آپ چاہے کتنے بھی سمجھدار ہوں، کچھ باتیں سمجھ سے باہر ہی ہوتی ہیں۔
15ویں صدی کے نصف تک آیا صوفیہ ایک مسیحی عبادت گاہ تھی۔ پھر ایک نوجوان شہنشاہ نے قسطنطنیہ کو فتح کیا اور آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ وہ الگ زمانہ تھا، بادشاہ جو چاہتے تھے کرتے تھے۔
فن تعمیر کا یہ بےمثال نمونہ چھٹی صدی میں تعمیر کیا گیا تھا، یعنی پیغمبرِ اسلام کی ولادت سے تقریباً نصف صدی پہلے۔ آیا صوفیہ کی تاریخ پر اگر کتابوں میں نہیں تو چند روز قبل اخباروں میں آپ کی نظر ضرور پڑی ہوگی۔
20ویں صدی کے اواخر تک یہ مسجد ہی رہی پھر ماڈرن سیکولر ترکی کے معمار کمال اتاترک نے اسے میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ آجکل سیکولرازم ’آؤٹ آف فیشن‘ ہے، اس لیے آیا صوفیہ کو واپس مسجد میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ یا تو استنبول میں نمازیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اور حکومت کو جہاں جو عمارت نظر آ رہی ہے اسے مسجد میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے یا ہوسکتا ہے کہ موجودہ صدر منبر سے کوئی سیاسی پیغام دے رہے ہوں۔
جب آیا صوفیہ جیسی تاریخی عمارت سے دوبارہ اذان کی آواز بلند ہو (یہ عمل شروع ہو چکا ہے) تو ان لوگوں کو ایک واضح پیغام تو جاتا ہی ہے جن کی زندگی کا مقصد تاریخ (کی غلطیوں) کو سدھارنا ہے۔
بس سوال یہ ہے کہ آپ کب سے شروع کرنا چاہتے ہیں؟
ایک اور عبادت گاہ ہے جو اب باضابطہ طور پر اور ہمیشہ کے لیے اپنا کردار اور تشخص بدل رہی ہے اور یہ انڈیا میں ہے۔
بابری مسجد کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ وہی جسے مغل بادشاہ بابر کے دور اقتدار میں ان کے ایک سپہ سالار میر باقی نے تعمیر کرایا تھا۔
پانچ سو سال کے طویل سفر کے بعد اب پانچ اگست کو اس مقام پر ایک عالی شان مندر کی تعمیر شروع ہوئی ہے جہاں کبھی بابری مسجد ہوا کرتی تھی اور وزیراعظم نریندر مودی نے خود مندر کا سنگ بنیاد بھی رکھا ہے اور وہاں قائم عارضی رام مندر میں پوجا بھی کی ہے۔
بابری مسجد کے سیاق و سباق میں اب کیا جانا، یہ کیس لمبے عرصے تک عدالتوں میں لٹکا رہا اور سپریم کورٹ نے آخرکار فیصلہ ہندو فریقین کے حق میں سنایا۔ عدالت کے مطابق مسلمان یہ ثابت نہیں کر پائے کہ مسجد میں پابندی سے نماز ہوتی تھی یا قبضہ مسلمانوں کے پاس تھا۔
بس بنیادی بات یہ ہی ہے، باقی قانونی باریکیوں میں الجھنے سے کوئی فائدہ نہیں۔
یہ کام مشکل بھی تھا، اس زمانے کے نمازی اب کہاں زندہ ہیں کہ آکر کہتے کہ ’مائی لارڈ، ہم وہاں نماز پڑھتے تھے، اپنی خوشی سے نہیں تو ماں باپ کے ڈر سے، لیکن جاتے ضرور تھے۔‘
لیکن سنی سنائی باتوں پر عدالتیں کہاں یقین کرتی ہیں، وہ ثبوت مانگتی ہیں۔ اب تین چار سو سال پہلے جماعت میں کنتے نمازی تھے، بغیر سی سی ٹی وی فوٹیج کے یہ کیسے ثابت ہو سکتا ہے؟ یہ بات تقریباً طے ہے کہ اُس زمانے میں کم سے کم چھوٹے شہروں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب نہیں تھے۔ دلی میں اب لگ رہے ہیں تو پانچ سو سال پہلے ایودھیا میں کہاں سے آتے؟
اس لیے اب مندر کی تعمیر کی تیاری ہے۔ کچھ لوگ پریشان ہیں کہ اس تقریب میں وزیراعظم کو کیوں مدعو کیا گیا ہے؟ ایک سیکولر ملک کے وزیراعظم اگر مندر کا سنگ بنیاد رکھیں گے تو کیا یہ مناسب ہوگا؟
بھائی، بس آپ کی معصومیت کا کیا کریں، سیاسی پیغام صرف مسجدوں سے ہی نہیں دیے جاتے۔
اگر آپ کا ذہن سازشی ہے تو آپ سوچیں گے کہ پانچ اگست کو ہی کیا خاص بات ہے، چار یا چھ اگست کو کیوں نہیں؟
تو جناب آپ جیسے ہی کچھ لوگ جنھیں ہر بات میں سازش تلاش کرنے کی عادت ہے، کہہ رہے ہیں کہ گذشتہ برس پانچ اگست کو ہی آئین کی دفعہ 370 ختم کی گئی تھی جس کے تحت کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل تھا۔
اب اس میں کیا سیاسی پیغام ہو سکتا ہے، اپنی سمجھ سے باہر ہے۔ دونوں کا آپس میں کیا تعلق ہے یا ہوسکتا ہے؟ ایک انتظامی فیصلہ تھا اور دوسرے کا تعلق مذہبی عقیدے سے ہے، اور آپ نے آخری مرتبہ کب کسی رہنما کو مذہب اور سیاست کو مکس کرتے ہوئے دیکھا تھا؟
آج کل کے مشکل حالات میں جتنی تقریبات کو یکجا کر کے ایک ساتھ نمٹا دیا جائے، اتنا اچھا ہے۔ خرچہ بھی کم اور ساتھ میں کورونا وائرس سے تحفظ بھی۔
مندر عدالت کے حکم سے تعمیر ہو رہا ہے، آیا صوفیہ کا کیس بھی ترکی کی اعلی ترین عدالت میں طے ہوا تھا۔
جہاں تک سیکولر اقتدار کا سوال ہے، انڈیا میں ترکی کے سفیر کا کہنا ہے کہ آیا صوفیہ کی مسجد میں منتقلی سے ترکی کے سیکولر اقتدار پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور آیا صوفیہ پر ترکی کی عدالت کا فیصلہ بابری مسجد پر انڈیا کی سپریم کورٹ کے فیصلے سے مختلف نہیں ہے، دونوں فیصلے اتفاق رائے سے دیے گئے ہیں۔
بس اس کے بعد کہنے کے لیے کچھ زیادہ باقی نہیں رہ جاتا۔ ہاں اتنا ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ ترکی اور انڈیا دونوں میں بادشاہت ختم ہو چکی ہے۔
اب ایسا نہیں ہے کہ جب جو دل میں آیا کر لیا۔