Site icon DUNYA PAKISTAN

دو ‘لڑکیوں’ کی آپس کی شادی کا معاملہ، ‘دولہا’ کے ناقابل ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری

Share

لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے دو لڑکیوں کی مبینہ شادی سے متعلق درخواست میں عاصمہ بی بی عرف علی آکاش (دولہا) کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں اور پولیس کے اعلیٰ حکام کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ملزم کو گرفتار کر کے دو روز میں عدالت میں پیش کریں۔

لاہور ہائی کورٹ کے جج، جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے بدھ کے روز راولپنڈی میں مقدمے کی سماعت کے دوران عاصمہ بی بی عرف علی آکاش کے وارنٹ گرفتاری ان کی عدم پیشی کی بنا پر جاری کیے۔

اس سے پہلے منگل کے روز عدالت نے ملزم کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

دولہن نیہا علی کے والد سید امجد علی، جو کہ درخواست گزار بھی ہیں، نے موقف اختیار کیا ہے کہ چونکہ اُنھیں معلوم ہوا کہ نیہا علی اور عاصمہ بی بی عرف علی آکاش دونوں لڑکیاں ہیں اور ہمارا مذہب لڑکیوں کی آپس میں شادی کی اجازت نہیں دیتا اس لیے یہ شادی غیر قانونی اور غیر اسلامی بھی ہے۔

سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ نے عاصمہ بی بی عرف علی آکاش کے وکیل ندیم انتھونی سے استفسار کیا کہ ان کے کلائنٹ عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوئے۔

وکیل ندیم انتھونی نے جواب دیا کہ ان کے ‘موکل’ بیمار ہیں اور ڈاکٹر نے اُنھیں سفر کرنے سے منع کیا ہے جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ان کے کلائنٹ ’موکل‘ کیسے ہو گئے ابھی تو ان کی جنس کا تعین بھی نہیں ہوا۔

اُنھوں نے کہا کہ جب اس کی جنس کا تعین ہوجائے گا تو پھر وہ اپنے کلائنٹ کو موکل یا موکلہ کہہ سکیں گے۔

عاصمہ بی بی عرف علی آکاش کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس کے کلائنٹ نے اپنی بیوی نیہا علی کو طلاق دے دی ہے اور انھوں نے اس حوالے سے دستاویزات بھی عدالت میں پیش کیں۔

جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ طلاق کا معاملہ تو اس وقت ہی زیر بحث لایا جاسکتا ہے جب پہلے اس بات کا تعین ہو جائے کہ کیا شادی مذہب کے مطابق ہوئی ہے یا نہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے کلائنٹ کی جنس کا بھی تعین ہو جائے۔

عدالت نے عاصمہ بی بی عرف علی آکاش کے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کیا وہ پاکستان میں یورپی ملکوں کے کلچر کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ہمنارا مذہب اور معاشرہ ہم جنس پرستی اور ایسی شادیوں کی اجازت نہیں دیتا۔

درخواست گزار کے وکیل راجہ امجد جنجوعہ نے عدالت کو بتایا کہ عاصمہ بی بی عرف علی آکاش کی جنس کے تعین کے لیے جو میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا اس میں خود عاصمہ بی بی عرف علی آکاش کی رضامندی شامل تھی۔

اُنھوں نے کہا کہ ملزمہ نے عدالت میں آ کر خود کو لڑکا ثابت کرنے کے لیے یہ کہا تھا کہ وہ میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہیں لیکن وہ ایک مرتبہ بھی اس بورڈ کے سامنے پیش نہیں ہوئیں۔

اُنھوں نے کہا کہ عدالتی حکم پر دو مرتبہ میڈیکل بورڈ کے اجلاس ہوئے لیکن عاصمہ بی بی عرف علی آکاش بورڈ کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔

راجہ امجد جنجوعہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ان دونوں لڑکیوں کی مبینہ شادی اور مبینہ طلاق پر ملزمہ عاصمہ بی بی عرف علی آکاش کے دستخط آپس میں نہیں ملتے۔

عدالت کے استفسار پر بتایا گیا کہ عاصمہ بی بی عرف علی آکاش اس وقت لاہور میں ہیں جبکہ ان کی بیوی نیہا علی جن کو وہ مبینہ طور پر طلاق دے چکے ہیں، وہ بھی لاہور میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے زیر انتظام چلنے والے ادارے کے شیلٹر ہوم میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

عدالت نے لاہور پولیس کے سربراہ کو حکم دیا کہ وہ عاصمہ بی بی عرف علی آکاش کو گرفتار کرکے سات اگست کو ہر حال میں عدالت میں پیش کریں۔

اس درخواست پر ہونے والی سماعتوں میں سے ایک سماعت کے دوران مبینہ میاں بیوی نے پولیس حکام کو بتایا تھا کہ شادی کے بعد ان دونوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔

مقامی پولیس کے مطابق عدالتی حکم پر پولیس ان دونوں مبینہ میاں بیوی کو عدالت میں لیکر آنے اور واپسی کے لیے سکیورٹی فراہم کرتی تھی۔

واضح رہے کہ عاصمہ بی بی عرف علی آکاش راولپنڈی کے اس سکول میں بطور استاد پڑھاتی رہی ہیں جہاں پر نیہا علی تعلیم حاصل کرتی تھیں۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے عاصمہ بی بی عرف علی آکاش کی تعلیمی اسناد کے مستند ہونے کے بارے میں متعلقہ تعلیمی اداروں کو خطوط لکھے ہیں تاہم ابھی تک ان اداروں کی طرف سے جواب موصول نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ عاصمہ بی بی عرف علی آکاش نے یہ دعوی کیا تھا کہ پہلے وہ لڑکی تھی اور آپریشن کروانے کے بعد وہ اب لڑکا بن گئی ہے۔

اُنھوں نے عدالت میں وہ میڈیکل سرٹیفکیٹ بھی پیش کیے جن میں ان کے بقول اُنھیں آپریشن کے بعد لڑکا قرار دیا گیا۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا ہے کہ جنس کی تبدیلی ایک مشکل عمل ہے اور اس پر اُٹھنے والے اخراجات بہت زیادہ ہیں جبکہ عاصمہ بی عرف علی آکاش کی مالی حالت اچھی نہیں ہے۔

Exit mobile version