لبنان کی حکومت کا کہنا ہے کہ منگل کے روز بیروت میں ہونے والے انتہائی تباہ کن دھماکے کی وجہ شہر کی بندرگاہ پر رکھے گئے 2750 ٹن امونیئم نائٹریٹ کا پھٹنا تھا۔
اس حوالے سے ملک کی عوام نے شدید غصے کا اظہار کیا ہے کہ اتنی زیادہ مقدار میں یہ خطرناک مواد چھ سال سے شہر کی بندرگاہ کے گودام میں بغیر کسی حفاظتی اقدامات کے کیوں پڑا تھا۔
حکومت نے ابھی تک یہ نہیں بتایا ہے کہ یہ مواد کہاں سے آیا تھا مگر نومبر 2013 میں یہ کیمیکل مولڈووا کے ایک بحری جہاز ایم وی روسس کارگو جہاز میں آیا تھا۔ یہ جہاز روسی ملکیت کا ہے۔
یہ بحری جہاز ستمبر میں جارجیہ سے روانہ ہوا تھا اور اسے موزمبیک جانا تھا۔
اس میں 2750 ٹن امونیئم نائٹریٹ موجود تھا جو عموماً خشک دانوں کی شکل میں لے جایا جاتا ہے اور اسے زرعی کھاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر اسے تیل میں ملا کر کان کنی اور تعمیراتی شعبے میں بطور دھماکہ خیز مواد بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
2015 میں شنپنگ اریسٹڈ ڈاٹ کام کے ایک نیوز لیٹر کے مطابق ایم وی روسس کارگو جہاز کو راستے میں تکنیکی خرابی کا سامنا کرنا پڑا اور مجبوراً اسے بیروت کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونا پڑا۔ یہ رپورٹ جہاز کے عملے کی نمائندگی کرنے والے لبنانی وکلا نے لکھی تھی۔
وکلا کا کہنا ہے کہ جہاز کو بندرگاہ کے حکام نے چیک کیا تو اسے سفر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ عملے کے زیادہ تر اراکین واپس لوٹ گئے تاہم روس کے کپتان بورس پروکوشیو اور تین دیگر افراد جو کہ یوکرینی باشندے بتائے گئے ہیں، واپس نہیں گئے تھے۔
بورس پروکوشیو نے جمعرات کو روئٹرز کو بتایا کہ اگرچہ جہاز اس وقت لیک کر رہا تھا، وہ سمندری سفر کے قابل تھا اور اسے اس کے مالکان نے بیروت اضافی سامان لینے کے لیے بھیجا تھا کیونکہ انھیں مالی مشکلات کا سامنا تھا۔
تاہم جب جہاز کا عملہ باحفاظت سامان کو جہاز پر لاد نہیں سکا اور مالکان بندرگاہ کی فیس نہیں دے سکے، لبنانی حکام نے جہاز کو اپنی تحویل میں لے لیا۔
وکلا کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے بعد مالکان اور دیگر افراد کی جہاز میں دلچسپی ختم ہو گئی اور جہاز چارٹر کرنے والوں کو سرمایہ کاروں کی جانب سے قانونی مسائل کا سامنا بھی تھا۔
ادھر جہاز کا عملہ جہاز پر ہی محدود ہو کر رہ گیا تھا اور کھانے پینے کی اشیا میں کمی ہو رہی تھی۔ وکلا نے بیروت میں فوری معاملات کی عدالت میں اپیل دائر کی جس میں ان کی گھر واپسی کی اجازت مانگی گئی اور اپیل میں کہا گیا تھا کہ عملے کو واپس لوٹنے کی اجازت اس لیے دی جائے کیونکہ جہاز پر موجود سامان خطرناک ہے۔
آخرکار عدالت نے عملے کو جہاز سے اترنے کی اجازت دے دی اور 2014 میں بندرگاہ کی ایک رپورٹ کے مطابق امونیئم نائٹریٹ کو گودام نمبر 12 میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ اس گودام کے برابر میں گندم کا ایک گودام تھا۔
وکلا کا کہنا تھا کہ جہاز کے سامان کی نیلامی یا اسے درست انداز میں تلف کیا جانا تھا۔ بورس پروکوشیو کا کہنا تھا سامان انتہائی دھماکہ خیز تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے جہاز پر ہی رکھا گیا تھا۔
’میں مرنے والوں کے لیے غم زدہ ہوں۔ مگر لبنانی حکام کو سزا ضرور ملنی چاہیے۔ انھوں نے بالکل بھی اس خطرناک مواد کا خیال ہی نہیں کیا تھا۔‘
بندر گاہ کے جنرل مینیجر حسن کوریتم اور لبنانی کسٹمز کے ڈائریکٹر جنرل ہدری داہر کا کہنا ہے کہ انھوں نے متعدد بار عدالتوں کو لکھا کہ اس کارگو کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے۔ انٹرنیٹ پر شیئر کیے جانے والے دستاویزات کے مطابق 2014 سے 2017 کے درمیان کسٹمز حکام نے کم از کم چھ مرتبہ عدالت سے اجازت مانگی کہ اس آتش گیر سامان کو بیچا یا تلف کیا جائے۔
حسن کوریتم نے ایک مقامی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی سکیورٹی ایجنسی نے بھی تنبیہی خط لکھے تھے۔ پبلک ورکس کے وزیر مائیکل ناجر نے رواں برس کے آغاز میں عہدہ سنبھالا۔ انھیں اس سامان کے بارے میں جولائی کے آخر میں پتا چلا اور انھوں نے دھماکے سے ایک روز قبل پیر کو اس بارے میں بات کی تھی۔
بظاہر گودام میں آگ لگنے سے امونیئم نائٹریٹ میں دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے میں 137 افراد ہلاک جبکہ 5000 زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ درجنوں افراد ابھی بھی لاپتہ ہیں۔ ملک کے صدر مشعیل عون کا کہنا ہے کہ جہاز کے کارگو سے نہ نمٹنا ناقابلِ قبول تھا اور ذمہ داروں کو سخت ترین سزا دی جائے گی۔
تفتیش کے دوران اس کارگو کی حفاظت اور سنبھالنے پر معمور متعدد حکام کو اپنے گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