منتخب تحریریں

غمِ دل اور غمِ زندگی

Share

ساحر لدھیانوی کا مشہور گانا ہے جسے ثمن کلیان پور نے لاجواب انداز میں گایا ہے ”یونہی دل نے چاہا تھا رونا رلانا، تیری یاد تو بن گئی اِک بہانہ‘‘۔ گانے میں یہ مصرعہ آتا ہے ”غمِ دل بھی ہے اور غمِ زندگی بھی نہ اِس کا ٹھکانہ نہ اُس کا ٹھکانہ‘‘۔ ہم نے ایک غم کا ٹھکانہ ڈھونڈ لیا ہے۔ غمِ دل تو رہتا ہے۔ اب بھی اپنے آپ کو اس کیفیت میں پاتے ہیں کہ کوئی گزرا اور ہماری گردن گھومتے چلی گئی۔ جن حکیموں سے ہم نے بات کی ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ غم رہے گا، اس کا کوئی علاج حکیم لقمان بھی نہ ڈھونڈ سکے تھا؛ البتہ غمِ زندگی سے ہم نجات پا چکے۔ اب یہ فکر لاحق نہیں رہتی کہ ملک کا کیا بنے گا، مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے اور ہمارے مسائل‘ جن کی فہرست لا متناہی ہے‘ کب حل ہوں گے۔
غمِ دل کمبخت ایسا لا علاج مرض ہے کہ جہاں بھی ہوں لگا رہتا ہے۔ گاؤں سے شہر جائیں وہاں سے کہیں اور یہ مرض ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ فرق البتہ یہ ہے کہ گزرے دِنوں میں غمِ دل سے تڑپ بہت پیدا ہوتی تھی‘ اب وہ حالت نہیں۔ شاید عمر کا تقاضا ہے یا زمانے کے تجربات کا۔ غم تو رہتا ہے لیکن چبھتا نہیں۔ اور اس کا احساس ہو تو طبیعت خراب ہونے کی بجائے تھوڑی زیادہ خوش گوار ہو جاتی ہے۔ ایسے غم سے نجات کون چاہے گا؟
البتہ یہ جو دوسرا غم ہے غمِ زندگی کا اس سے جان چھوٹ گئی۔ ہماری بلا سے کہ اٹھارہویں ترمیم ہے کیا اور اِس کا کیا ہونا چاہیے۔ کوئی صدارتی یا پارلیمانی نظام کا سوال اُٹھائے تو بے اختیار جی چاہتا ہے کہ جوتا اٹھائیں۔ اور ہمارے ہاں کئی ایسی بحثیں جو نہ ختم ہونے والی ہیں اُن کا ذکر چھڑے تو غصے کی بجائے ہنسی آ جاتی ہے۔ پورے کرّہ ارض میں شاید ہمارا واحد ملک ہے جو اب تک اپنے مقصد کی تلاش میں ہے کہ پاکستان کیوں بنا، اس کے بننے کا مقصد کیا تھا۔ بانیانِ پاکستان کیا چاہتے تھے، قائد اعظم نے کیا کہا اور کیا نہ کہا اور جو کہا اُس کا اصل مفہوم کیا ہے۔ مسائل ہیں روزمرّہ کے کہ گندگی کا پھیلاؤ کیسے روکا جائے، معاشرے میں انصاف اور عدل کے تقاضے کیسے پورے ہوں، امیر اور غریب کا فرق جو بہت بڑھ چکا ہے کیسے کم ہو، مراعات یافتہ طبقات کی مراعات کو کیسے کم کیا جائے۔ ان مسائل کے بارے میں کچھ کرنا تو دور کی بات ہے‘ صحیح طور پہ اِن کی تہہ تک جانا اور اِنہیں سمجھنا بھی مشکل لگتا ہے‘ لیکن مقصدِ پاکستان کی تلاش میں ہم سرگرداں ہیں۔
ایک پروفیسر صاحب ہیں جن کے کالم ایک اردو معاصر میں چھپتے ہیں۔ یہ صاحبِ علم اپنے آپ کو قائد اعظم پہ آخری اتھارٹی سمجھتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے لکھا کہ لبرل، سیکولر اور دین سے بیزار حضرات قائد اعظم کی گیارہ اگست 1947ء والی تقریر کا باقی سب کچھ بھول کر صرف چند سطور اپنے سامنے رکھتے ہیں۔ وہ سطور جن میں قائد اعظم نے کہا ”اپنے مندروں میں جائیں اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبارِ مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں‘‘۔ سیکولر اور دین سے بیزار حضرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر صاحب فرماتے ہیں ”بظاہر یہ حضرات اقلیتوں کے حقوق اور غیر مسلموں کی برابری کی بات کرتے ہیں‘ جو اسلامی مملکت کے اصولوں کے عین مطابق ہے لیکن دراصل اس کی آڑ میں وہ اسلامی حوالے سے ممنوع عیاشیوں کی آزادی چاہتے ہیں‘‘۔
