اگست کا مہینہ جاپا ن میں مرنے والوں کویاد کرنے کے لئے مخصوص ہے۔جس طرح ہم لوگ محرم الحرام میں روایتی طور پر اپنے پیاروں کی قبروں کی صفائی ستھرائی اور لیپا لپائی کے لئے جاتے ہیں،یہاں یہ رواج ہے کہ ماہِ اگست میں ہر شخص اپنے آبائی علاقے میں واپس جاتا ہے اور اپنے عزیزواقارب کی قبروں پر حاضری کے علاوہ ان کی دیکھ بھال اور مرمت کا کام بھی کرتاہے۔جاپانی قبرستان پتھروں سے تراشیدہ قبور پر مشتمل ہوتا ہے۔کنکریٹ کے فرش پر قدِ آدم اونچائی اور ایک مربع میٹررقبے میں قبر کا پتھر سے تراشیدہ تعویزہوتا ہے۔قبر کو سمادھی کہنا زیادہ مناسب ہوگا،کیونکہ مردے کو جلانے کے بعد اس کی استھیاں اور باقیات ایک چھوٹے سے مٹکے میں بند کرکے اس قبر میں رکھی جاتی ہیں۔اس سمادھی کی اوسط قیمت پاکستانی روپے میں تیس لاکھ کے قریب ہوتی ہے،مہنگی اقسام کی قبریں تو کروڑوں میں بنتی ہیں۔یہاں مگر ہر خاندان کی ایک ہی سمادھی ہوتی ہے،اس میں ہر مرنے والے کا مٹکا رکھ دیا جاتا ہے۔سکول کے بچوں کو پورا مہینہ چھٹی ہوتی ہے۔
دفاتر میں کیلنڈر کی تو کوئی چھٹی نہیں ہوتی،لیکن ہر ادارہ اپنی سہولت کے مطابق چار،چھ دن یا پھر ہفتے بھر کی چھٹیاں مناتاہے۔ان چھٹیوں کامقصد ملازمین کو اپنے آبائی علاقوں میں جانے کا موقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔روایتی لباس میں ملبوس طبل وعلم بردار نوجوان جلوس نکالتے ہیں،ہر بستی بستی نگر نگر نکلنے والے ان جلوسوں کا رنگ تعزیے کی بجائے عرس کا ہوتا ہے۔اس تفاوت کی وجہ موت اور حیات کامذہبی تصورہے۔اس برس کرونا وباCovid-19کے سبب روایتی گہماگہمی اورجوش وخروش سماجی فاصلوں کے احتیاطی اصولوں کی نذر ہوگیاہے۔اگست کے مہینے میں ”اوبون“نامی اس تہوار کو منانے کی وجہ غالباًیہ ہے کہ دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ نے اسی مہینے کے دوران ہیروشیمااور ناگا ساکی پر ایٹمی بمباری کی تھی۔جس سے لاکھوں کی تعدادمیں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔امریکی ایٹم بموں کے نتیجے میں ہیروشیما اور ناگاساکی کے لوگوں نے جس آفت کا سامنا کیا،اس کے لئے المیے کا لفظ بہت چھوٹا لگتاہے۔چشم زدن میں لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔آگ کے شعلوں اور تابکار شعاعوں سے زندہ بچ جانے والوں میں لاکھوں انسان ہمیشہ کے لئے معذورہو گئے۔ایٹم بم کے نتیجے میں آنے والی ہولناک تباہی ایک ہی دن کی بپتا نہیں تھی۔برسوں بعد پیدا ہونے والے کئی بچے ایٹمی تابکاری اثرات کی وجہ سے معذورپیدا ہوتے رہے۔اس مرگِ انبوہ کا مشاہدہ کرنے والے بہت سارے لوگوں نے وحشت کی وجہ سے کئی دہائیوں تک ایک لفظ بھی منہ سے نہیں بولا،پیہم خاموش رہے۔خوف،دہشت اورکرب کے اثرات زندہ بچ جانے والوں میں 75(پچھتر)سال بعد،آج بھی دیکھے اور محسوس کئے جاسکتے ہیں۔
جاپانیوں نے ایٹمی بمباری کے نتیجے میں ہنستے،بستے شہروں کو جل کر راکھ ہوتے دیکھا۔ایسی تباہی کہ جس کی نظیرانسانی تاریخ میں اس سے پہلے دنیا میں کہیں نہیں ملتی،نہ ہی اس کے بعد کسی انسانی بستی نے ایسی بربادی کا سامنا کیا۔اس قوم نے مگر ہیروشیما اور ناگا ساکی کی راکھ پر بیٹھ کر گریہ و ماتم پر ہی اکتفا نہیں کیا،نئے جذبے سے سرشار ہو کر تعمیرنوکی ایسی بھرپور مہم شروع کی کہ آج تک جاری محسوس ہوتی ہے۔ایسا بھی نہیں ہوا کہ جاپانیوں نے ماضی کو یکسر فراموش کر دیا۔روایت پسندی اور جدیدیت کا ایسا خوبصورت امتزاج شاید ہی دنیا کے کسی اور معاشرے میں نظر آئے جیسا جاپان میں ملتاہے۔اچھی بات یہ ہے کہ یہ دونوں رنگ مکمل مفاہمت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔
دنیا میں اس وقت موجود ایٹمی ہتھیاروں کی کل تعدادکاصحیح تخمینہ لگاناتوکافی مشکل ہے،مگر دس ہزار جوہری ہتھیارماہرین کے نزدیک ہائی الرٹ پوزیشن میں ہیں،جوکسی بھی وقت فائر کئے جاسکتے ہیں۔جوہری ہتھیاروں کے مجموعی عالمی ذخائر کا 93فیصد حصہّ امریکہ اورروس کے پاس ہے۔بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں شائع شدہ ماہرین کی رائے کے مطابق پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی تعدادکا اندازہ 120اور140کے درمیان ہے،جبکہ
ہندوستان کے پاس 110کے آس پاس جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود ہے۔عالمی ماہرین کی رائے ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ذخائر ہندوستان کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔چین کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی موجودہ تعدادکا اندازہ 250کے قریب ہے۔یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ چین کے ایٹمی اسلحے کے ذخائرپاکستان اوربھارت کے مجموعی ذخائر کے برابرہیں۔
ان دنوں چین اور ہندوستان کے درمیان بڑھتی ہوئی سرحدی کشیدگی کی وجہ سے عالمی سطح پربہت تشویش پائی جاتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں متحارب ممالک ایٹمی قوت رکھتے ہیں۔جنگ کی صورت میں تزویراتی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کاغیر جانبدار رہناممکن نہیں ہوگا۔جنگ کی صورت میں دنیا کی کل آبادی کاچالیس(40)فیصد حصہّ جو ان تین ممالک میں آباد ہے براہِ راست ایٹمی بمباری کی لپیٹ میں آجائے گا،جوکہ یقینا ایک خوفناک منظرنامہ ہے۔ایٹمی بمباری کے نتیجے میں ہیروشیما اور ناگاساکی شہر کے مکین جس اذیت اور کرب سے گزرے خدا کرے ایسی تباہی دنیاکی کسی اور بستی کوکے مکینوں کو نہ دیکھنی پڑے۔