انڈیا، چین تنازع میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
انڈین صحافی کلدیپ نیئر اپنی کتاب ’بیونڈ دی لائنز‘ میں لکھتے ہیں کہ جب چین اور انڈیا کے درمیان ہمالیائی سرحد پر جنگ چھڑی تب شاہِ ایران نے اُس وقت کے انڈیا کے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو کو ایک خط کی کاپی بھیجی جو انھوں نے پاکستان کے صدر ایوب خان کو لکھا تھا۔
اس خط میں انھوں نے صدر ایوب کو تجویز دی تھی کہ وہ انڈیا اور چین کی سرحد پر اپنے جوان تعینات کریں تاکہ ’لال جنجال‘ سے بچا جا سکے۔
بعد میں صدر ایوب نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بیرونی طاقتوں کو یہ دیکھنا چاہییے کہ پاکستان کا انڈیا کی کمزوری کا فائدہ نہ اٹھانا دراصل پاکستان کی فراخ دلی کے ساتھ ساتھ ایک طرح کی مدد بھی ہے۔
کلدیپ نیئر نے پاکستان کے بانی محمد علی جناح سے لا کالج لاہور میں اپنے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں لکھا کہ جب جناح سے انھوں نے یہ سوال کیا کہ اگر کسی تیسری طاقت نے انڈیا پر حملہ کیا تو پاکستان کیا کرے گا؟ تو جناح نے جواب دیا کہ پاکستان کے سپاہی انڈین سپاہیوں کے ساتھ مل کر لڑیں گے۔
سنہ 1961 کے وسط میں چینی سپاہی سینکیانگ اور تبت سرحد سے تقریباً 70 میل مغرب میں انڈین علاقے میں داخل ہو چکے تھے۔ لیکن اس سے پہلے سنہ 1960 میں انڈیا کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پی این تھاپڑ نے حکومت کو ایک خط میں لکھا تھا کہ انڈیا کے پاس جنگ کے لیے ساز و سامان اس قدر بُری حالت میں اور اتنی کم مقدار میں تھا کہ چین اور پاکستان میں سے کوئی بھی ان کو شکست دے کر انڈیا میں داخل ہو سکتا تھا۔
لیکن اس کے باوجود چین انڈیا سے اکسائی چِن کا تقریباً 15000 سکوائر میل کا علاقہ لینے میں کامیاب ہو گیا۔
انڈیا کی اگر دفاعی صورتحال کو دیکھا جائے تو وہ چین کے مقابلے میں آج بھی خود کو کمزور مانتا ہے۔
اب ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے اور ایک بار پھر پاکستان ان دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے معاملات کو ’بغور‘ دیکھ رہا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی اس وقت اپنے عروج پر پہنچی جب جون کے مہینے میں لداخ کے خطے میں دونوں فوجوں کے درمیان ایک جھڑپ کے نتیجے میں 20 انڈین سپاہی مارے گئے۔
جس علاقے میں جھڑپ ہوئی ہے یہ اس خطے کے لیے خاصی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اسی جگہ تینوں ممالک یعنی انڈیا، پاکستان اور چین آ کر ملتے ہیں۔
چین اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کے بیچ کچھ نظریں پاکستان پر بھی مرکوز ہو چکی ہے۔ اسی حوالے سے بی بی سی نے چند ماہرین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کا کردار اس صورتحال میں کیا ہے۔
انڈیا، چین تنازع میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
پاکستان کی حکومت انڈیا اور چین کے درمیان ہونے والے تنازع کی بنیاد پانچ اگست 2019 کو انڈین حکومت کی جانب سے کیے گئے فیصلے کو سمجھتی ہے۔ اس فیصلے کے تحت جہاں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی گئی وہیں لداخ کے حوالے سے بھی اہم فیصلہ لیا گیا۔
چین نے اسی دوران ایک بیان میں پہلے ہی انڈیا کو متنبہ کیا تھا کہ لداخ کے خطے کی حیثیت بدلنا صحیح نہیں ہو گا۔
پاکستان نے ناصرف چین کی اس بیان پر حمایت کی بلکہ اس کے عوض چین نے متواتر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ جبکہ پانچ اگست 2019 کے بعد کشمیر پر ہونے والے دو سیشن میں چین نے پاکستان کی ہی حمایت کی۔
حال ہی میں اس واقعے کے ایک سال پورے ہونے پر ایک بار پھر چین نے اپنے بیانات کے ذریعے پاکستان کے مؤقف کو ہی برتری دی۔
لیکن اس وقت جہاں چین ایک اور سرد جنگ نہیں چاہتا اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو کو فروغ دینا چاہتا ہے، وہیں پاکستان اقتصادی روڈ تعاون میں چین کا ساتھ چاہتا ہے۔
مسلم لیگ نواز کے سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ ’پاکستان چین کا ساتھ اصولی بنیادوں پر دے گا۔ اصولی طور پر انڈیا غلط ہے اور یہ جانتے ہوئے پاکستان انڈیا کا ساتھ نہیں دے گا لیکن بات چیت کے ذریعے اگر یہ سلجھایا جا سکے تو صحیح ہے۔ ورنہ انڈیا کو خطے میں اپنی انا پرست پالیسی پر نظرِ ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‘
