پاکستان

سانحہ اے پی ایس: اٹارنی جنرل کو کمیشن رپورٹ پر حکومت سے ہدایت لینے کا حکم

Share

سپریم کورٹ نے سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) ازخود نوٹس کیس میں انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر اٹارنی جنرل کو حکومت سے ہدایت لینے کا حکم دے دیا۔

ساتھ ہی چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داران کو نہیں چھوڑیں گے۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سانحہ اے پی ایس ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت اے پی ایس کے شہید بچوں کے والدین کی بڑی تعداد عدالت میں پیش ہوئی جبکہ انکوائری کمیشن کی 6 جلدوں پر مشتمل رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی گئی۔‎

اس موقع پر والدین کی جانب سے انصاف کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا کہ پہلے دن سے ہی انصاف مانگ رہے ہیں لیکن ابھی تک انصاف نہیں ملا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں والدین سے بے حد ہمدردی ہے، اب کیس سپریم کورٹ کے پاس ہے، والدین کو ضرور انصاف ملے گا۔

عدالتی ریمارکس پر والدین نے کہا کہ جو ہوا ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا، ساتھ ہی انہوں نے عدالت سے کمیشن کی رپورٹ کاپی فراہم کرنی استدعا کی، جس پر بینچ کے رکن جسٹس اعجازالاحسن بولے کہ رپورٹ خفیہ ہے، ابھی آپ کو نہیں دے سکتے۔

اسی کے ساتھ ہی چیف جسٹس گلزار احمد نے یہ ریمارکس دیے کہ ابھی ہم نے رپورٹ نہیں پڑھی، حکومت کا جواب آئے گا تو دیکھ لیں گے، قانون اور آئین کے مطابق جو ہوگا وہیں کریں گے۔

عدالت میں سماعت کے دوران شہید بچوں کے والدین آبدیدہ بھی ہوئے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہے، کوتاہی کو قانون کے مطابق دیکھیں گے اور کسی ذمہ دار کو نہیں چھوڑیں گے۔

ساتھ ہی چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ والدین کو عدلیہ پر اعتماد ہونا چاہیے۔

بعد ازاں عدالت نے کمیشن رپورٹ کی کاپی اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل حکومت سے ہدایت لے کر آئندہ کے لائحہ عمل سے متعلق آگاہ کریں۔

اب اس کیس کی سماعت 4 ہفتوں بعد ہوگی۔

خیال رہے کہ 9 جولائی کو اے پی ایس کمیشن کے ترجمان عمران اللہ نے بتایا تھا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے کمیشن نے اپنی کارروائی مکمل کرلی اور سربمہر رپورٹ عدالت عظمیٰ کو بھیج دی۔

انہوں نے بتایا تھا کہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ 3 ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔

عمران اللہ کا کہنا تھا کہ کمیشن کی جانب سے سانحے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین سمیت 132 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔

علاوہ ازیں انہوں نے مزید بتایا تگا کہ کمیشن نے 101 گواہان اور 31 پولیس، آرمی اور دیگر افسران کے بیانات بھی ریکارڈ کئے۔

یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 6 دہشت گردوں نے اے پی ایس پر بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے طلبہ سمیت 140 سے زائد افراد کو شہید کردیا تھا۔

سانحہ اے پی ایس کے بعد پاک فوج نے قبائلی علاقوں میں آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا تھا اور حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کا آغاز کرنے کا اعلان کیا تھا۔

جس کے بعد اپریل 2018 میں بچوں کے والدین کی درخواست اور ان کی شکایات کے ازالے کے لیے اُس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا تھا۔

والدین نے مطالبہ کیا تھا کہ اس معاملے میں ایک غیر جانبدار جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے تاکہ اسے نظر انداز کرنے والے متعلقہ حکام کو سبق سکھایا جاسکے۔

بعد ازاں 9 مئی 2018 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے سانحے کی تحقیقات کے لیے پشاور ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل کمیشن بنانے کے لیے زبانی احکامات جاری کیے تھے تاہم ہائی کورٹ کو تحریری احکامات موصول نہیں ہوئے تھے جس کے باعث کمیشن تشکیل نہیں پایا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے 5 اکتوبر 2018 کو کیس کی سماعت کے دوران کمیشن کی تشکیل کے لیے تحریری احکامات صادر کر دیئے تھے۔

جس کے بعد 14 اکتوبر 2018 کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں جسٹس محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں اے پی ایس سانحے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔

جسٹس ابراہیم خان کی معاونت کے لیے 3 دیگر افسران بھی کمیشن میں شامل تھے۔