کوانٹم کمپیوٹنگ: ’دنیا کا سب سے زیادہ ‘ٹھنڈا’ کمپیوٹر جو روایتی کمپیوٹر کو پیچھے چھوڑ دے گا‘
تصور کریں کہ امریکہ پر حملہ ہو گیا ہے۔ دشمن کا اسلحہ سے لیس ایک جہاز امریکہ کے ساحل کی جانب پرواز کر رہا ہے، جو کبھی ریڈار میں نظر آتا ہے اور کبھی غائب ہوجاتا ہے۔ امریکہ کے لڑاکا جہاز ایک دم سے ہوا میں بلند ہوجاتے ہیں لیکن اُس وقت ماہرین ہدف کی نشاندہی کے لیے بد حواسی کے عالم میں سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔
اُس وقت امریکہ کا بہترین دفاعی نظام لڑاکا جہاز یا میزائل سسٹم نہیں ہے۔ یہ انتہائی ٹھنڈے ایٹموں کا ایک باکس ہے۔
ایک جنرل چِلّاتا ہے ‘کوانٹم کمپیوٹر کو استعمال کرو۔’ یہ کمپیوٹر جس کے اندر موجود ایٹم پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلےکو بہت سُرعت کے ساتھ حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یہ ایک ہدایت جاری کرتا ہے کہ کس طرح ریڈار کو نئے سرے سے سیٹ کریں تاکہ وہ دشمن کے جہاز کی پرواز کی سمت کو دیکھ کر ہدف کی درست نشاندہی کرسکے۔
ایک کمپنی جو اس قسم کے ایک تصوراتی منظر سے نمٹنے کی تیاری کر رہی ہے اُس کا نام ہے ‘کولڈکوانٹا’۔
اس کمپنی نے حال ہی میں امریکی محکمہ دفاع ‘ڈرپا’ کے ساتھ ایک کوانٹم کمپیوٹر بنانے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جو یہ بتا سکے گا کہ کتنی سُرعت کے ساتھ ایک کمپیوٹر ریڈاروں کو نئے سرے سے اپنی پوزیشن سیٹ کرنے کی ہدایات دیتا ہے جب دفاعی نظام جُزوی طور پر ناکام ہو رہا ہوگا۔
یہ نظام ایٹموں کو ایک جگہ پر جمع کرنے کی صلاحیت پر بھروسہ کرتا ہے جنھیں ‘کوئبِٹس’ کہا جاتا ہے۔ کوئبِٹس بہت ہی چھوٹے چھوٹے آلے ہیں، نینو میٹر کے دسویں حصے کے برابر ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہ سیلیکون، گیلیم آرسنائیڈ، یا کچھ دوسرے سیمی کنڈکٹنگ مادّے سے بنتے ہیں۔
کوانٹم کمپیوٹر ان پر مشتمل ہوتا ہے جن کو وجہ سے وہ پیجیدہ سے پیچیدہ اعداد کا حساب کتاب بہت تیزی سے کرسکتا ہے۔
یہ کام سرانجام دینے کے لیے ایٹم کو بہت ہی زیادہ یخ بستہ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ دنیا کے ٹھنڈے ترین کمپیوٹر سمجھے جاتے ہیں۔
کوانٹم کمپیوٹر کے بارے میں اس وقت بہت زور شور کے ساتھ باتیں ہو رہی ہیں، تاہم یہ ٹیکنالوجی ابھی اپنی ابتدائی سطح پر ہے۔ مختلف کمپنیاں ابھی اس سسٹم کو بنانے کا کام شروع کر رہی ہیں جس کے متعلق دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ روائتی ڈیجیٹل کمپیوٹر کو اہم کام سرانجام دینے میں بہت پیچھے چوڑ دے گا۔
