صحت

کورونا وائرس کے ایک پیچیدہ ترین معمے کو حل کرنے کی جانب پیشرفت

Share

سائنسدانوں نے نئے کورونا وائرس کی وبا کے حوالے سے ایک پیچیدہ ترین معمے سے پردہ اٹھانا شروع کردیا ہے کہ آخر کچھ لوگ کووڈ 19 سے سنگین حد تک بیمار کیوں ہوجاتے ہیں جبکہ بیشتر بہت جلد صحتیاب ہوجاتے ہیں۔

حالیہ تحقیقی رپورٹس کے مطابق مخصوص افراد میں یہ وائرس مدافعتی نظام کو حد سے زیادہ متحرک کردیتا ہے۔

حملہ آور وائرس کے خلاف جنگ میںدرست خلیات اور مالیکیولز کو متحرک کرنے میں ناکامی پر بیمار افراد کے جسم تمام ہتھیاروں کا استعمال شروع کردیتا ہے۔‎

اور یہ حملہ صحت مند ٹشوز میں تباہی مچا دیتا ہے۔

ایک حالیہ تحقیق میں شامل امریکا کی یالے یونیورسٹی کے محقق اکیکو آئیواسکی نے بتایا ‘ہم نے بیماری کے مختلف مراحل میں کچھ حیران کن چیزوں کو دیکھا’۔

کورونا وائرس کے حوالے سے مریضوں کے غیرمعمولی ردعمل پر کام کرنے والے محققین نے جان لیوا حد تک بیمار ہونے والے مریضوں میں وائرس کے ایسے اثرات کو دیکھا جو جلد صحتیاب ہونے والے مریضوں سے مختلف ہوتے ہیں۔

اس حوالے سے امریکا کی پنسلوانیا یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق میں شامل جان وئیری نے بتایا ‘اس طرح کا بہت زیادہ ڈیٹا ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں بہت ابتدا سے ہی حرکت میں آجانا چاہیے، اس طرح ہم بیماری کے اثرات کو تبدیل کرسکتے ہیں’۔

اس سے ملتے جلتے نظام تنفس کی بیماریاں جیسے فلو وائرس جسم میں جگہ بنانے کی کوشش کرتا ہے تو مدافعتی نظام کی جانب سے دو نکاتی دفاع حرکت میں آتا ہے۔

پہلے طریقے سے تیز رفتار جنگجوؤں کی طرح بیماری کے مقام پر حملہ کیا جاتا ہے اور حملہ آور وائرس کو قابو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس سے مدافعتی نظام کو زیادہ منظم حملہ کرنے کے لیے وقت مل جاتا ہے۔

ابتدائی ردعمل کا انحصار سگنل دینے والے مالیکیولز cytokines پر ہوتا ہے جو وائرس کے خلاف ردعمل کا ذمہ دار ہوتا ہے، جو ورم کو حرکت میں لاتا ہے۔

بتدریج ان کی جگہ اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز لے لیتے ہیں جو حملہ آور وائرس اور متاثرہ خلیات سے نمٹنے کے لیے خصوصی طور پر تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔

مگر کورونا وائرس سے سنگین حد تک بیمار ہونے والے افراد میں مدافعتی نظام کا یہ طریقہ کار بکھر جاتا ہے اور جینیاتی طور پر وائرس کو نکال باہر کرنے کی بجائے cytokines کی جانب سے کبھی نہ روکنے والے الارم کو چلادیا جاتا ہے۔

آسان الفاظ میں ورم کا پھیلنا روکتا نہیں چاہے اس کی ضرورت ہی کیوں نہ ہو۔

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی محققق کیتھرین بلیش کے مطابق ‘کسی وائرل انفیکشن کے دوران ورم ہونا معمول کا حصہ ہوتا ہے، مگر یہ اس وقت مسئلہ بن جاتا ہے جب آپ اسے روکنے میں ناکام ہوجائیں’۔

محققین کے مطابق cytokines کے مسلسل سگنلز کے نتیجے میں جسم وائرس کی روک تھام میں ناکام ہوجاتا ہے اور ایسے افراد جو صحتیابی میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، ان میں لگتا ہے کہ یہ جراثیم دیگر مریضوں کے مقابلے میں زیادہ جمع ہوتا ہے مگر یہ مسلسل ورم کا نتیجہ ہوتا ہے۔

