بحریہ ٹاؤن تصفیہ فنڈز سے متعلق درخواست پر سندھ حکومت سے جواب طلب
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے بحریہ ٹاؤن(پرائیویٹ) لمیٹڈ کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں جمع کروائے گئے تصفیہ فنڈز سے متعلق وفاقی حکومت کی درخواست پر سندھ حکومت سے جواب طلب کرلیا۔
اٹارنی جنرل انور منصور خان کی جانب سے 22 اگست کو جمع کروائی گئی وفاقی حکومت کی درخواست پر توجہ مبذول کروانے پر جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔
دورانِ سماعت عدالتی بینچ کے دوسرے جج جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’ہم نے سپریم کورٹ میں رقم جمع کروانے کا حکم دیا تھا کیونکہ ہمیں دیکھنے کی ضرورت تھی کہ پیسہ کہاں جاتا ہے‘۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’ رقم جمع بھی نہیں ہوئی تھی کہ کئی دعوے دار رقم کا دعویٰ کرنے آگئے تھے‘۔
خیال رہے کہ 21 مارچ کو سپریم کورٹ کے جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس میں کراچی کے منصوبے کے لیے 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کرتے ہوئے نیب کو ریفرنس دائر کرنے سے روک دیا تھا۔
یہ زمین ہاؤسنگ اسکیم متعارف کرانے کے لیے مختص کی گئی تھی لیکن ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) نے یہ زمین بحریہ ٹاؤن کو دے دی تھی۔
تصفیہ کے تحت 16 ہزار 896 ایکڑ پر مشتمل منصوبے کا راولپنڈی کے تخت پڑی کے 5 ہزار 472 کینال سے، مری کے جنگلات کے 4 ہزار 542 کینال سے کوئی تعلق نہیں۔
عدالت عظمیٰ نے پوری رقم سپریم کورٹ اکاؤنٹ میں جمع کروانے کے لیے یکم ستمبر 2019 سے 31 اگست، 2026 تک 7 سال کا وقت دیا تھا۔
بعدازاں وفاقی حکومت کی جانب سے دائر کی گئی 2 صفحات پر مشتمل درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ بحریہ ٹاؤن پرائیویٹ لمیٹڈ کی جانب سے جمع کروائی رقم کو حکومت کے سرکاری اکاؤنٹ میں منتقل ہونا چاہیے‘۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ ’بحریہ ٹاؤن نے پہلے ہی 25 ارب روپے ادا کردیے ہیں اور 2.5 ارب روپے کی پہلی قسط کے بعد بقیہ ادائیگی 36 ماہ میں مقررہ صورت میں کی جائے گی جس میں یکم ستمبر 2023 سے 4 فیصد سالانہ مارک اپ بھی شامل ہوگا‘۔
وفاقی حکومت کی درخواست میں آئین کے آرٹیکل 78 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ‘سپریم کورٹ میں رقم جمع کرادی گئی ہے یا جمع کرائی جانی ہے، مذکورہ رقم کو وفاق کے عوامی خزانے میں جمع کرایا جانا چاہیے’۔
درخواست میں وضاحت دی گئی تھی کہ ‘آرٹیکل 78(2)(بی) کے تحت سپریم کورٹ میں موصول یا جمع کرائی گئی کوئی بھی رقم وفاق کے خزانے میں جمع کرائی جانی چاہیے’۔
آرٹیکل 78(1) کے مطابق وفاقی حکومت کو موصول تمام رقم، وفاق کی جانب سے دیے گئے تمام قرض اور قرض کی ادائیگی کے بدلے لی گئی رقوم مجموعی فنڈ کی شکل اختیار کریں گے جو وفاقی کنسولڈیٹڈ فنڈ کہلائیں گے۔
اسی طر ح سندھ حکومت نے چیف سیکریٹری کےذریعے درخواست دائر کی تھی جس میں عدالت عظمیٰ کے اکاؤنٹ میں بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے جمع کروائی گی ڈاؤن پیمنٹ صوبائی حکومت کے اکاؤنٹ نمبر 1 میں جمع کروانے کا حکم دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
صوبائی حکومت نے عدالت سے درخواست کی تھی کیس کو فوری طور پر سنا جائے کیونکہ درخواست کی سماعت میں تاخیر سے درخواست گزار اور سندھ کے عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کو 30 جون، 2019 تک ٹیکس اکٹھا کرنے میں شارٹ فال کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کو 605.6 ارب روپے کے بجائے صرف 439 ارب روپے دیے گئے جو 112 ارب کا شارٹ فال اور نظر ثانی شدہ 508 ارب روپے کے بجٹ کے مقابلے میں 74.99 ارب ڈالر کا خسارہ ظاہر کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ہی طرح صوبائی حکومت کو پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام 19-2018 کے تحت مختص کیے گئے 14.266 ارب روپے میں سے 9.9 ارب روپے ملے ہیں اور صوبائی ریوینیو میں اس شارٹ فال سے ترقیاتی منصوبے مالی طور پر مشکلات کا شکار ہیں۔