امریکی ریاست کولاراڈو سے تعلق رکھنے والے کولڈکوانٹا کے چیف ایگزیکٹو بو ایوالڈ کہتے ہیں کہ ‘ہمیں جو اگلے 40 ماہ میں کرنے کے لیے کہا گیا ہے وہ یہ کہ ایک ایسی مشین تیار کریں جس میں ہزاروں کوئبِٹس ہوں جو دفاع سے متعلقہ حقیقی زندگی کے پیچیدہ مسائل کو حل کرسکے، اور جس پر ہم کام کر رہے ہیں وہ یہ ریڈار کے پیچیدہ مسائل کا حل ڈھونڈنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔’
مندرجہ بالا مثال کا مقصد ایک پیچیدہ مسئلے کو زیادہ بہتر کرنا (آپٹیمائیزیشن) ہے، یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں ایک مسئلے کے شاید ہزاروں، یا لاکھوں حل موجود ہوں۔ لیکن اصل کام یہ ہوگا کہ ان میں سے بہترین حل تلاش کیا جائے۔
فوجی استعمال کے علاوہ کوانٹم کمپیوٹر سے ادوایات بنانے، سرمایہ کاری کی حکمت عملی بنانے، کمپیوٹر کی خفیہ زبان کی رمز نگاری (انکریپشن) کو توڑنا اور پیچیدہ سے پیچیدہ ترین کاموں کو ترتیب دینے میں استعمال کیا جا سکے گا۔
مسٹر ایوالڈ کہتے ہیں کہ یہ وہ میدان ہیں جہاں ابتدائی طور پر کوانٹم کمپیوٹر کے فائدے دیکھے جائیں گے — جن کی بدولت ہم پیچیدہ باتوں کے سادہ ترین حل ڈھونڈ سکیں گے جن کے لیے اس وقت زیرِ استعمال کمپیوٹرز، یہاں تک کے ان میں تیز ترین کمپیوٹر بھی، ایک پیچیدہ مسئلہ حل کرنے میں کئی کئی گھنٹے یا بعض معاملات میں کئی کئی دن لگاتے ہیں۔
اس وقت کئی اقسام کے کوانٹم کمپیوٹرز تیار کیے جا رہے ہیں، لیکن انتہائی یخ بستہ ایٹم والے نیوٹرل کوئبِٹس کا استمعال بہت ہی غیر معمولی ہے۔
یہ کوانٹم کمپیوٹرز ان سپر کمپیوٹر سے مختلف ہیں جو آئی بی ایم اور گوگل جیسی بڑی بڑی کمپنیوں نے بنائے ہیں، یا دوسرے پراجیکٹس جن میں ‘چارجڈ ایٹمز’ استعمال کیے جاتے ہیں، جنہیں ائینز بھی کہا جاتا ہے۔
‘سپر کنڈکٹنگ کوانٹم کمپیوٹرز’ انفرادی ایٹموں کو کوئبٹس کی طرح استعمال نہیں کرتے ہیں، اگرچہ یہ کمپیوٹر کم درجہ حرارت میں کام کرتے ہیں لیکن ان کو اِتنے کم درجہ حرارت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے جتنی کہ کولڈکوانٹا کے نیوٹرل ایٹموں کو ہوتی ہے۔
ایوالڈ بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ‘سپرکنڈکٹنگ استعمال کرنے والے ‘کیلوِن’ درجہ حرارت کے ہزارویں حصے پر کام کر رہے ہوتے ہیں، جبکہ ہم اُس سے بھی کم درجہ حرارت پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔’
‘کیلوِن’ درجہ حرارت کی ایک پیمائیش کا نام ہے۔ مطلق صفر کیلوِن یعنی -273.15 سیلسیس وہ درجہ حرارت ہے جو ممکنہ حد تک سب سے زیادہ ٹھنڈا ترین درجہ حرارت ہو سکتا ہے۔
اب جبکہ میلی کیلوِن (0.001 کیلوِن) ٹھنڈا درجہ حرارت ہے، کولڈکوانٹا کا مائیکرو کیلوِن اس سے بھی بہت زیادہ ٹھنڈا درجہ حرارت ہے، جو کہ تقریباً 0.000001 کیلوِن کے برابر ہے۔ دونوں ہی قدرتی طور پر پائے جانے والے کسی بھی ٹھنڈے ترین درجہ حرارت سے کافی زیادہ ٹھنڈے ہیں۔
