وہ گئی تو پیچھے کیا رہ گیا۔ زُہرہ بائی انبالے والی کا ایک گانا ہے جس میں وہ کہتی ہیں ”رہتی نہیں کسی کی ظالم جوانیاں‘‘۔ بات صرف جوانی کی نہیں۔ جوانی کے ساتھ جو ظلم منسوب ہے وہ جوانی کے ڈھل جانے کے بعد بھی کارفرما رہتا ہے بشرطیکہ دل میں دھڑکن اور آنکھ میں شرارت ہو۔ بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مشہور امریکی گوّیا فرینک سناٹرا (Frank Sinatra) کبھی اکیلا نہیں رہا۔ جوانی میں شادیاں کیں اور عمر ڈھلی بھی تو شادیوں سے باز نہ آئے۔ چونکہ ایک سپر سٹار تھے اس لئے بیویاں بھی ان کی بڑی چمک دمک والی تھیں۔ اُن کی جوانی میں البتہ ایوا گارڈنر (Ava Gardner) سے جو شادی ہوئی اُسے ہماری عمر کے لوگ یاد رکھتے ہیں کیونکہ ایوا گارڈنر اپنے زمانے کی غضب کی حسینہ تھیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ شادی زیادہ دیر چل نہ سکی۔
ایک فلم کی شوٹنگ کے لئے ایوا گارڈنر لاہور بھی آئیں۔ فلم بھوانی جنکشن تھی اور اُن کا کو سٹار سٹیورٹ گرینجر (Stewart Granger) تھا۔ اس وقت لاہور کا سب سے اعلیٰ ہوٹل فلیٹیز ہوا کرتا تھا اوردونوں ایکٹرز وہیں ٹھہرے۔ جس کمرے میں ایوا گارڈنر نے قیام کیا اس کے دروازے پہ آج بھی لکھا ہوا ہے ایوا گارڈنر سویٹ (suite)۔ بھلے وقت تھے اورلاہور کی بھی اپنی شان ہوا کرتی تھی۔ کہتے ہیں کہ ایوا گارڈنر اور ان کے کو سٹار ٹہلتے ٹہلتے مال پہ آئے اور یہاں ایک عدد دکان میں کچھ شاپنگ بھی کی۔
کئی آدمیوں پہ متعدد شادیاں جچتی ہیں، ہر ایک پہ نہیں۔ فرینک سناٹرا جو کر سکتا تھا وہ ہرکوئی نہیں کر سکتا۔ اِسی طرح جو الزبتھ ٹیلر نے اپنی زندگی میں کیا وہ ہر عورت کے بس میں نہیں ہوتا۔ اُن کی چھ سات شادیاں تھیں جن میں سے رچرڈ برٹن کے ساتھ انہوں نے دو بار شادی کی۔ پانچویں یا چھٹی شادی ایک ڈشکرے سے مزدور‘ جسے انگریزی میں برک لیئر (brick layer) یعنی اینٹیں لگانے والا کہتے ہیں‘ سے کی۔ نوجوان خاصا خوبرو تھا اور الزبتھ ٹیلر کی عمر تب شب ہجراں کی طرف جارہی تھی‘ لیکن الزبتھ ٹیلر کا کمال تھا، بن سنور کے اپنے نوجوان شوہر کے ساتھ نکلتیں اور پشیمانی نام کی چیز ان کے چہرے پہ کہیں دور سے بھی نہ گزرتی۔ ایسا ہر خاتون نہیں کرسکتی‘ لیکن وہ الزبتھ ٹیلر تھی اور عام لوگوں کا قانون اُن پہ لاگو نہیں ہوتا تھا۔
مے ویسٹ (Mae West) گزرے زمانے کی ایک بہت مشہور امریکن ایکٹریس تھیں۔ ان کا حسن لازوال تھا۔ ستر برس اور اس سے اوپر کی ہوئیں پھر بھی ان کی شخصیت میں بھرپور کشش موجود رہی۔ ڈھلتی جوانی کا لقب اُن پہ کبھی نہیں لگا۔ ایک اور بات، آواز اُن کی بڑی مدھر تھی۔
کچھ بڑھاپا عمر سے منسلک ہے لیکن کچھ بڑھاپا انسان اپنے پہ طاری کر لیتا ہے۔ شرارت آنکھ سے گئی تو سمجھیے کہ بڑھاپے کے اسیر اگر آپ ہو نہیں گئے تو ہونے والے ہیں۔ ایسی کیفیت میں انسان کے وجود سے چاشنی جانا شروع ہو جاتی ہے؛ البتہ جنہوں نے دلوں میں اُمنگیں پال رکھی ہوں ان کا ایک اپنا سٹائل ہوتا ہے۔ عمر کا بے رحم جبر اُن کے گرد آ جائے تب بھی اُن کا انداز الگ ہوتا ہے۔ میں متعد د بار ذکر کر چکا ہوں کہ اٹلی کے سابق وزیر اعظم سلویو برلسکونی، اُن کی عمر 84۔85 سال ہو چکی ہے لیکن جسے بڑھاپا کہتے ہیں وہ اُن کے قریب سے نہیں گزرا۔ معمول اب بھی وہ ہے جو اوباش نوجوانوں کا ہوتا ہے۔ ان پہ بھی عام لوگوں کا قانون لاگو نہیں ہوتا کیونکہ وہ عام انسان نہیں ہیں۔ ایک تو دولت بے پناہ ہے اور جب دولت اتنی ہو اور آنکھ میں شرارت موجود ہو تو آپ وہ کچھ کر سکتے ہیں جو ہر انسان نہیں کر سکتا۔ آرزوئیں پالنا اور چیز ہے، وہ تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن آرزوؤں کو پورا کرنا یہ ہر ایک کے بس میں نہیں ہوتا۔ کون ہے جو دل ہی دل میں حرم نہیں رکھنا چاہتا لیکن ہر ایک رکھ نہیں سکتا۔
