اپوزیشن کی ’سرگرمیاں‘
جمہوری طرزِ حکومت میں حکومت اور اپوزیشن ایک ہی گاڑی کے دو پہیے تصور کیے جاتے ہیں، حکومت کا کام گورننس ہے تو اپوزیشن کا کام حکومت کی نگرانی ہے۔ حکومت ملک چلاتی ہے تو اپوزیشن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ اس نے مستقبل میں حکومت کو چلانا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت سے لوگوں کو شکایت ہے کہ گورننس اچھی نہیں ہے اور فیصلے درست نہیں کیے جا رہے، دوسری طرف اپوزیشن بھی اپنا کردار صحیح طریقے سے ادا نہیں کر رہی۔
اپوزیشن کا اسمبلی کے اندر جس طرح جاندار کردار ہونا چاہیے وہ نہیں ہے، پارلیمانی مباحث کی کوالٹی وہ نہیں جو پہلے ادوار میں ہوتی تھی، اپوزیشن ابھی تک اپنی صفوں کو درست نہیں کر سکی، نون لیگ کے پیپلزپارٹی کے حوالے سے تحفظات ہیں تو پیپلز پارٹی کو نون لیگ کی پالیسیوں پر شدید اعتراضات ہیں، مولانا فضل الرحمن دونوں بڑی جماعتوں کے رویے سے شاکی ہیں غرضیکہ اپوزیشن فی الحال بھان متی کا ایک کنبہ ہے جس سے کسی عوامی تحریک کی توقع عبث ہے۔
اپوزیشن کے اس ڈھیلے ڈھالے انداز کو سمجھنا ہو تو اس کی لیڈرشپ کی سرگرمیوں پر غور کرنا ہو گا۔
میاں نواز شریف لندن میں موجود ہیں، کبھی کبھار اپنے سٹاف یا بیٹوں کے ہمراہ واک کرتے یا اہلخانہ کے ہمراہ کافی پیتے اُن کی تصاویرسامنے آتی رہتی ہیں۔ وہ سیاسی حوالے سے لب سیے ہوئے ہیں البتہ کوئی ن لیگی رہنما قید سے رہا ہو تو اُس کو فون کر کے اس کی خیریت ضرور دریافت کرتے ہیں۔
اندازہ یہی ہے کہ میاں نواز شریف زیادہ وقت پارک لین کے فلیٹ میں ہی گزارتے ہوں گے، اپنے پسندیدہ ایک دو کالم پڑھتے ہوں گے اور کبھی دن میں ایک دو بار پاکستانی نیوز چینل بھی دیکھ لیتے ہوں گے۔
ان کے دونوں صاحبزادے حسین نواز اور حسن نواز اپنے اہل و عیال کے ساتھ لندن ہی میں موجود ہیں۔ نواز شریف حسین نواز کے بیٹے ذکریا کے ساتھ گپ شپ لگاتے ہوں گے، سیاست سے ہٹ کر انھیں وقت ملا ہے تو انھوں نے خاندانی امور کی طرف بھی توجہ دی ہے اور اپنے نواسے جنید صفدر اعوان کی شادی قطر میں آباد سیف الرحمن (احتساب بیورو والے) کے خاندان میں طے کر دی ہے۔
اندازہ ہے کہ مریم نواز کا والد سے روزانہ کی بنیاد پر رابطہ ہو گا اور شہباز شریف بھی سیاسی اور ملکی امور پر رہنمائی کے لیے نواز شریف سے رابطہ رکھتے ہوں گے۔
شہباز شریف کی فرسٹ فیملی آج کل لندن گئی ہوئی ہے، سلیمان شہباز اور ان کے بہنوئی علی عمران کے خاندان ویسے ہی لندن میں ہیں، بیگم شہباز شریف بھی دورہ لندن میں نواز شریف کو ملنے گئی ہوں گی، میاں نواز شریف کی چھوٹی بیٹی اسما اسحاق ڈار کی بہو ہیں اس لیے اس خاندان سے بھی میل جول ہوتا ہو گا۔
دوسری طرف لاہور میں موجود شہباز شریف کورونا وائرس کی وجہ سے زیادہ وقت گھر پر ہی گزارتے ہیں۔ سیاسی گپ شپ اور سماجی ملاپ کی خاطر اپنی دوسری بیگم تہمینہ درانی کے ہاں ان کا اکثر چکر لگتا رہتا ہے۔
شہباز شریف کے انداز و اطوار سے لگتا ہے کہ فی الحال وہ کسی احتجاجی مہم یا جلسے کرنے کا ماحول ساز گار نہیں پاتے، ویسے بھی نون لیگ کا ووٹر احتجاجی مہم یا دھرنوں کا قائل نہیں کیونکہ اس کی نون لیگ سے محبت ووٹ کی حد تک ہے، وہ جیل جانے یا پولیس کے ڈنڈے کھانے والا مزاج نہیں رکھتا۔
اپوزیشن کی اہم جماعت پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت چلا رہی ہے اور وفاق سے چھیڑ چھاڑ بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ پہلے کورونا کی حکمت عملی پر اختلاف تھا پھر نالوں کی صفائی کا معاملہ چھڑ گیا اور اب آٹے پر بحث جاری ہے۔