کولڈ کوانٹا کے معاملے میں روبیڈیم ایٹموں کو ایک چھ کونوں والے یا مستطیل شکل کے شیشے کے ڈبے میں ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے، جو بمشکل ایک انچ چوڑا ہوتا ہے، اور دو انچ گہرا ہوتا ہے۔
روبیڈیم چاندی جیسا ایک دھاتی عنصر ہے۔ اس ڈبے میں ایٹموں کو لیزر کی شعاؤں سے ڈبے کی فضا میں بلند کر کے رکھا جاتا ہے۔
لیکن اس سارے عمل میں درجہ حرارت کیوں اتنا اہم ہو تا ہے؟ یونیورسٹی آف سٹریتھ کلائیڈ کے پروفریسر اینڈریو ڈیلی اور ان کے ساتھی بھی انتہائی ٹھنڈے نیوٹرل ایٹم کوانٹم کمپیوٹر پر تحقیقی کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایٹموں کو قابو میں کرنا اور ان کو اُس حالت میں رکھنا بہت اہم ہے۔
لیزر کی چمکتی ہوئی شعائیں ایٹموں سے توانائی خارج کرواتی ہیں اور ان کی رفتار کو کم کرتی ہیں۔
اس عمل کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ انہیں مکمل طور پر ساکت کیا جاتا ہے، جو کہ اس سارے عمل کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ یہ اُس طرح ٹھنڈے نہیں ہوتے ہیں جس طرح کہ ہم ٹھنڈک کا ادراک رکھتے ہیں – بلکہ ان کی حرکت کو قطعی طور پر ساکت کردینا ہی ان کی ٹھنڈک ہے۔
پروفیسر ڈیلی کہتے ہیں کہ ایک بار جب آپ اپنی ڈکس (بطخوں)، یعنی ایٹمز کو ایک قطار میں جمع کرلیتے ہیں، تو پھر آپ جس طرح چاہیں ان کو ترتیب دے سکتے ہیں۔
ایٹموں کو اس طرح ایک بہت نازک انداز میں ترتیب دینے کی صلاحیت کا مطلب ہوتا ہے کہ اُن کو دو یا تین جہتی ترتیب میں رکھا جاسکتا ہے اور انھیں کوانٹم کمپیوٹر کے دل کے قریب ایک دوسرے کے پاس رکھا جاتا ہے۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ ہر ایک اضافی ایٹم سے کمپیوٹر کی صلاحیت دوگنی ہو جاتی ہے۔
ہر نیوٹرل ایٹم کو ایک اور لیزر سے تحریک دینے سے ان میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے جو ان کے سائز میں اضافہ کردیتا ہے۔
یہ تبدیلیاں معلومات کو ‘اِن کوڈ’ کرتی ہیں یا ایٹموں کا ایک دوسرے کے ساتھ ایک عجیب طریقے سےایک ربط بناتی ہیں، اور یہ طریقہ ‘اِنٹینگلمنٹ’ کہلاتا ہے، یعنی بہت ہی پیچیدہ طریقے سے یہ سارے ایٹمز آپس میں الجھ جاتے ہیں۔
اس طرح ہم کوئبِٹس کا ایک ذخیرہ حاصل کر لیتے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک سسٹم کے مطابق کام کرتے ہیں جس سے آپ ریاضی کے ایک ماڈل کو بتانے کے لیے یا ایک پیچیدہ مسئلہ سلجھانے کے لیے چھیڑ چھاڑ کرسکتے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ کوانٹم کمپیوٹر کو استعال کرنے والے تھیوری کے لحاظ سے اس سسٹم کو لامتناہی اعداد کو امکانات کے حل کے لیے ایک ہی وقت میں استعمال کرسکتے ہیں۔