پہلی دفاعی کوشش میں ناکامی کے نتیجے میں مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے اور یہ ردعمل اکثر اوقات تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔

کارنیل یونیورسٹی کے ماہر آئیوری آگسٹ کے مطابق ‘ایک طرف مدافعتی نظام کا ردعمل نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے اور دوسری جانب وائرس بھی اپنی نقول بنانے کا سلسلہ جاری رکھتا ہے’۔

گزشتہ ہفتے جریدے نیچر میڈیسین میں شائع ایک تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ کووڈ 19 سے سنگین حد تک بیمار ہونے والے افراد میں مدافعتی نظام کے سگنلز ایسے اہداف پر حملہ آور ہوتے ہیں جو وائرسز نہیں ہوتے۔

محققین کے مطابق مدافعتی نظام کے ردعمل کو 3 اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

پہلی قسم وہ ہے جو وائرسز اور مخصوص بیکٹریا کی خلیات میں مداخلت کے خلاف متحرک ہوتا ہے، دوسری قسم پیراسائٹس پر حملہ آور ہوتی ہے جو خلیات کو متاثر نہیں کرتے، جبکہ تیسری قسم خلیات کے باہر فنگلی اور بیکٹریا سے نمٹتی ہے۔

ہر قسم کی جانب سے مختلف cytokines اس مقصد کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

کووڈ 19 سے معتدل حد تک بیمار ہونے والے افراد میں مدافعتی نظام کی پہلی قسم کا ردعمل سب سے زیادہ مناسب ہوتا ہے جبکہ زیادہ بیماری کا سامنا کرنے والے افراد دوسری اور تیسری اقسام کے ردعمل یا وسائل بھی غیرمعمولی تعداد میں متحرک ہوجاتے ہیں، جو تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ بالکل ایسا ہے جیسے مدافعتی نظام درست راستے کی شناخت میں جدوجہد کا سامنا کررہا ہو۔

یہ جدوجہد بی اور ٹی سیلز کے افعال کو بھی متاثر کرتی ہے، یہ مدافعتی نظام کے 2 ایسے جنگجو ہیں جن کو اپنے حملے کے لیے ایک دوسرے سے رابطے میں رہنا ہوتا ہے۔

گزشتہ ماہ کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کورونا وائرس سے بہت زیادہ بیمار بیشتر مریضوں میں ان دونوں خلیاتی برادریوں کے درمیان ایک رکاوٹ بن جاتا ہے، ابھی اس بارے میں یقینی طور پر کچھ کہنا قبل ازوقت ہے، مگر بظاہر اس طرح کورونا وائرس بی اور ٹی سیلز کو ایک دوسرے سے بات کرنے سے روکتا ہے۔

ان نتائج سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ وائرس کے اس عمل کی روک تھام میں مدد دینے والی ادویات کا استعمال موثر ثابت ہوسکتا ہے مگر ماہرین کے مطابق یہ کہنا آسان ہے مگر کرنا مشکل۔

ان کا کہنا تھا کہ اصل چیلنج اس ردعمل کی روک تھام کرنا ہے اور وہ بھی اسے دبائے بغیر، جبکہ اس کے ساتھ درست قسم کے ردعمل کا حصول بھی چاہیے، تو یہ ایک مشکل کام ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے وقت بھی اہمیت رکھتا ہے، کسی مریض کو بہت جلد مدافعتی سگنل دبانے والی دوا کا استعمال کرانے سے ہوسکتا ہے کہ ردعمل زیادہ ٹھوس نہ ہو جبکہ زیادہ تاخیر سے ان ادویات کا استعمال اس نقصان کو مزید بدتر بناسکتا ہے جو پہلے ہی ہوچکا ہوتا ہے۔

اب تک اس مدافعتی ردعمل کے اثرات کو روکنے کے لیے علاج کے اثرات ملے جلے یا زیادہ اچھے نظر نہیں آئے کیونکہ محققین اب تک سگنلز کے درست امتزاج کی شناخت کر نہیں سکے ہیں۔

دوسری جانب اسٹرائیڈز جیسے ڈیکسامیتھاسون cytokines کی سرگرمیوں کی روک تھام میں کسی بڑے ہتھوڑے جیسے ثابت ہوئے ہیں اور ابتدائی کلینکل ٹرائلز سے عندیہ ملتا ہے کہ ڈیکسامیتھاسون کورونا وائرس کے سنگین کیسز میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے، جبکہ دیگر پر کام جاری ہے۔