سنہ 1893 میں ناروے کے مہم جو فریڈجوف نینسن نے قطب شمالی کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا جس کے بعد شمالی عرض البلد کا ریکارڈ توڑنے پر انھیں عالمی شہرت نصیب ہوئی۔
وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اس سفر کے دوران ایک عجیب و غریب رجحان کا مشاہدہ کیا جس نے ایک صدی سے زیادہ عرصے تک سائنسدانوں کو حیرت میں مبتلا کیے رکھا۔
شمالی سائبریا کے آرکٹک پانیوں سے گزرتے ہوئے نینسن نے دیکھا کہ ان کے ’فریم‘ نامی جہاز نے اچانک رکنا شروع کر دیا حالانکہ اس کے انجن پوری رفتار سے چل رہے تھے۔
فریڈجوف نے اس صورتحال کو ایک ’پُراسرار قوت‘ کے طور پر بیان کیا جس نے ان کے جہاز کو پکڑ لیا تھا جس کی وجہ سے جہاز بمشکل حرکت کر پا رہا تھا۔
انھوں نے بعد میں بتایا ’ہم نے اس پھندے سے نکلنے کی کوشش کی، بعض اوقات ہم اِدھر اُدھر زور لگاتے ، ہم نے اس سے بچنے کے لیے ہر طرح کی حکمت عملی آزمائی لیکن بہت کم کامیابی ملی۔‘
نینسن اس عجیب و غریب معمے کا مشاہدہ کرنے والے پہلے شخص بن گئے اور انھوں نے پانی کے اس پھندے کو ’مردہ پانی‘ کا نام دیا۔
پانی کی نمکین پرت
گیارہ سال بعد سنہ 1904 میں سویڈش ماہر طبیعات اور بحری سائنسدان ویگن والفرڈ ایکمین اس رجحان کی شناخت اور اس کے پیچھے وجہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
ایکمین نے لیبارٹری میں اس مشاہدے کا مظاہرہ کیا کہ آرکٹک اوقیانوس کے اس حصے میں سطح کے نیچے نمک اور تازہ پانی کی تہوں کے درمیان ایسی لہریں پیدا ہوتی ہیں جن کی کثافت مختلف ہوتی ہے۔
انھوں نے اس کا سبب، گلیشئیرز کا پگھلنا بتایا جس سے سمندر کے اوپر تازہ پانی کی ایک پرت بن جاتی ہے۔ یہ پانی زیادہ نمکین اور گاڑھا ہوتا ہے۔
تاہم لیبارٹری میں کیے گئے تجربات کے دوران، ایکمین نے مشاہدہ کیا کہ ان لہروں نے جہاز کی رفتار میں ارتعاش پیدا کیا ہے۔
یہ نینسن کے مشاہدات سے مختلف ہے جن کا جہاز مستقل اور غیر معمولی کم رفتار کے ساتھ رُک گیا تھا۔
اب تک کوئی ان اختلافات کی وضاحت نہں کر سکا اور نہ ہی پوری طرح سے یہ سمجھ پایا ہے کہ ’مردہ پانی‘ کیسے اثر انداز ہوتا ہے۔
لیکن فرانس کے تحقیقی ادارے نیشنل سینٹر برائے سائنسی ریسرچ (سی این آر ایس) اور یونیورسٹی آف پوائٹرز کی ایک بین المذاہب ٹیم کا خیال ہے کہ انھوں نے دونوں معموں کا راز پا لیا ہے۔
’کنویئر بیلٹ (سامان لانے والی بیلٹ)‘
اس رجحان کو سمجھنے کے لیے ماہر طبیعیات کے گروہ، فلوڈ میکینکس اور فرانسیسی ریاضی دانوں کے ماہرین نے پانی کے اندر مختلف لہروں کی ریاضی کی درجہ بندی اور تجربے کی تصویروں والے تجزیے کو ’سب پکسل پسکیل‘ پر استعمال کیا۔
جولائی کے اوائل میں سائنسی جریدے پی این اے ایس میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایکمین نے لہروں کی جو رفتار بیان کی اس کی وجہ لہروں کی مختلف اقسام ہیں جو ایک طرح کے ’ارتعاش والے کنویئر بیلٹ‘ کے طور پر کام کرتی ہے۔
اس ’ٹیپ‘ کی وجہ سے کشتیاں آگے پیچھے ہو رہی ہیں۔
سائنس دانوں نے نینسن کے ساتھ ایکمین کے مشاہدات کو یکجا کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ دوہرا اثر صرف عارضی ہے۔
انھوں نے اپنے مقالے میں یہ بھی شائع کیا کہ آخر میں ’جہاز اس صورتحال سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اس مستقل رفتار تک پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں نینسن نے بیان کیا۔‘
ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ رجحان ناصرف گلیشئیر والی جگہوں پر وقوع پذیر ہوتا ہے بلکہ ان تمام بحیروں اور سمندروں میں بھی ہوتا ہے جہاں جہاں مختلف کثافت کے پانی آپس میں ملتے ہیں۔
اس تحقیق کے شریک مصنف جرمین رؤسیوک نے سپین کے اے بی سی اخبار کو دیے گئے بیان میں کہا ’ایسا موسم گرما کے دوران سرد پہاڑی جھیلوں میں بھی ہوتا ہے کیونکہ وہاں درجہ حرارت میں استحکام ہوتا ہے اور اس وجہ سے تیراکوں کے ڈوب جانے کا خطرہ رہتا ہے۔‘
رؤسیوک نے مزید بتایا کہ نمکین سمندری پانی اور ندیوں کے بہاؤ کے باعث یہ رجحان جنوبی امریکہ میں اورینکو جیسے دریاؤں کے سرے پر بھی دیکھ گیا ہے۔
کلوپیٹرا
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک صدی سے زیادہ عرصہ پہلے نینسن کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس پُراسرار راز پر سے پردہ ہٹانے کے لیے یہ تحقیق نہیں کی گئی، بلکہ اس سے کہیں زیادہ پرانی گتھی کو سلجھانے کے لیے ایسا کیا گیا تھا۔
یہ کام اس تحقیقات کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے کہ قدیم یونان میں، ایکیو یا ایکٹیئم (31 قبل مسیح) کی جنگ کے دوران، کِیس اوکٹاویو سے بھی زیادہ کمزور بحری جہازوں کا سامنا کرنے والے کلوپیٹرا اور مارکو انٹونیو کے بڑے جہاز کیسے غائب ہو گئے تھے۔
کیا ایکسیو بے، جس میں ایک لمبی تاریک کھائی کی تمام خصوصیات ہیں، نے مصر کی ملکہ کے بحری بیڑے کو مردہ پانی میں غرق کر دیا تھا؟
یہی سوال فرانسیسی سائنسدانوں نے خود سے پوچھا۔
’اب ہمارے پاس اس حیرت انگیز شکست کی وضاحت کرنے کے لیے ایک اور قیاس آرائی ہے، جسے زمانہِ قدیم میں مچھلی کی ایک قسم سے منسوب کیا جاتا تھا، ’کنڈے سے لگائی گئی پھنسانے والی مچھلی۔‘