سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے قومی احتساب بیورو یعنی نیب افسران کے نام پر پیسے لینے والے ملزم کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران نیب افسران کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے پورے ملک میں تعینات ڈائریکٹر جنرل رینک کے نیب افسران کی تقرریوں کے بارے میں تفصیلات طلب کر لی ہیں۔
سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کے افسران بھرتی کرنے کے اختیار کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ اس ادارے کے سربراہ جو خود سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں، آئین اور قانون کو بائی پاس کر کے بھرتیاں کیسے کر سکتے ہیں۔
عدالت نے اس ضمن میں اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کردیا ہے۔
سپریم کورٹ کے بینچ کے رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہر بندہ کرسی پر بیٹھ کر اپنا ایجنڈا چلا رہا ہے, اُنھوں نے کہا کہ مارشل لا میں قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ ملک میں مارشل لا سے بہتر ہے دوبارہ انگریزوں کو حکومت دے دی جائے۔
ملزم محمد ندیم جن پر الزام ہے کہ وہ نیب کے اعلیٰ سرکاری افسران کو بلیک میل کرتے ہیں، کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تفتیش کے مطابق مڈل پاس ملزم کے پاس صرف ایک بھینس ہے۔ اُنھوں نے سوال اٹھایا کہ ملزم کے پاس بڑے بڑے افسران کے موبائل نمبر کیسے آگئے۔
نیب کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) کے ایم ڈی سمیت 22 افراد کی مخلتف شکایات موصول ہوئیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ایم ڈی پی ایس او نے ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان منگی سے رابطہ کیا۔
عدالت نے ڈائریکٹر جنرل نیب عرفان منگی کو روسٹم پر بلایا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عرفان منگی کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ آپ کی تعلیم اور تنخواہ کیا ہے۔
جس پر ڈی جی نیب راولپنڈی نے جواب دیا کہ وہ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور ان کی تنخواہ چار لاکھ بیس ہزار روپے ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا وہ فوجداری معاملات کا تجربہ رکھتے ہیں جس پر ڈی جی نیب راولپنڈی کا کہنا تھا کہ ان کا فوجداری مقدمات کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔
جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’ایک انجینئر نیب کے اتنے بڑے عہدے پر کیسے بیٹھا ہوا ہے؟ عرفان منگی کس کی سفارش پر نیب میں گھس آئے۔‘
اپنے ریمارکس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا ’نیب کیسے کام کررہا ہے۔ حیرت ہے کہ عوام کے پیسے سے ایک ایسے شخص کو ماہانہ لاکھوں روپے ادا کیے جارہے ہیں جو فوجداری مقدمات سمجھنے کا تجربہ ہی نہیں رکھتے۔‘
واضح رہے کہ ڈی جی نیب عرفان منگی اس تفتیشی ٹیم کا حصہ تھے جس نے پاناما کیس میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے بچوں کی خلاف تحقیقات کی تھیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ چیئرمین نیب کس قانون کےتحت بھرتیاں کرتے ہیں؟ اُن کا کہنا تھا کہ ’چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اب جج نہیں ہیں اور عدالت جب چاہے اُنھیں طلب کرسکتی ہے۔‘
بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس میں کہا کہ نیب جس معاملے میں چاہتا ہے گھس جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بار بار مواقع دیے مگر نیب کے غیر قانونی کام جاری ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ نیب افسران کی نااہلی کی وجہ سے لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو ڈرانے کے لیے نیب کا نام ہی کافی ہے۔
نیب کے پراسکیوٹر نے کہا کہ نیب کے اہلکار اپنا کام قانون کے مطابق کرتے ہیں۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے ہمیں نیب کے لیے قانون کی کلاسز لگانی پڑیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ادارہ چلانے کے لیے قواعد بنائے جاتے ہیں اور حیرت ہے کہ نیب نے 1999 سے اب تک کوئی رولز اینڈ ریگولیشنز بنائے ہی نہیں گئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ قواعد نہ بنانے پر نیب کے اپنے خلاف ریفرنس بنتا ہے۔
ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم ندیم نے عرفان منگی سمیت مختلف افسران کو اہم شخصیات بن کر کالیں کیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ملزم کے خلاف نیب کی جانب سے مقدمہ درج کروایا گیا۔
بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے تفتیشی پولیس افسر سے استفسار کیا کہ کیا اس کیس میں ابھی تک کسی گواہ کا ابتدائی بیان لیا گیا اور کیا ملزم کے فون کا فرانزک کروایا گیا۔ جس کے جواب میں تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ فرانزک کی رپورٹ ابھی تک نہیں آئی۔
عدالت نے تفتیسی افسر سے سوال کیا کہ ملزم ندیم کام کیا کرتا ہے جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم بہاولپور کا رہنے والا ہے اور ایک بھینس کو پال کر اس کا دودھ بیچ کر پیسے کماتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایک ایسے شخص کے پاس افسران کے نمبر کیسے آگئے اور اتنی اہم معلومات کیسے پہنچیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ اگر عرفان منگی کو کال کی تھی تو ان کا بیان کیوں ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ ملزم ندیم کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کے خلاف بلاوجہ مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ کسی متاثر شخص کا بیان ریکارڈ تک نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم کے خلاف پہلے نیب ریفرنس بھی بنایا گیا پھر ایف آئی آر درج کروائی گئی۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے ملزم کی ضمانت منظور کرلی۔ عدالت نے درست معاونت نہ کرنے پر ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد اور نیب پراسیکوٹر کی سخت سرزنش کی۔
بینچ کے سربراہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اتھارٹیز کو قانون کے مطابق گائیڈ کرنا قانونی افسران کی ذمہ داری ہے۔