظیم سمیت تمام عالمی فورمز کشمیر کے پرامن حل پر زور دینے لگے تھے۔ پھر واجپائی کی بس یاترا اور مسئلہ کشمیر کے پرامن سیاسی حل کیلئے ”اعلانِ لاہور‘‘ اور پھر ”کارگل‘‘ (جس کی تفصیل کا یہاں محل نہیں)۔”نواز شریف‘ مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات‘‘ ایک الگ اور طویل موضوع ہے۔ ان کے صرف تیسرے دور کی بات کریں تو انہوں نے یو این جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے اپنے چاروں خطابات میں مسئلہ کشمیر پورے زور و شور سے اٹھایا اور عالمی برادری کو یاد دلایا کہ اس نے اس مسئلے کے حل اور اہل کشمیر کے حقِ خود ارادیت کے لیے وہ کردار ادا نہیں کیا‘ جو اسے کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اہل کشمیر کے مصائب و آلام کو عالمی سیاست کے قالین کے نیچے نہیں چھپایا جا سکتا۔
5 اگست 2019ء کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا‘ جب ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مودی حکومت نے کشمیریوں کو ان کی شناخت اور برائے نام داخلی خودمختاری سے بھی محروم کر دیا۔ تب سے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا نیا باب رقم ہو رہا ہے۔ آگ ہے‘ اولادِ ابراہیم ہے‘ نمرود ہے۔ تب سے کشمیری عوام مسلسل لاک ڈائون میں ہیں۔ اہل پاکستان اور ساری دنیا‘ کورونا کرائسس میں لاک ڈائون کے عذاب کا تجربہ کر چکی ہے‘ کشمیر کا لاک ڈائون تو اس سے کہیں سخت تر اور سنگین تر ہے۔ انٹرنیٹ کے تعطل نے دنیا سے ان کا رابطہ منقطع کر دیا۔ اور پھر ایک شہر کو دوسرے شہر کی اور ایک محلے کو دوسرے محلے کی خبر نہ رہی۔ اس ایک سال کے عرصے میں چار لاکھ سے زائد غیرکشمیریوں کو یہاں کا ڈومیسائل دیا جا چکا (ان میں زیادہ تعداد بھارتی فوجیوں کی ہے) آئندہ اڑھائی تین سال میں 28 لاکھ ہندوستانیوں کی آبادکاری کا منصوبہ ہے۔ ایسے میں حکومت پاکستان نے 5 اگست کو” یومِ استحصال‘‘ منانے کا اعلان کیا ہے۔