کھانسی اور آزادیٔ اظہار
یوں تو انسان کے اشرف المخلوقات ہونے میں کوئی شبہ نہیں مگر کچھ چیزوں میں بعض جانوروں کو انسانوں پر فوقیت حاصل ہے ویسے یہ فوقیت کا لفظ یہاں مناسب نہیں۔بس یوں سمجھ لیں کہ جانور بعض معاملات میں انسانوں کی نسبت قدرے سہولت میں ہیں مثلاً میں نے کسی لگڑبگڑ کو کھانستے نہیں دیکھا جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میںنے زندگی میں کبھی لگڑبگڑ ہی نہیں دیکھا ۔دو ایک دفعہ مجھے شبہ گزرا کہ جس سے میں مخاطب ہوں وہ لگڑبگڑ ہے چنانچہ میں نے اس کا اظہار کر بھی دیا مگر وہ مائنڈ کر گیا اسی طرح میں نے کسی لدھڑکو چھینکتے نہیں دیکھا البتہ کئی لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ چھینکتے ہوئے لدھڑ لگتے ہیں…..انسانوں اور جانوروں میں بھی اب یہی فرق ہے ۔
میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ جانوروں کو نزلہ، زکام اور کھانسی سے دوچار ہونا پڑتا ہے کہ نہیں کیونکہ میں صرف آنکھوں دیکھی بیان کر رہا ہوں کہ میں نے کبھی انہیں کھانستے یا چھینکتے نہیں دیکھا۔ چنانچہ اگر وہ بالفرض انسانوں ہی کی طرح چھینکتے یا کھانستے ہیں تو بھی انہیں انسانوں پر ایک برتری یہ حاصل ہے کہ وہ دو ایک چھینکیں یا کھنگھورے مار کر فارغ ہو جاتے ہیں اس کے علاج کے لئے انہیں کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا پڑتا اور یہ ان پر اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے !یہاں ایک دفعہ پھر اس وضاحت کی ضرورت ہے کہ ممکن ہے جانوروں کو بھی ڈاکٹروں کے پاس جانا پڑا ہو مگر انہیں بہرحال مشفق و مہربان ڈنگر ڈاکٹروں کے پاس جانا ہوتا ہے جبکہ بیچارے انسانوں کو تو انسانوں کے ڈاکٹروں کے پاس جانا پڑتاہے۔
یہ بیٹھے بٹھائے میں موازنہ انسانوںا ور حیوان میں یونہی نہیں پڑ گیا بلکہ گزشتہ ایک ماہ میں ان افعال قبیحہ میں مبتلا رہنے کے بعد یہ سطور لکھ رہا ہوں ۔پہلے تو مجھے شبہ ہوا کہ خدانخواستہ کورونا تو نہیں ہو گیا تو ٹیسٹ نگیٹو آنے پر تسلی ہوئی ۔بہرحال یہ چھینکنے اور کھانسنے کو افعال قبیحہ میں میں نے یونہی شمار نہیں کیا بلکہ اس کے لئے میرے پاس بے شمار مثبت دلائل ہیں مثلاً چھینکنے ہی کو لیجئے۔ایک شریف آدمی دوسرے شریف آدمی سے اچھی خاصی معقول باتیں کرتے ہوئے اگر ایک دم بھاڑ سا منہ کھول دے اور منہ کی بجائے ناک کے رستے سے عجیب وغریب آوازیں نکالنا شروع کر دے تو بتائیے فریقین کی کیا عزت رہ جاتی ہے؟یہ فریقین والی بات میں نے اس لئے کی ہے کہ اس فعل کے دوران نزلہ سامنے بیٹھے ہوئے کسی ’’عضوضعیف‘‘ پر گرتا ہے اور بیچارہ صبر کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے اسی طرح چھینکنے والا بھی الحمداللہ اور ایکسکیوزمی کی درمیانی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی چھینکوں کی بقایا قسطیں بسااوقات منصہ شہودپر آنے سے رہ جاتی ہیں اور یہ ایک علیحدہ ایشو ہے علیحدہ ایشو اس طرح کہ منہ بھی کھل جاتا ہے چہرہ بھی کھینچ جاتا ہے اور آنکھیں تارے لگ جاتی ہیں مگر چھینک نہیں آتی۔