یہ روایتی کمپیوٹر کی طرح کئی اعداد کا ایک متوازی وقت میں حساب لگانے کا نام نہیں ہے، یہ اس سے زیادہ عجیب ہے، اور اُس سے کم قابلِ پیش گوئی ہے اور اس سارے عمل سے کارآمد اور سود مند جواب حاصل کرلینا اصل مسئلہ ہے۔
یونیورسٹی آف سٹریتھ کلائیلا میں پروفسیر ڈیلی کے ایک ساتھی، جوناتھن پرِچرڈ کہتے ہیں کہ ‘آپ جو اصل میں چاہتے ہیں وہ یہ کہ ‘کوانٹم سٹیٹ (کیفیت)’ آخر میں وہ جواب دے سکے جو ہمیں مسئلہ حل کرنے میں مدد دے۔
‘کوانٹم کمپیوٹر کسی ایک ‘سٹیٹ (کیفیت)’ کو ترجیح دینا بند کردیں، یا مسئلے کا ایک مخصوص جواب دینا بند کردیں۔
مسئلے کے صحیح حل کے لیے یہ ممکن حد تک بہترین حل دے دے اور یہ حل ایک روایتی کمپیوٹر کی نسبت بہت تیزی سے حاصل ہو اور انتہائی قابل بھی ہو۔
پروفیسر ڈیلی کہتے ہیں کہ ‘ہم تاحال اس بات کا انتظار کرہے ہیں کہ یہ ایک پیچیدہ ‘کمپیوٹنگ ٹاسک’ کو حل کرنے کا مظاہرہ کرے جو کے روایتی قسم کے ‘کلاسیک’ کمپیوٹر سے آگے کی کارکردگی ہو — کچھ ایسا کام جو حقیقت میں سود مند بھی ہو۔’
کولڈکوانٹا کے ملتے جلتے اصولوں کے مطابق ایک فرانسیسی کمپنی ‘پاسکل’ ان کمپوٹرز کے سسٹم کا پہلا نمونہ ( یا پروٹو ٹائپ) بنا رہے ہیں۔
پاسکل سسٹم ایک اینرجی کمپنی ‘ای ڈی ایف’ کے لیےکام کرتی ہے جو، اگر کام مکمل کرلیتی ہے تو الیکٹرک کاروں سے بل وصول کرنے کا کام کرنے والے انتہائی پیچیدہ شیڈول بہترین انداز میں تیار کرے گی۔
خاص طور پر اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کاروں کی بیٹریوں کو چارج کرنے کا وقت کم سے کم ہو اور خاص گاڑیوں کو ترجیحی بنیادوں پر دوسری گاڑیوں کی نسبت بیٹری چارج کرنے کا وقت بھی مل سکے۔
پاسکل کے چیئرمین کرسٹوفر جرزک کہتے ہیں کہ اس قسم کا مسئلہ ایک روایتی کمپیوٹر بھی حل کرسکتا ہے، لیکن ان کی دلیل یہ ہے کہ کوانٹم کمپیوٹر سسٹم بہت زیادہ سرعت سے یہ کام سرانجام دے گا، اس کام کو 24 گھنٹوں کے بجائے ایک گھنٹے میں سرانجام دے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ کوئی بہت بڑا کام نہیں لگتا ہے، لیکن اگر آپ ہر ایک گھنٹے کے بعد اپنی حکمت عملی میں تبدیلی چاہتے ہیں تو پھر یہ بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔’ اور پھر کمپیٹونگ یہ سارا عمل سپر کمپیوٹر کی نسبت سو گنا کم بجلی استعمال کرے گا۔
فی الحال ان تمام باتوں کو حقیقت میں دکھایا جانا ہے۔ لیکن اس بات کے اشارے ہیں کہ آئیندہ چند برسوں میں لیکن کچھ ماہرین کی توقع سے زیادہ تیزی سے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حیران کن حد تک ٹھنڈے کمپیوٹر کی یہ قِسم کتنی سود مند ہوگی۔