اس دوران پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کراچی بلاول ہاؤس میں مقیم ہیں، وہ عام حالات میں بھی بڑےاحتیاط پسند ہیں اور دور صدارت میں بھی سینیٹائزر استعمال کیا کرتے تھے۔ کورونا آنے کے بعد سے وہ بہت ہی احتیاط کر رہے ہیں، نہ صرف ماسک پہنتے ہیں بلکہ ڈاکٹروں والا احتیاطی فلٹر بھی استعمال کر رہے ہیں۔
اپنے تمام دوستوں کو فون کر کے نہ صرف سماجی فاصلہ رکھنے کی بات کرتے ہیں بلکہ انھیں احتیاطی تدابیر بھی تجویز کرتے ہیں۔ آصف زرداری اور محترمہ بینظیر بھٹو کی دونوں بیٹیاں بختاور اور آصفہ بھی کراچی میں ہیں۔ بلاول ہاؤس کے اخراجات اور اس کا بجٹ اب یہ دونوں بیٹیاں چلا رہی ہیں، سننے میں آیا ہے کہ اپنی والدہ کی طرح وہ بھی کفایت شعاری کو پسند کرتی ہیں۔
بلاول اگر دورے پر ہوں تو آصف زرداری روزانہ ان کا حال چال جانتے ہیں اور انھیں ایڈوائس بھی کرتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں بلاول بھٹو لاہور میں مولانا فصل الرحمان اور شہباز شریف سے ملے تو زرداری صاحب بلاول سے گاہے بگاہے اپ ڈیٹ لیتے رہے۔
پیپلز پارٹی کا مخمصہ یہ ہے کہ پنجاب میں وہ احتجاجی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ انھیں اب وہ افرادی قوت میسر نہیں جو تحریک کو چلا سکے۔ سندھ میں ان کے پاس ایسے جیالے بکثرت موجود ہیں مگر سندھ میں اپنی حکومت کی موجودگی میں وہ احتجاجی جلسہ جلوس بھی کر لیں تو اس سے کیا حاصل وصول ہو گا؟
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی لیڈر شپ کے درمیان لاہور میں جو مکالمہ ہوا وہ دونوں کے رویوں کا عکاس ہے۔ بلاول نے ہنستے ہنستے کہا کہ شہباز شریف اپوزیشن کے انقلاب کی رہنمائی کریں گے، جواباً شہباز شریف نے کہا کہ نہیں قیادت کو بلاول کے جوان کندھوں کی ضرورت ہے۔
گویا دونوں میں سے کوئی بھی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں بلکہ یہ ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال کر مطمئن ہونا چاہتے ہیں۔ بھلا ایسے میں اپوزیشن کیسے چل سکتی ہے؟ تحریک یا عدم اعتماد کی راہ کیسے ہموار ہو سکتی ہے؟
احتجاجی تحریک کی بات ہو یا دھرنے کا معاملہ ہو مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کسی مخمصے کا شکار نہیں۔ اس لیے حالیہ دنوں میں جب ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے حکومتی بل کے حق میں خاموشی سے ووٹ دے دیے تو مولانا عطا الرحمان اور مولانا اسد محمود دونوں بھڑک اٹھے اور دونوں جماعتوں کو برملا کہہ دیا کہ آئندہ سوچ سمجھ کر ہی آپ کے ساتھ چلا جائے گا۔
اپوزیشن کی گذشتہ دو سال کی کارکردگی دیکھتے ہوئے باآسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگلے چھ ماہ میں کوئی احتجاجی تحریک یا کسی بڑی مزاحمتی تحریک کا امکان نظر نہیں آ رہا۔
معاشی حوالے سے کاٹن انڈسٹری اور کنسٹرکشن کے شعبے میں تیزی آئی ہے لیکن بیروزگاری اور مہنگائی کا عفریت بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ عوامی تحریک تب چلتی ہے جب لوگوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوں، اگر تو حکومت معیشت میں بہتری لے آئی تو اگلے چھ ماہ میں لوگ سکون کا سانس لیں گے اور اگر معاشی ابتری بڑھی اور عوام میں بے چینی میں اضافہ ہوا تو پھر یہی مردہ اپوزیشن جاگ اٹھے گی، بڑھ بڑھ کر تقریریں کرے گی اور عوامی تحریک کی قیادت کو سنبھالنے کو تیار ہو گی۔