بالکل کارپوریشن کے نلکے کی طرح کہ ٹوٹی کھلی ہے مگر پانی نہیں آ رہا۔کچھ اسی طرح کے مسائل کھانسنے والوں کے بھی ہیں سارا سارا دن کھانستے ہیں ساری ساری رات کھانستے ہیں مگر بے سرے ہونے کی وجہ سے انہیں دادسخن بھی نہیں ملتی۔البتہ میرے ایک دوست کھانسنے کے معاملے میں صاحب اسلوب واقع ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ اس ردھم سے کھانستے ہیں کہ لگتا ہے کہ چاندی کے ورق کوٹے جا رہے ہیں، انہیں گانے کا بھی شوق ہے چنانچہ جب وہ گا رہے ہوں تو پتہ نہیں چلتا کہ کھانسی کہاں سے ختم ہوئی اور گانا کہاں سے شروع ہوا۔گانے اور کھانسی کا حسین امتزاج میں نے اگر کہیں دیکھا ہے تو انہی کے ہاں دیکھا ہے ۔ میرے یہ دوست دہتان کھانسی کی آبرو ہیں!
دراصل میرا شمار ان بدنصیبو ںمیں ہوتا ہے جنہیں ابھی تک چھینکنے اور کھانسنے کا سلیقہ بھی نہیں آیا میرتقی میر نے کہا تھا ۔
تانکنا جھانکنا کبھو نہ گیا
اور یہ میری نصف ترجمانی ہے مکمل ترجمانی تو
تانکنا جھانکنا کبھو نہ گیا
چھینکنا کھانسنا کبھو نہ گیا
ایسے ’’شعر‘‘ ہی سے ممکن تھی۔مگر مصیبت یہ ہے کہ میر صاحب کو تانکنے ہی سے فرصت نہ ملی سو انہیں اس قومی مسئلے پر غوروفکر کا موقع ہی نہ ملا۔گزشتہ چند ہفتوں سے میں نے اس مسئلے کو اپنے ہاتھوں میں لیا ہے بلکہ سچ پوچھیں تو اس مسئلے نے مجھے اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے اور اب میں ہوں چھینکیں ہیں اور کھانسی ہے۔چند روز ہوئےمیں ایک ڈاکٹر کے پاس گیا اس نے مٹکے میں سے مکسچر کی ایک شیشی بھر کر مجھے دی اور ساتھ ڈھیروں کیپسولز دئیے کہ دن میں چار دفعہ ان کا ’’پھکا‘‘ مار لیا کریں۔سو اس وقت سے مجھے زکام اور کھانسی کا افاقہ ہے البتہ دماغ بند ہو گیا ہے نیز ہونٹوں اور زبان پر کچھ چھالے نکل آئے ہیں!
اور آج کے طبیبوںسے بس یہی شکایت ہے کہ ان میں سے کسی کے پاس کسی بیماری کا تسلی بخش علاج نہیں ہے۔ اول تو ان سے بیماری کی صحیح تشخیص ہی نہیں ہوتی اگر ہو جائے تو اپنے علاج سے وہ ایک بیماری رفع کر دیتے ہیں اور اس کی جگہ دوسری لگا دیتے ہیں۔اب یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ کھانسی اور نزلے کو تو آرام آجائے لیکن اس کے نتیجے میں دماغ بند ہوجائے۔انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی جائے یا زبان پر چھالے ڈال دیئے جائیں اور یوں دل کی باتیں انڈرگرائونڈ چلی جائیں زبان پر آ ہی نہ سکیں ۔یارو ایک بیماری کا علاج دوسری بیماری تو نہیں ہوتا!