Site icon DUNYA PAKISTAN

یاسر شاہ ایک فتح گر کھلاڑی جس نے کبھی حوصلہ ہارنا نہیں سیکھا

Share

لیگ سپنر یاسر شاہ کے بارے میں یہ بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ وہ ایک ایسے فتح گر کھلاڑی ہیں جنہوں نے کبھی بھی حوصلہ ہارنا نہیں سیکھا۔

یاسر شاہ کے کریئر میں متعدد بار اتارچڑھاؤ آئے ہیں لیکن انہوں نے اپنی غیرمعمولی صلاحیت کے بل پر ہمیشہ یہ ثابت کیا ہے کہ یہ مشکلات وقتی ہوتی ہیں اور انہیں زیادہ عرصے تک کامیابی سے دور نہیں رکھا جاسکتا۔

انگلینڈ کے موجودہ دورے سے قبل بھی یاسر شاہ کی کارکردگی کے بارے میں شکوک و شبہات ظاہر کیے جارہے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حالیہ کئی میچوں میں وہ متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے اور آخری چند ناکام میچوں میں ان کی صرف ایک اچھی کارکردگی بنگلہ دیش کے خلاف راولپنڈی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں چار وکٹوں کی تھی۔

انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ کے دوسرے دن کے اختتام پر جب مصباح الحق سے یاسر شاہ کی فارم اور کارکردگی سےمتعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے بڑے اطمینان اور اعتماد سے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب بھی آپ کچھ وقفے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہے ہوتے ہیں تو دباؤ یقیناً ہوتا ہے۔ یاسر شاہ نے جوروٹ کی وکٹ لی ہے اور اس میچ میں ان کا کردار اہم ہے۔

یاسر شاہ پر مصباح الحق کے اعتماد کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ خود اپنی کپتانی میں ان کی بولنگ پر بہت زیادہ انحصار کرتے رہے تھے اور یاسر شاہ نے بھی انہیں مایوس نہیں کیا۔

اعداد و شمار کی زبان میں اگر ہم بات کریں تو یاسر شاہ نے مصباح الحق کی کپتانی میں کھیلے گئے 26 ٹیسٹ میں 149 وکٹیں حاصل کیں۔ ان 26 میں سے 13 ٹیسٹ پاکستان نے جیتے تھے۔

یاسر شاہ نے اولڈ ٹریفرڈ ٹیسٹ کے تیسرے دن مزید تین وکٹیں حاصل کرکے پاکستانی ٹیم کو 107 رنز کی اہم برتری دلانے میں اپنا کردار بخوبی نبھایا۔ اس کارکردگی کی نہ صرف پاکستانی ٹیم کو بلکہ خود یاسر شاہ کو بھی بہت ضرورت تھی۔

کرس ووکس کی وکٹ پر زیادہ خوشی

یاسر شاہ کا اپنی اس کارکردگی کے بارے میں کہنا ہے کہ انہیں اپنی کارکردگی پر اس لیے بھی خوشی ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ چند ماہ کرکٹ سے دور رہے اور اب انہیں کھیلنے کا موقع ملا ہے۔

یاسر شاہ کہتے ہیں کہ کرس ووکس کو ایک پلان کے تحت آؤٹ کیا پہلے انہیں شارٹ گیندیں کیں اور پھر سیدھی گیند کی جو وہ مس کرگئے۔ اس وکٹ کی انہیں زیادہ خوشی ہے۔

یاسر شاہ کو یہ ٹیسٹ میچ کھیلتے ہوئے یقیناً چار سال قبل اسی اولڈ ٹریفرڈ کے میدان میں کھیلا گیا میچ یاد آیا ہوگا جس میں دو ڈْبل سنچریاں بنی تھیں ایک انگلینڈ کے بیٹسمین جو روٹ نے بنائی تھی اور دوسری ڈبل سنچری یاسر شاہ کی بولنگ پر بننے والے رنز کی تھی۔

اس سے اگلے ایجبسٹن ٹیسٹ میں بھی وہ کامیاب نہیں رہے تھے۔

یہ وہی سیریز ہے جس کے لارڈز ٹیسٹ میں ان کی دس وکٹوں کی کارکردگی پاکستان کی جیت کا اہم سبب بنی تھی اور سیریز کے آخری اوول ٹیسٹ میں بھی انہوں نے اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کی تھیں۔