ساتھ ہی چند حلقوں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان اور چین نے شروع ہی سے ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔
’ساتھ دینے‘ کا کیا مطلب ہے؟
اس کا جواب جاننے کے لیے تھوڑا ماضی میں جانا پڑے گا اور یہ دیکھنا پڑے گا کہ وہ کون سے ایسے بڑے مواقع تھے جہاں چین اور پاکستان نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔
سنہ 1962 کی چین، انڈیا جنگ کے دوران پاکستان کی ’خاموش ڈپلومیسی‘ کے بعد سنہ 1965 کی انڈیا، پاکستان جنگ میں چین نے پاکستان کا ساتھ دیا۔
مشاہد حسین سید کہتے ہیں ’حالانکہ امریکہ کے ساتھ ہمارا دفاعی معاہدہ بھی تھا اور وہ اس نوعیت کا ہمارا حریف بھی نہیں تھا لیکن امریکہ نے ان سب باتوں کے برعکس انڈیا کا ساتھ دیا۔ اس وقت چین، جس سے ہماری ابھی نئی نئی قربت شروع ہوئی تھی، اس کا پاکستان کا ساتھ دینا ایک اہم موقع تھا۔‘
دوسرا موقع سنہ 1968 میں آیا اور وجہ بنی پشاور سے چھ کلومیٹر دور جنوب میں موجود گنجان آباد علاقہ بڈھ بیر۔ اس علاقے کو تقریباً سنہ 1959 سے لے کر سنہ 1970 تک امریکہ سابقہ سوویت یونین کے خلاف جاسوسی کے لیے استعمال کرتا تھا۔
پاکستان نے کھلے لفظوں میں امریکہ سے اسے بند کرنے کو کہا۔ پاکستان کے اس اقدام سے چین خوش ہوا اور اس کے فوراً بعد سوویت یونین نے پاکستان کو ایشین سکیورٹی معاہدے میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ مگر پاکستان نے یہ دعوت مسترد کر دی۔
اس مجموعی معاہدے کے پیچھے وجہ چین کی خلاف ورزی تھی جو پاکستان نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اسی طرح 1971 میں پاکستان نے امریکہ اور چین کے درمیان بات چیت کی راہ ہموار کی جس سے چین کو اُس زمانے میں درپیش بین الاقوامی تنہائی میں قدرے کمی واقع ہوئی۔
دوسرا اہم پہلو تھا اقوامِ متحدہ کا۔
مشاہد حسین کہتے ہیں کہ ’چین کی اقوامِ متحدہ کی رکنیت دوبارہ بحال کرنے میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا۔‘
پاکستان اور چین کے تعلقات اب بہت مختلف ہیں۔ ان تعلقات کی بنیاد میں جہاں پاکستان کی جموں کشمیر کو حاصل کرنے کی دیرینہ خواہش کی تکمیل شامل ہے وہیں اس میں ایک 62 ارب ڈالر کی راہداری کا منصوبہ بھی شامل ہے۔
چین کی سائیڈ لے کر پاکستان کیا حاصل کر سکتا ہے؟
پاکستان اس وقت چین اور انڈیا کے درمیان ہونے والی جھڑپ کو بغور دیکھ رہا ہے۔
چین اور انڈیا کے درمیان پرتشدد جھڑپ کے چند روز بعد ہی انٹر سروسز انٹیلیجنس نے اپنے ہیڈ کوارٹر میں ایک اجلاس طلب کیا تھا جبکہ پاکستان کی فوج کے اعلی سربراہان بھی ان تمام تر واقعات کا بغور جائزہ لیتے رہے جبکہ ضرورت پڑنے پر چین کی حمایت کرنے کی بھی حامی بھری۔
لیکن اس وقت تینوں ممالک جنگ کرنا برداشت نہیں کر سکتے۔ اور اس حوالے سے تینوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔
چین کے اطراف میں 13 پڑوسی ممالک ہیں اور ان میں سے 11 کے ساتھ چین نے سرحدی معاہدے کر لیے ہیں تاہم انڈیا اور بھوٹان کے ساتھ اب تک معاہدہ نہیں ہو سکا ہے اور اب چین کی خواہش ہے کہ خطے میں اقتصادی راہداری کے مختلف منصوبوں کو دیکھتے ہوئے انڈیا سے بھی معاہدہ ہو جائے۔
دوسری جانب سنہ 2013 میں پاکستان کو دنیا بھر میں ایک ناکام ملک کا لقب دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود چین نے پاکستان میں 62 بلین ڈالر کی اقتصادی راہداری کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس سے جہاں دنیا بھر میں تشویش پیدا ہوئی وہیں خطے کے دیگر ممالک اس کا حصہ بننے کے لیے تگ و دو میں بھی نظر آئے۔
اسلام آباد میں چینی سٹڈیز سے منسلک محقق ڈاکٹر فضل الرحمان کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر یہ یقین دہانی بہت ضروری تھی، اسی لیے پاکستان ناصرف وقت آنے پر انڈیا کے خلاف اصولی بنیادوں پر آواز اٹھائے گا لیکن ساتھ ہی اپنے اور چین کے مفاد بھی سامنے رکھے گا۔ اور ان مفادات میں اقتصادی راہداری سب سے اوپر ہے۔‘
سابق سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان کہتے ہیں کہ ’پاکستان اور چین کی دوستی کسی چیز یا منافع کے عوض نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ پاکستان کشمیر کے بارے میں چین کا سہارا لے گا۔ لیکن اس وقت یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ سنہ 1962 میں ان تینوں ممالک کے پاس جوہری ہتھیار نہیں تھے لیکن آج حالات خاصے مختلف ہیں اور اسی لیے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔‘