پاکستان بمقابلہ انگلینڈ: پہلے دن کے کھیل کے اختتام پر پاکستان کے دو وکٹوں کے نقصان پر 139 رنز
پاکستان اور انگلینڈ کے مابین تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ مانچسٹر میں جاری ہے اور پہلے دن کے کھیل کے اختتام پر پاکستان نے دو وکٹوں کے نقصان پر 139 رنز بنائے ہیں۔
شان مسعود نے اننگز کے آغاز محتاط انداز سے بیٹنگ کرتے ہوئے کیا۔ مگر جب بابر اعظم دو وکٹوں کے نقصان پر کریز پر آئے تو ابتدائی چند اوورز کے بعد جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے شان معسود کے ساتھ اچھی پارٹنرشپ بنائی۔
شان مسعود نے 46 رنز جبکہ بابر اعظم نے نسبتاً تیز رفتاری سے 69 رنز سکور کیے ہیں اور دونوں بلے باز ناٹ آؤٹ رہے۔
اس میچ میں پہلی بار ٹی وی امپائر نو بالز کو مانیٹر کریں گے اور بالر کے کریز سے آگے نکلنے پر اس میچ میں ایک بال کو پہلے ہی نو بال قرار دیا جا چکا ہے۔ خیال ہے کہ مستقبل میں ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں اس کا استعمال ہوگا۔
شان مسعود کے لیے جیمز اینڈرسن سے مقابلہ ان کی کارکردگی کے لیے نہایت اہم ہے کیونکہ آج کے میچ سے قبل شان نے اینڈرسن کی جانب سے 57 گیندوں کا سامنا کیا ہے اور وہ صرف 15 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے جبکہ اینڈرسن نے انھیں چھ بار آؤٹ کیا ہے۔
بدھ کی صبح اولڈ ٹریفرڈ کے میدان پر کھیلے جانے والے اس میچ میں پاکستان کے کپتان اظہر علی نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو مہمان ٹیم کی جانب سے شان مسعود اور عابد علی نے پاکستانی اننگز کا آغاز کیا۔
ان دونوں بلے بازوں نے پہلی وکٹ کے لیے 15 اوورز میں 36 رنز کی شراکت قائم کی جس کا خاتمہ جوفرا آرچر نے عابد علی کو 16 کے انفرادی سکور پر بولڈ کر کے کیا۔
ان کی جگہ آنے والے کپتان اظہر علی بھی زیادہ دیر وکٹ پر نہ رک سکے اور بغیر کوئی رن بنائے پویلین لوٹ گئے۔ انھیں کرس ووکس نے ایل بی ڈبلیو کیا۔ اظہر علی نے امپائر کے فیصلے کے خلاف ریویو بھی لیا مگر یہ فیصلہ بھی ان کے حق میں نہیں گیا۔
انگلینڈ کی جانب سے سٹورٹ براڈ اور جیمز اینڈرسن نے اننگز کے آغاز میں گیند سنبھالی تھی۔ ٹیسٹ کرکٹ میں پانچ پانچ سو وکٹیں حاصل کرنے والے انگلینڈ کے ان دونوں بولرز نے پاکستانی بیٹسمینوں کو قابو میں تو رکھا لیکن وکٹ لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
انگلینڈ کی جانب سے بولنگ میں پہلی تبدیلی کرس ووکس کی شکل میں 11ویں اوور میں کی گئی ہے جبکہ دوسرے اینڈ سے جوفرا آرچر کو گیند دی گئی اور ان دونوں نے انگلینڈ کو ایک ایک وکٹ دلوائی ہے۔
کورونا کی وبا کی وجہ سے تماشائیوں کو میچ دیکھنے کے لیے میدان میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
اس میچ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ میں پہلی بار ایسا میچ کھیلا جا رہا ہے جس میں ٹی وی امپائر فرنٹ فٹ نو بال کا فیصلہ دے گا جس کا مطلب ہےکہ آن فیلڈ امپائر کو بولر کی نو بال نہیں دیکھنی پڑے گی۔
یہ فیصلہ تجرباتی بنیاد پر کیا گیا ہے اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اس میچ کے نتائج کے بعد فیصلہ کرے گی کہ آیا مستقبل میں اسے استعمال کیا جائے یا نہیں۔
اس میچ میں پاکستان کی ٹیم میں دو لیگ سپنرز شاداب خان اور یاسر شاہ کو شامل کیا گیا ہے جبکہ بلے بازی کی ذمہ داری شان مسعود، عابد علی، اظہر علی، بابر اعظم، اسد شفیق اور رضوان احمد کے کاندھوں پر ہے جبکہ فاسٹ بولنگ سکواڈ شاہین آفریدی، محمد عباس اور نسیم شاہ پر مشتمل ہے۔
ادھر جو روٹ کی قیادت میں انگلینڈ کی ٹیم میں ڈوم سبلی، روری برنز، بین سٹوکس، اولی پوپ، جوس بٹلر، کرس ووکس، ڈوم بیس، سٹوارٹ براڈ اور جیمز اینڈرسن پر مشتمل ہے۔
تین میچوں کی ٹیسٹ سیریز پاکستانی ٹیم کی گذشتہ پانچ سال میں تیسری ٹیسٹ سیریز ہے جو وہ انگلینڈ میں کھیل رہی ہے اور ٹیم مینیجمنٹ اور کھلاڑیوں کو امید ہے کہ اس بار وہ 2016 اور 2018 کی طرح ٹیسٹ سیریز صرف برابری پر نہیں ختم کریں گے بلکہ 1996 کے بعد پہلی بار فتح بھی اپنے نام کر سکیں۔
اگر پچھلے پانچ برس کی بات کریں تو 2016 کے بعد سے پاکستان کی ٹیم نے ہر سال انگلینڈ کا دورہ کیا ہے جس میں دو بار وہ ٹیسٹ کھیلنے آئے اور دو بار ایک روزہ کرکٹ کے عالمی مقابلوں میں شرکت کرنے، اور ان تمام میں ہی ان کی کارکردگی کا معیار بہت عمدہ رہا۔
گو کہ اس بار پاکستان کی ٹیم کافی نئے کھلاڑیوں پر مشتمل ہے لیکن محمد عباس، نسیم شاہ اور شاہین شاہ آفریدی کی شکل میں پاکستان کو ایک قابل اعتماد پیس اٹیک میسر ہے جس کی بنا پر کپتان اظہر علی کو امید ہے کہ وہ میزبان ٹیم کو مشکلات میں ڈال سکتے ہیں۔
دوسری جانب میزبان انگلینڈ کی ٹیم نے موسم گرما میں کورونا وائرس کے بعد شروع ہونے والی کرکٹ کے پہلے مقابلوں میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز کھیلی جہاں پہلے میچ میں شکست کے بعد انھوں نے کم بیک کیا اور دو ایک سے سیریز اپنے نام کر لی۔
اس میں خاص بات انگلینڈ کے فاسٹ بولرز جیسے جیمز اینڈرسن اور سٹوارٹ براڈ کی بولنگ تھی لیکن ان سے بھی زیادہ نمایاں کارکردگی انگلینڈ کے قائدانہ آل راؤنڈر بین سٹوکس کی تھی جنھیں مین آف دا سیریز کا خطاب ملا۔