وہ سائنسدان جو اس تحقیق میں مگن تھے کہ آرام سے نیند میں چلے جانے کے لیے بہترین مصنوعی روشنی کیسی ہونی چاہیے، اب انھوں نے اس خیال کو رد کر دیا ہے کہ موبائل فون کی سکرین کی وجہ سے لوگ جاگتے رہتے ہیں۔
برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی سے منسلک ان سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ موبائل فونز اور دوسرے جدید آلات سے نکلنے والی نیلی روشنی نہیں ہے۔
یونیورسٹی کی ٹیم نے اس سلسلے میں چوہوں پر تجربات کیے اور روشنیوں کو مدھم اور تیز کر کے دیکھا کہ اس کے چوہوں پر کیا اثرات ہوتے ہیں۔
حیاتیات کے جریدے ’کرنٹ بائیالوجی‘ میں شائع ہونے والی اس متنازعہ تحقیق کے مطابق ان کے سوال کا جواب اس بات میں پوشیدہ ہے کہ روشنی کتنی تیز اور کتنی گداز ہے۔
اس تحقیق کی ضرورت کیا تھی؟
ہم میں سے ہر کسی کے سونے جاگنے کا اپنا اپنا وقت ہے۔
اکثر لوگوں کا جسمانی نظام الاوقات یا باڈی کلاک ارد گرد کے ماحول سے ہم آہنگ ہوتا ہے، یعنی وہ دن کی روشنی میں چاک و چوبند ہوتے ہیں اور رات کو انہیں نیند آنے لگتی ہے۔
لیکن ماہرین کو ایک عرصے سے شک تھا کہ شاید مصنوعی روشنی ہمارے اس نظام الاوقات میں گڑ بڑ کا باعث بن رہی ہے۔
اور لوگوں میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ کمپیوٹر سکرین اور موبائل فونز سے نکلنے والی نیلی روشنی نیند پر بُری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔
تحقیق میں کیا سامنے آیا؟
ٹیم نے جب چوہوں پر تجربات کیے تو انھوں نے نہ صرف روشنی کو کبھی تیز اور کبھی مدھم کر کے دیکھا بلکہ کبھی چوہوں پر پیلی روشنی ڈالی اور کبھی نیلی۔
حسب توقع، ٹیم نے دیکھا کہ تیز روشنی، چاہے وہ نیلی تھی یا پیلی، اس سے چوہے پُرسکون نہیں ہوئے بلکہ زیادہ جاگ گئے۔
لیکن جب روشنی مدھم کر کے دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ پیلی کی نسبت نیلی روشنی زیادہ پرسکون ثابت ہوئی۔
ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ٹِم براؤن کہتے ہیں کہ ان کی تحقیق میں وہی بات ثابت ہوئی جو ہمیں قدرتی طور پر دکھائی دیتی ہے، یعنی دن کی تیز روشنی میں نیند نہیں آتی۔
ڈاکٹر ٹِم براؤن کا کہنا تھا کہ ’دن کے وقت جو روشنی ہم تک پہنچتی ہے وہ قدرے سفید یا پیلے رنگ کی ہوتی ہے اور ہمارے باڈی کلاک پر اس کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے، اور غروبِ آفتاب کے بعد ہمارے ارد گرد روشنی قدرے نیلی ہو جاتی ہے۔
’اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ روشنی آپ کے باڈی کلاک پر اتنی زیادہ اثر انداز نہ ہو تو آپ کا انتخاب مدھم اور نیلی روشنی ہونا چاہیے۔‘
اس کے برعکس چاک و چوبند اور جاگتے رہنے کے لیے تیز سفید یا پیلی روشنی بہتر ہوتی ہے۔
تو اس کا مطلب کیا ہوا؟
کمپیوٹر اور موبائل فونز میں لگی ہوئی ’نائٹ موڈ‘ کی سہولت سے ان سے نکلنے والی نیلی روشنی مدھم پڑ جاتی ہے اور اس کا مقصد آپ کی نیند پر روشنی کے برے اثرات کو کم کرنا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ٹِم براؤن کے بقول ’آج کل اکثر لوگ اپنی ڈیوائس پر روشنی کے رنگ اور ڈسپلے کو تبدیل کرتے رہتے ہیں جس سے سکرین زیادہ پیلی ہو جاتی ہے۔
’ہماری پیشنگوئی یہ ہے کہ رنگ بدلنے کے اثرات بالکل غلط ہو رہے ہیں۔ اور رنگ بدلنے سے وہ فوائد بھی ضائع ہو رہے ہیں جو آپ کو موبائل کی روشنی مدھم کرنے سے حاصل ہو سکتے ہیں۔‘
چوہے رات کو زیادہ چاک و چوبند نہیں ہوتے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ چوہے رات بھر جاگتے رہتے ہیں۔
لیکن محققین کہتے ہیں کہ تمام ممالیہ جانوروں پر روشنی کے اثرات ایک جیسے ہوتے ہیں، چاہے وہ انسان ہوں یا چوہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روشنی کے جو اثرات چوہوں پر دیکھے گئے ہیں، وہ انسانوں پر بھی لاگو ہونے چاہئیں۔‘
تاہم ٹیم کا کہنا ہے کہ ان نتائج کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق ہونی چاہیے۔
اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے آکسفرڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر مینوئل سمپشن کہتے ہیں کہ ’یہ ایک انوکھی تحقیق ہے، لیکن ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ انسانوں پر بھی ایسے ہی اثرات ہوتے ہیں۔ اور جانوروں پر تحقیق کرنے میں مشکل یہی ہوتی ہے (کہ اس کا اطلاق انسانوں پر ہمیشہ نہیں کیا جا سکتا)۔
’یہ بات یقینی بنانے کے لیے مستقبل میں ایسی ہی تحقیق انسانوں پر کی جانی چاہیے۔‘