ترک پروفیسر طیب اردگان کے ذکر پر کیوں ہنسنے لگے؟
کھانے سے فراغت کے بعد انگریڈ ہم تینوں کو اپنے دفتر میں لے گئی۔ یہ واقعتا کسی پروفیسر کا کمرہ نظر آتا تھا۔ چھوٹا سا، بے ترتیب، کتابوں اور صفحات سے بھرا (بلکہ اٹا) ہوا۔ میری نگاہ دیوار پر پڑی۔ وہاں آنگ سان سوچی کی تصویر ٹنگی دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ مجھے مبہم سا خیال آیا کہ نوبیل امن پرائز کا فیصلہ کرنے والی پانچ رکنی کمیٹی ناروے میں قائم ہے۔ سوچی چونکہ نوبیل ایوارڈ یافتہ ہے، لہذا ناروے سے اسکا تعلق تو بنتا ہے۔ مگر صرف سوچی کی تصویر ہی کیوں؟ میرا ذہن ناروے اور سوچی کا ناطہ سمجھنے میں ناکام رہا۔ بلا آخر میں نے انگریڈ سے پوچھ ڈالا کہ سوچی کی تصویر یہاں کس وجہ سے ٹنگی ہے؟ میں نے مشاہدہ کیا کہ میرے سوال پر انگریڈ کے چہرے کا رنگ واضح طور پر تبدیل ہوا۔ انتہائی معذرت خواہانہ انداز میں پوچھنے لگی۔ Do you think its offensive? (کیا تمہیں یہ جارحانہ / نفرت انگیزمعلوم ہوتی ہے؟)۔ سچی بات ہے کہ میں نے یہ سوال محض اپنی معلومات کی خاطر کیا تھا۔ اسکے دفاعی انداز نے مگر مجھے حوصلہ دیا۔ ارادہ تو نہیں تھا لیکن میں نے سوچا کہ ایک دو احتجاجی جملے کہہ ڈالنے میں حرج ہی کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اپنے زیر اقتدار ملک(برما) میں ہزاروں بے گناہ انسانوں کے قتل عام اور سینکڑوں خواتین کیساتھ ہونے والی جنسی ذیادتی پر خاموشی صاد رکھنے والی حکمران خاتون حقیقتا offensive دکھائی دیتی ہے۔ وہ کہنے لگی کہ اس تصویر کو لگانے کے پیچھے کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔برما کے کچھ طالب علم ہماری یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ یہ تصویر انکے امتحانی پروجیکٹ کا حصہ تھی۔ جسے ہم نے دیوار پر لگا دیا۔ بغیر کسی وجہ کے۔پھر کہنے لگی کہ میں نے کچھ کچھ سن رکھا ہے کہ سوچی کے نوبیل ایوارڈ سے متعلق کوئی تنازعہ چل رہا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ دنیا کے مختلف حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہاہے کہ معصوم انسانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر خاموش تماشائی بنی رہنے والی، آنگ سان سوچی سے نوبیل پیس ایوارڈ واپس لیا جائے۔ میں نے مزید کہا کہ ابھی حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سوچی کو 2009 میں عطا ہونے والا حقوق انسانی سے متعلق ایک بڑا ایوارڈ(Ambassador of Conscience Award) واپس لے لیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سوچی کی تصویر پرانگریڈ کا معذرت خواہانہ انداز مجھے اچھا لگا۔ میں نے سوچا کہ یہ لوگ دوسروں کے احساسات و جذبات کا کس قدر خیال رکھتے ہیں۔ اپنے مختصر سے قیام کے دوران میں نے اوسلوکو کھلے دل و دماغ کا پر امن شہر پایا، جہاں کسی طرح کی کوئی مذہبی عصبیت نہیں تھی۔ ناروے میں برسوں سے آباد پاکستانی دوستوں نے بھی میرے اس مشاہدے کی تصدیق کی تھی۔ پاکستان واپس آنے کے چند روز بعد ناروے میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا نہایت افسوسناک واقعہ (بلکہ سانحہ) پیش آیا۔ اس واقعے پر ناروے حکومت کی خاموشی پر مجھے انتہائی رنج ہوا۔ امن سے متعلق دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈ Nobel Peace Prize)) کا فیصلہ کرنے والا ملک اگر اپنے ہاں بسنے والوں کے حساس مذہبی جذبات کی پاسداری نہ کروا سکے۔ اور چپ سادھے رہے تو ایسے منصف کی منصفی اور حق منصفی مشکوک ٹھہرتا ہے۔تاہم مجھے یقین ہے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کا ارتکاب کرنے والے شخص کے خلاف وہاں کے قانون کیمطابق ضروری کاروائی کی جائے گی۔اس بات کا یقین پاکستان میں ناروے کے سفیر نے بھی دلایا ہے۔
بہرحال انگریڈ کے دفتر سے ہم نے ہوٹل کی راہ لی۔ لنچ میں شریک دونوں ترک پروفیسر بھی اس ہوٹل میں ٹھہرے تھے جہاں میرا قیام تھا۔لہذا ہم تینوں اکھٹے ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔ انتہائی ٹھنڈ اور یخ بستہ ہوا کی وجہ سے ہم سب سست رفتاری سے چل رہے تھے۔ باتوں باتوں میں، ذکر آیا کہ پاکستان میں ترکی کے صدر طیب اردگان کو بہت سراہا جاتا ہے۔ پاکستانی عوام اور سیاسی رہنما اردگان کو بے حد پسندبلکہ آئیڈیلائز کرتے ہیں۔ میری بات سن کر دونوں ترک پروفیسر چلتے چلتے چند لمحوں کے لئے رک گئے۔
پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگے۔ ان میں سے ایک ڈرامائی انداز میں کہنے لگا۔Wow, What an Ideal. What an Ideal۔(واہ۔ کیا آئیڈیل پایا ہے)۔ ہوٹل پہنچنے تک یہ دونوں مجھے اردگان کی کرپشن اور اقربا پروری کے قصے سناتے رہے۔ اگرچہ میرے لئے یہ قصے اور خیالات نئے ہر گز نہیں تھے۔ تاہم میں دلچسپی سے سنتی اور سوچتی رہی کہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی خرابیاں ہیں، کرپشن کی داستانیں ہیں۔ اقربا پر وری کی مثالیں ہیں۔ مگر اسکے باوجود ان ممالک کی ترقی میں رکاوٹ کیوں نہیں پڑتی؟ وہاں انتہا درجے کی بے یقینی اور انتشار کی کیفیت کیوں نہیں ہوتی؟ وہاں معیشت ہر وقت بستر مرگ پر پڑی کراہتی کیوں نہیں رہتی؟ کیوں نہیں مہنگائی وہاں کے عوام کا جینا دوبھرکر رکھتی؟وہاں ترقی کا پہیہ کیوں نہیں تھمتا؟ وہاں کی کرنسی خطے کی بدترین کرنسی کا درجہ کیوں نہیں حاصل کر پاتی؟۔اپنے کمرے میں واپس آکر بھی میں کافی دیر تلک یہ باتیں سوچتی رہی۔ مجھے خیال آیا کہ شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں میں ذاتی پسند نا پسند کی وجہ سے کسی کو کرپٹ کہا تو جا سکتا ہے مگر حق انتخاب اور حق حکمرانی سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ یا شاید اس لئے کہ ان ممالک میں کرپشن کے الزامات، ٹھوس شواہد کی عدم دستیابی پر محض الزامات ہی رہتے ہیں۔ اور منتخب حکمرانوں کو اپنا عرصہ اقتدار مکمل کرنا،اپنی تشکیل کردہ پالیسیوں کی نگہبانی کرنا اور شروع کردہ منصوبوں کی تکمیل کرنا نصیب ہوتا ہے۔جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ملک کی ستر سالہ تاریخ میں کوئی ایک منتخب وزیر اعظم بھی اپنی مدت اقتدار مکمل نہیں کر سکا۔ ایسے میں تشکیل کردہ پالیسیوں اور آغاز کردہ منصوبوں کی تکمیل کیونکر ممکن ہو سکتی ہے؟۔ میرے پیارے ملک کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔ اللہ میرے ملک پر رحم فرمائے۔ (آمین)
