جنوبی کوریا کے سائنسدانوں نے کورونا وائرس کے بارے میں اس خیال کو درست ثابت کردیتا ہے جس کے بارے میں متعدد طبی ماہرین خیال ظاہر اور خدشہ ظاہر کیا تھا۔
طبی جریدے جاما انٹرنل میڈیسین میں شائع تحقیق میں تصدیق کی گئی ہے کہ کورونا وائرس کے ایسے مریض جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں، اس وائرس کو اتنا زیادہ آگے پھیلا سکتے ہیں جتنا علامات والے مریض۔
خیال رہے کہ کورونا وائرس کی تمام تر خصوصیات میں سب سے حیران کن خاصیت یہی ہے کہ بظاہر صحت مند افراد بھی اسے آگے تک پھیلا دیتے ہیں اور اسی وجہ سے اس کی روک تھام بہت مشکل جبکہ ایسے افراد کی شناخت اور الگ تھلگ کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔
اب تک بغیر علامات والے مریضوں کی جانب سے کورونا وائرس کو آگے پھیلانے کے حوالے سے شواہد مشاہداتی تھے۔
مگر جنوبی کوریا میں ہونے والی اس تحقیق میں زیادہ ٹھوس ثبوت پیش کیے گئے کہ بغیر علامات والے مریضوں کی ناک، حلق اور پھیپھڑوں میں اتنا ہی وائرل لوڈ ہوتا ہے جتنا علامات والے مریضوں میں اور دونوں میں اس کادورانیہ بھی لگ بھگ ایک جتنا ہی ہوتا ہے۔
یہ نئی تحقیق اس طرح کی اولین تحقیق ہے جس میں مریضوں کے دونوں اقسام میں واضح فرق کیا گیا۔
اس نئی تحقیق میں مریضوں میں جینیاتی مواد کی جانچ پڑتال کی گئی اور محققین کی جانب سے وائرس کی منتقلی کی چین یا زندہ وائرسز کی نشوونما کو نہیں دیکھا گیا۔
مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج سے ٹھوس عندیہ ملتا ہے کہ بغیر علامات والے مریض غیر دانستہ طور پر وائرس کو پھیلادیتے ہیں۔
اس تحقیق کے دوران محققین نے 6 سے 26 مارچ کے دوران بغیر علامات والے 193 مریضوں اور 110 علامات والے مریضوں کے لیے گئے نمونوں کا تجزیہ کیا۔
ابتدائی طور پر 89 میں سے 30 فیصد کبھی بیمار نہیں ہوئے جبکہ 21 فیصد میں علامات نظر آئیں۔
تحقیق میں شامل بیشتر افراد نوجوان تھے اور اوسط عمر 25 سال تھی۔
تحقیق میں تخمینہ لگایا گیا کہ 30 فیصد متاثرہ افراد میں کبھی بھی علامات پیدا نہیں ہوتیں جو کہ دیگر تحقیقی رپورٹس کے نتائج سے مطابقت بھی رکھتا ہے۔
اس سے قبل امریکا کے نیشنل انسٹیٹوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشیز ڈیزیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے خیال ظاہر کیا تھا کہ یہ شرح 40 فیصد ہے۔
انہوں نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اچھی خبر یہ ہے کہ کووڈ 19 کے 40 فیصد مریضوں میں وائرس کا شکار ہونے پر کسی قسم کی علامات پیدا نہیں ہووتیں، مگر علامات نہ ہونے کے باوجود بھی وہ کسی کو یہ وائرس منتقل کرکے بیمار کرسکتے ہیں جس کو سنگین نتائج کا سامنا ہوسکتا ہے۔
جنوبی کورین تحقیق میں شامل افراد کو وائرس کی تشخیص کے ساتھ ہی الگ کردیاگیا تھا اور دیگر کو بیمار نہیں کرسکے تھے۔
ڈاکٹروں اور نرسوں نے ان کے درجہ حرارت اور دیگر علامات پرنظر رکھی جبکہ بلغم کا تجزیہ کیا جس سے پھیپھڑوں، ناک اور حلق میں وائرس کی موجودگی کا عندیہ ملا۔
محققین کا کہنا تھا کہ دونوں گروپس میں وائرس کی مقدار بیماری کے مکمل دورانیے کے دوران ملتی جلتی تھی، بس بغیر علامات والے افراد 17 ویں دن وائرس سے نجات پانے میں کامیاب ہوئے جبکہ علامات والے گروپ میں یہ اوسط 19 سے 20 دن تھی۔
دونوں میں یہ دورانیہ بیشتر ممالک میں قرنطینہ کے لیے طے کیے گئے دورانیے سے طویل تھا۔
متعدد تحقیقی رپورٹس میں بھی یہ عندیہ دیا جاچکا ہے کہ متاثرہ افراد سے وائرس کے جھڑنے کا دورانیہ بمشکل ایک ہفتہ ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کو جون میں اس وقت دنیا بھر کے طبی ماہرین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب یہ بیان جاری کیا گیا کہ کووڈ 19 کے ایسے مریض، جن میں کووڈ 19 کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، وہ بہت کم اس وائرس کو آگے پھیلاتے ہیں۔
