لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے بدعنوانی کی مختلف تحقیقات میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک صوبائی وزیر سمیت 3 قانون سازوں کو طلب کرلیا۔
رپورٹ کے مطابق بدعنوانی کے کیسز میں پی ٹی آئی کے قانون سازوں بشمول وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو نیب کے بیک ٹو بیک نوٹس نے پنجاب میں کمانڈ کی تبدیلی کے بارے میں قیاس آرائیوں کو جنم دیا تھا۔
جمعہ کو صوبائی دارالحکومت میں اپنا دن گزارنے والے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ‘وسیم اکرم پلس’ کو تھپکیاں دینے سے قاصر رہے جیسے انہوں نے گزشتہ مہینے کے دورے کے دوران کھلے عام ان کی تعریف کی تھی۔
پنجاب کے وزیر محنت و انسانی وسائل انصار مجید نیازی، ایم این اے ملک کرامت کھوکھر اور ایم پی اے غضنفر عباس چینا کو بالترتیب 19 اگست، 13 اگست اور 17 اگست کو نیب لاہور میں طلب کیا گیا ہے۔
انصار مجید نیازی کو پنجاب ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن میں تقرریوں اور تبادلوں/پوسٹنگ میں بدعنوانی سے متعلق الزامات کا سامنا ہے۔
بھکر سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے غضنفر عباس چینا پر معلوم وسائل سے آمدن سے زیادہ اثاثے ہیں جبکہ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایم این اے ملک کرامت کھوکھر سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اور ملک توقیر عباس کے ناموں پر منقولہ / غیر منقولہ اثاثوں کے بارے میں نیب کو پیش کردہ ریکارڈ کی وضاحت کے لیے ذاتی طور پر پیش ہوں۔
غضنفر عباس چینا جو وزیراعلیٰ بزدار کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں، نے اس وقت کے چیف سیکریٹری اعظم سلیمان اور آئی جی پی شعیب دستگیر کو سیاسی اثر و رسوخ کے بغیر فیصلے لینے کے لیے عمران خان کے بااختیار بنانے کے اقدام کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔
انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو اور قانون سازوں کو صوبے کے امور چلانے کے لیے بااختیار بنایا جائے۔
قانون کی خلاف ورزی پر محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو شراب کا لائسنس جاری کرنے پر مجبور کرنے کے لیے 50 ارب روپے رشوت لینے کے الزام میں نیب نے عثمان بزدار کو 12 اگست کو طلب کیا ہے۔
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ اپنے خلاف ’غلط الزامات‘ کا دفاع کرنے کے لیے نیب کے سامنے پیش ہوں گے۔
پی ٹی آئی کے ایک اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو نیب کے نوٹس نے ان خبروں کی تصدیق کی ہے کہ ان کے پاس موجود فائلز کو سمجھنے کی صلاحیت اور قابلیت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘اگر عثمان بزدار کے رشتے دار نے شراب کا لائسنس جاری کرنے کے معاملے میں ہوٹل کے مالک سے 5 لاکھ روپے وصول نہیں کیے تھے تو پھر یہ حکومت کے سرکاری کاروبار کو سمجھنے میں ناکامی کا معاملہ رہا ہوگا’۔
انہوں نے کہا کہ یہ بدعنوانی کا عثمان بزدار کے خلاف پنجاب میں گورننس کی پریشانیوں کا سبب بنے گا اور وزیر اعظم خان کو اپنی پسند کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبور کردے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان عثمان بزدار کو ‘نیب کا دھبا’ لگنے پر تبدیل کرنے کا سوچتے ہیں تو پی ٹی آئی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی میں علیم خان، محسن لغاری، اسلم اقبال، ہاشم جوان بخت اور یاور عباس بخاری اس عہدے کے لیے ترجیحی فہرست میں ہوں گے تاہم اس سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کا کردار بھی اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ 10 ایم پی اے کے ساتھ مسلم لیگ (ق) عثمان بزدار کی مکمل حمایت کرتی ہے اور اگر وزیر اعظم خان نے انہیں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو انہیں چوہدری پرویز الہیٰ کو یا تو اعتماد میں لینا ہوگ یا چوہدری پرویز الٰہی کو پہلے نمبر پر ترجیح دینی ہوگی۔
دریں اثنا پاکستان مسلم لیگ (ن) نے وزیر اعلیٰ سے ان کے خلاف نیب تحقیقات کی تکمیل تک مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
لیگی رہنما عظمیٰ بخاری نے بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ ‘اگر عثمان بزدار اس عہدے پر رہے تو وہ اپنے خلاف شراب لائسنس کی کیس میں نیب کی تحقیقات پر اثرانداز ہوسکتے ہیں’۔