آنکھ کی مستی کے علاوہ ایک اور چیز خوشگوار بڑھاپے کے لئے ضروری ہے اور وہ ہے نظام ہاضمہ کا درست ہونا۔ یہ نہیں کہ آپ صبح شام ہرن یا دُنبے کھاتے رہیں۔ بس دو ٹائم کی روٹی ہو جو آپ بھوک سے کھائیں اور طبیعت پہ بھاری نہ گزرے۔ اتنی استطاعت ہو تو انسان اپنے آپ کو خوش قسمت جانے اور اگر گزرتے سالوں کے ساتھ لوازماتِ شب بھی پورے ہو سکیں اور طبیعت یہ برداشت کر سکے تو بشر اور کیا مانگے۔ قصہ مختصر، انسان جتنے دن جیے ہوش و حواس میں جیے اور چلتے پھرتے جیے۔ ہسپتالوں کے نزدیک نہ جانا پڑے اور یہ بستر پہ قید ہونے والی بات تو بالکل نہ ہو۔ ایک اور بھی مرض ہے جو عمر کے ساتھ انسانوںکو لاحق ہو جاتا ہے اور وہ ہے اپنے اوپر پاکیزگی کے زعم کو بٹھا لینا۔ یعنی کچھ اور بس میں نہ رہے تو متقی بن جانا۔ ایسی کیفیت دیکھ کے ہنسی آ جاتی ہے۔ سامنے سے کسی ایسے مجبوری کے پرہیزگار کا آنا ہو تو کوشش ہوتی ہے کہ سڑک کے دوسرے کنارے سے گزر ہوجائے تاکہ علیک سلیک کی نوبت نہ آئے۔ ایسے حضرات کی گفتگو عموماً تھوڑی ثقیل ہوتی ہے۔ اس سے بچا ہی جائے تو بہتر رہتا ہے۔
اسلام نے ایک سے زیادہ کی اجازت دی ہوئی ہے لیکن کچھ تو یہ مزاج کی بات ہے کچھ حوصلے کی۔ کچھ مزاج ایسے ہیں جو ایک سے بھی اُکتا جاتے ہیں۔ ایک تجربہ ہی اُن کے لئے کافی ٹھہرتا ہے اور کسی اور کے ساتھ وقت گزارنے کی بجائے اُنہیں اپنی خلوت زیادہ راس آتی ہے۔ کچھ ایسے ہیں جن کے دل میں ایک سے زیادہ معرکوں کی آرزو تو رہتی ہے لیکن حوصلہ نہیں پڑتا۔ کچھ معاشرے کا ڈر کہ لوگ کیا کہیں گے، کچھ اولاد کی سرکشی کہ بابے کو کیا ہو گیا ہے، چین سے کیوں نہیں بیٹھتا۔ تب آرزوئیں دل میں ہی دب کے رہ جاتی ہیں اور انسان کو مجبوراً آہوں اور شاعری پہ گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی ہے کہ بیگمات کا جبر ہوتا ہے۔ سیماب نے تو یہ کہا تھا کہ ”ہائے سیماب اس کی مجبوری، جس نے کی شباب میں توبہ‘‘ لیکن اس شخص کی مجبوری بھی کٹھن کہلائے گی جس کی بیگم تھوڑی سی جاندار ہو۔ محفلوں میں ایسے مردوں کو دیکھا جائے تو مجسمۂ بے بسی لگتے ہیں۔
صحیح خوش قسمت وہ ہیں جو ایسے بندھنوں سے آزاد ہو چکے ہوں اور جن کی آنکھ میں شرارت ہنوز قائم ہو۔ لیکن یہاں ایک اور شرط بھی لازم ہے۔ جیب میں کچھ ہونا چاہیے‘ نہیں تو مفلسی کے مارے عاشق سے زیادہ کوئی عاشقِ نامراد نہیں ہوتا۔ ہر کوئی حافظ شیرازی تو ہو نہیں سکتا کہ پھٹے کپڑے پہنے امیر تیمور کے سامنے اپنے اس شعر کا عذر پیش کر رہا ہو: ”اگر آں ترکِ شیرازی بدست آرد دلِ ما را، بخالِ ہندوش بخشم سمر قند و بخارا را (اگر وہ شیراز کی ترک میرا دل اپنے ہاتھ میں لے لے، اس کے کالے تل کے لئے میں سمر قند اور بخارا دے دوں)۔ کوئی حافظ، غالب یا فیض ہو وہ تو شعروں پہ گزارہ کر سکتا ہے‘ ہم جیسا کوئی شاعری کی کوشش کرے تو جوتے ہی کھائے‘ لہٰذا جیب والی شر ط اہم ہے۔
ایک اور بات ہے، اس کا بھی تھوڑا ذکر ہو جائے۔ جسے ہم اداسیِ شب کہتے ہیں اس کے کم ہونے کے لئے مخصوص مقامات کا مخصوص ماحول درکار ہوتا ہے۔ ایسے مخصوص مقامات ہوا کرتے تھے لیکن اب نہیں رہے۔ ان کا نام لینا بھی اب محال ہے۔ وہ جگہیں گئیں، وہ محفلیں اُجڑ گئیں۔ اب تو بس ایک بناوٹ کا ماحول ہے۔ ہو بہت کچھ جاتا ہے لیکن کھل کے بات نہیں ہو سکتی۔ کہتے ہیں آزادیٔ اظہار کی ضمانت آئین میں درج ہے۔ کیا گناہ گاروں کو بھی مملکتِ خدا داد میں یہ آزادی حاصل ہے؟