معمول کی ایک پریس بریفننگ کے دوران ڈبلیو ایچ او کی عہدیدار اور وبائی امراض کی ماہر ماریہ وان کرکوف نے کہا تھا ‘ایسا نظر آتا ہے کہ بغیر علامات والے مریض نہ ہونے کے برابر اس وائرس کو آگے منتقل کرتے ہیں، ہمارے پاس ایسے ممالک کی متعدد رپورٹس ہیں جن کی جانب سے کانٹیکٹ ٹریسنگ پر بہت تفصیلی کام کیا گیا ہے، انہوں نے ایسے مریضوں کے کیسز کا تعاقب کیا، ان کے جاننے والوں کی جانچ پڑتال کی اور وہ وائرس کی منتقلی کو دریافت نہیں کرسکے، ایسا نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے’۔
اس بیان پر دنیا بھر کے ڈاکٹروں، صحافیوں، وبائی امراض کے ماہرین کی جانب سے اور سوشل میڈیا پر بھی بہت شدید ردعمل آیا جو اتنا زیادہ تھا کہ عالمی ادارہ صحت نے ٹوئٹر، فیس بک اور لنکڈن میں سوال جواب لائیو اسٹریم کرتے ہوئے اس بیان پر وضاحت جاری کی۔
عالمی ادارے نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ غلطی نہیں تھی مگر بغیر علامات والے مریضوں کے لیے استعمال ہونے والے لفظ اسمپٹومیٹک کا مطلب غلط لیا جاتا ہے جس میں ایسے افراد شامل ہوتے ہیں جن میں علامات ظاہر نہیں ہوئی ہوتی یا ایسے افراد جن میں بیماری کی شدت بہت معمولی ہوتی ہے۔
عالمی ادارے نے زور دیا کہ کورونا وائرس پر تحقیق بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور جو بیان دیا گیا تھا وہ کم تعداد میں تحقیقی رپورٹس اور ڈیٹا سیٹس کے بارے میں تھا، اس میں تمام کورونا وائرس کے مریضوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جن پر ابھی تک تحقیق نہیں ہوئی۔
اس بات کا اب تک واضح جواب نہیں کہ بغیر علامات والے ایسے کتنے مریض آگے لوگوں کو کووڈ 19 کا شکار کرسکتے ہیں مگر ڈبلیو ایچ او کے مطابق کچھ ڈیٹا سیٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ شرح 40 فیصد تک ہوسکتی ہے۔
اس پہلو کے حوالے سے ایک الجھن یہ بھی ہے کہ متعدد افراد اس حوالے سے بہت زیادہ متعدی ہوتے ہیں اور بہت آسانی سے وائرس کو دیگر تک پہنچا سکتے ہیں، وہ بھی اس سے قبل جب انہیں بیماری کا علم ہوتا ہے۔
ایسا وہ بیماری کی علامات ظاہر ہونے سے قبل ہی کردیتے ہیں جو کہ تشویش کا باعث ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان افراد میں چند دنوں میں بیماری کی واضح علامات ظاہر ہوجائیں، مگر شروع میں وہ خود کو بیمار محسوس نہیں کرتے اور اسی وجہ سے اپنے ارگرد وائرس پھیلاتے رہتے ہیں۔
مائیک ریان کے مطابق ‘اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ریسٹورنٹ میں ہو اور خود کو صحت مند سمجھ رہے ہوں اور بخار کا آغاز ہوجائے، آپ گھر میں رہنے کا خیال نہیں کرتے، مگر یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب وائرل لوڈ بہت زیادہ ہوتا ہے، یعنی بیماری اس لمحے میں پھیل سکتی ہے اور یہ مرض بہت زیادہ متعدی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ وائرس دنیا بھر میں بہت تیزی سے پھیلا’۔
ماریہ وان نے اس حوالے سے کہا کہ کورونا وائرس کے متعدد مریض مکمل طور پر علامات سے محفوظ نہیں ہوتے، مگر ان میں بیماری کی شدت بہت کم ہوتی ہے، ایسے افراد کے لیے تحقیقی رپورٹس میں اسمپٹومیٹک کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے، مگر یہ درست نہیں ہے، کیونکہ ایسے افراد تھوڑی بہت تو بیماری محسوس کرتے ہیں مگر اتنے بیمار نہیں ہوتے کہ وائرس کی موجودگی کا یقین کرسکیں۔
ان کا کہنا تھا ‘جب ہم اسمپٹومیٹک کہتے ہیں، تو ہمارا مطلب ایسا فرد ہوتا ہے جس میں علامات نہیں ہوتیں، کسی بھی قسم کی علامات نہیں ہوتیں’۔
عالمی ادارے نے زور دیا کہ سماجی دوری، ہاتھوں کی صفائی، اپنے چہرے کو چھونے سے گریز اور علامات والے مریضوں کا سراغ لگا کر ہی وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔
مائیک ریان نے کہا ‘وائرس کو روکنا ممکن ہے، یہ اتنا متعدی نہیں کہ اسے روکا نہ جاسکے’۔