اس مرتبہ اولڈ ٹریفرڈ کی پہلے سے مختلف کنڈیشنزمیں یاسر شاہ نے زیادہ پراعتماد ہوکر بولنگ کی اور کامیاب رہے۔

یاسر کی کامیاب سیریز

،تصویر کا کیپشنسری لنکا کے ساتھ کھیلے گئے ایک یادگار میچ کی جھلک

یاسر شاہ نے چار مرتبہ کسی ٹیسٹ سیریز میں 20 یا زائد وکٹیں حاصل کی ہیں تاہم 2018 میں نیوزی لینڈ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی سیریز میں انہوں نے سب سے زیادہ 29 وکٹیں حاصل کیں لیکن وہ سیریز پاکستانی ٹیم جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔

2015 میں انہوں نے سری لنکا کے خلاف سیریز میں 24 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ 2016 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی سیریز میں ان کی وکٹوں کی تعداد 21 رہی تھی۔

2017 میں جب پاکستانی ٹیم نے ویسٹ انڈیز میں پہلی بار ٹیسٹ سیریز جیتی تو اس میں یاسر شاہ کی 25 وکٹوں کا حصہ نمایاں تھا۔

پاکستانی لیگ سپنرز میں یاسر کی پوزیشن

ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے کامیاب لیگ اسپنرز میں عبدالقادر،دانش کنیریا، مشتاق احمد اور یاسر شاہ شامل ہیں۔

پاکستانی لیگ سپنرز میں دانش کنیریا کی سب سے زیادہ 261 وکٹیں ہیں۔ عبدالقادر236 اور مشتاق احمد185 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں۔

انگلینڈ کے خلاف پہلی اننگز میں چار وکٹیں حاصل کرنے کے بعد یاسر شاہ کی وکٹوں کی تعداد اب 217 ہوچکی ہے اس طرح وہ پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے لیگ اسپنر کے ریکارڈ سے 45 وکٹوں کی دوری پر ہیں۔

یاسر شاہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سب سے کم 33 ٹیسٹ میچوں میں 200 وکٹیں مکمل کرنے والے بولر ہیں۔

وہ سب سے کم ٹیسٹ میچوں میں سو اور ڈیڑھ سو وکٹوں کی تکمیل کے ریکارڈ میں دوسرے نمبر پر ہیں۔

یاسرشاہ پر سے دباؤ دور کرنے کی کوشش

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سپن بولنگ کوچ مشتاق احمد کہتے ہیں کہ کسی بھی کھلاڑی خصوصاً لیگ سپنر کے لیے آسان نہیں ہوتا کہ وہ کافی وقفے کے بعد میدان میں آئے اور پرفارم کرے جیسا کہ یاسر شاہ کے ساتھ ہوا ہے کہ وہ پچھلے چند ماہ سے بالکل نہیں کھیلے لیکن ان میں مقابلہ کرنے کی زبردست صلاحیت موجود ہے اور ٹیم منیجمنٹ بھی انہیں مکمل سپورٹ کرتی آئی ہے اور انہیں بولنگ میں درپیش مشکلات کو دور کرنے پر کام کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ چونکہ یاسر کو سب ٹرمپ کارڈ سمجھتے ہیں اور ان سے بے پناہ توقعات بھی وابستہ کی جاتی ہیں لہذا ان پر دباؤ بھی آجاتا ہے انہیں اس دباؤ سے نکالنے کے لیے بھی کوچنگ سٹاف ان پر کام کرتا ہے اس میں یاسر شاہ کی بھی تعریف کرنی ہوگی جو ان تمام باتوں کو سن کر اپنی بہترین کارکردگی کی کوشش کرتے ہیں۔

مشتاق احمد کو امید ہے کہ یاسر شاہ اور شاداب خان کو پہلی اننگز میں بولنگ کرنے کے بعد پچ کا اندازہ ہوچکا ہے اور انہوں نے دوسری اننگز میں بھی اچھی بولنگ کی اور فیلڈرز نے کیچز لیے تو پاکستانی ٹیم ضرور جیتے گی۔

مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ لیگ اسپنر کو چونکہ لمبی بولنگ کرنی پڑتی ہے لہذا اس کا ذہنی طور پر مضبوط ہونا ضروری ہے اور یاسر اور دوسرے اسپنرز کو کوچنگ اسٹاف اسی بارے میں بتاتا رہا ہے۔ یاسر کے بولنگ ایکشن پر بھی توجہ دی گئی ہے۔

Exit mobile version