مزید پڑھئیے:
شام میں کانفرنس کا باقاعدہ آغاز ہونا تھا۔ شام ڈھلے میں ہوٹل کی لابی میں آئی تو تقریبا تین درجن غیر ملکی خواتین و حضرات موجود تھے۔ پتہ یہ چلا کہ بیشتر مندبین اسی تھون ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔کچھ دیرینہ شناسا چہروں سے ملاقات کر کے اچھا لگا۔ محسوس یہ ہوا کہ دنیا واقعتا گول ہے۔ وقت مقررہ پر کانفرنس منتظمین کے دو نمائندے آن پہنچے۔ انکی رہنمائی میں ہم سب پیدل ہی جانب منزل روانہ ہوئے۔ یہ ساڑھے چھ بجے کا وقت تھا۔ رات کی سیاہی پھیل چکی تھی۔ اوسلو اس وقت سویا پڑا تھا۔ سڑک پر اکا دکا گاڑیاں گزر رہی تھیں۔ ہم سب لوگ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں باتیں کرتے آگے بڑھ رہے تھے۔ سردی ا س قدر شدید تھی کہ محسوس مجھے یہ ہو رہا تھا کہ منہ سے نکلے الفاظ بھی سردی کی وجہ سے برفا تے جاتے ہیں۔ بہرحال دس بارہ منٹ کے بعد ہم مطلوبہ سڑک تک آن پہنچے۔ وہا ں پہنچ کر پتہ چلا کہ ہماری قیادت کرنے والے دونوں رہنما راستہ بھول چکے ہیں۔استفسار پر کہنے لگے کہ ہم تو خود پہلی بار اس جگہ پر آئے ہیں۔ اس صورتحال پر سب نے اپنا ماتھا پیٹ ڈالا۔ دونوں رہنماوں کی کارکردگی دیکھ کر مجھے پاکستان کے کچھ رہنما یاد آگئے۔ بہرحال چند منٹوں میں وہی دو ترک پروفیسر آتے دکھائی دیے۔ وہ دونوں راستے سے واقف تھے۔ انکی قیادت میں ہم چلے اور چند منٹ میں مطلوبہ مقام پر پہنچ گئے۔
یہ ایک علمی اور تحقیقی فاونڈیشن کا دفتر تھا۔ منتظمین نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ داخلی دروازے کیساتھ پڑی میز پر کچھ کتابچے، رائٹنگ پیڈ اور قلم رکھے تھے۔ میں نے بھی سردی سے شل ہوئے ہاتھوں (اور آنکھوں) کیساتھ ایک کتابچہ اٹھا لیا۔ پاکستان کا نام نمایاں جگہ پر دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ اس احساس تفاخر سے مغلوب، میں جو ہمیشہ back bencher رہی ہوں (اور آج بھی ہوں) سب سے اگلی نشست پر جا بیٹھی۔ کچھ دیر بعد میں نے کتابچے پر نگاہ ڈالی تو اپنی عقل اور خوش فہمی پر ماتم کرنے کو دل چاہا۔ یہ یونیسکو (United Nations Educational, Scientific and Cultural Organisation) کی جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ تھی۔ یہ ان ممالک کا قصہ تھا جو صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے بدترین سمجھے جاتے ہیں۔ مختلف ممالک میں صحافیوں کے قتل سے متعلق درجہ بندی میں پاکستان کا نام نمایاں تھا۔جبکہ ہمسایہ ملک بھارت کا نام پاکستان سے بھی ایک درجہ اوپر درج تھا۔ (جاری ہے)