نہایت دلچسپ تبصرہ ہے لیکن پروفیسر صاحب اتنی مہربانی تو فرمائیں کہ ہمیں بتا دیں کہ وہ کون سی عیاشیاں ہیں جو اُن کے ذہن میں اتنا اضطراب پیدا کر رہی ہیں۔ قائد اعظم نے کیا کہہ دیا کہ پروفیسر صاحب کا ذہن نا معلوم عیاشیوں تک پہنچ گیا۔ قائد اعظم کی ساری تقریر کا نچوڑ ہی اُن چند سطور میں ہے جن کا ذکر پروفیسر صاحب نے خود کیا ہے۔ یہ اصطلاح بھی خوب ہے دین سے بیزار حضرات۔ اگرکوئی واقعی دین سے بیزار ہے تو اُسے قائد اعظم کی آڑ لینے کی کیا ضرورت ہے؟ بیزاری ہے تو اپنے میں انسان اُسے پال سکتا ہے۔ قائد اعظم کے الفاظ کو ڈھال بنانے کی کیا مجبوری؟ لیکن پہلا سوال تو رہ گیا۔ وہ عیاشیاں کون سی ہیں جن کا تصور پروفیسر صاحب کے زرخیز ذہن میں تلملا رہا ہے؟
جن گمراہ کرنے والی عیاشیوں کا تصور کوئی بے راہ روی کا شکار انسان کر سکتا ہے وہ تمام کی تمام اپنے اصلی رنگ میں قائد اعظم کے پاکستان میں موجود تھیں۔ مغلوں کے زمانے میں بھی وہ نام نہاد عیاشیاں تھیں۔ مہا راجہ رنجیت سنگھ کے لاہور دربار میں وہ عیاشیاں رہیں۔ انگریز دور میں اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ زندہ تھیں اور جیسے ہمیں دیگر بہت سی چیزیں انگریز راج سے ورثے میں ملیں چودہ اگست 1947ء کے بعد معرض وجود میں آنے والی نئی ریاست میں جن اعمال کو پروفیسر صاحب عیاشیوں کا لقب دیتے ہیں وہ ویسے ہی موجود رہے۔ رات کا سماں جو کراچی کا انگریز دور میں تھا نئی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد وہ سماں اور اُس سے منسلک روشنیاں ویسے ہی رہیں۔ بانیانِ پاکستان میں سے کسی نے اُن روشنیوں کو گُل کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ پاکستان کے پہلے حکمرانوں کے سامنے اور مسائل تھے: نئی مملکت کی بنیادیں کیسے مضبوط کی جائیں، ہندوستان سے آئے مہاجرین کو کیسے آباد کیا جائے۔ نام نہاد عیاشیوں کے بارے میں وہ سوچیں، اتنا فالتو وقت اُن کے پاس نہ تھا۔
یہ تو بعد کے لوگ تھے جن کا پاکستان کے بنانے میں قطعاً کوئی حصہ نہ تھا‘ جن کو یہ خبط لگی کہ پاکستان کے مسلمانوں کو دوبارہ مسلمان کیسے بنایا جائے۔ پاکستان کے پہلے سالوں میں اور مسائل بہت تھے لیکن یہ عیاشیوں کا بھوت ذہنوں پہ سوار نہ ہوا تھا۔ تمام تر مسائل کے باوجود دین اور مذہب کی بنیاد پر پاکستان میں وہ تعصب کی فضاء نہ پیدا ہوئی تھی جو بعد کے ادوار میں اتنی نمایاں ہو گئی۔ مسئلہ دین سے بیزار افراد کا نہیں ہے بلکہ اُن حضرات اور عناصر کا ہے جن کی کامیاب کوشش یہ رہی کہ پاکستان پہ ایک خاص لبادہ چڑھا دیا جائے۔ ایسے عناصر کی اصل چڑ سیکولر یا لبرل لوگوں سے نہیں۔ اصل اور بنیادی چڑ اقبال اور جناح سے ہے کیونکہ ملائیت کے خلاف اقبال بھی تھے اور جناح صاحب بھی۔ نظریاتی اعتبار سے تاریخ پاکستان شاعر مشرق اور قائد اعظم کے خیالات کی نفی پر مبنی ہے‘ اسی لیے جناح صاحب کی گیارہ اگست کی تقریر کا کوئی حوالہ آئے تو نظریات کے خود ساختہ پہرے داروں کو آگ لگ جاتی ہے۔ اس تقریر کا نچوڑ اُن سے ہضم نہیں ہوتا۔
یہ سب باتیں غمِ زندگی کے زمرے میں آتی ہیں اور چونکہ ہمیں پتہ ہے کہ رائج رجعت پسندانہ سوچوں میں کوئی تبدیلی نہیں آنی اسی لیے غمِ زندگی کو ایک طرف رکھ دیا ہے۔ جو آتا ہے رجعت پسندی میں اضافہ کر جاتا ہے۔ گورنر سرور آتے ہیں تو بی اے وغیر ہ کی ڈگری کے لئے کچھ نئی شرطیں لگا دی جاتی ہیں۔ گور نر صاحب ‘ جنہوںنے اپنا سب کچھ برطانیہ میں بنایا‘ جس سے ثابت ہوا کہ نظریاتی یا ذہنی طور پہ برطانیہ بھی اُن کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ بالکل ویسے ہی جیسے اکثر گمان ہوتا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی بھی ہمارے وزیر اعظم کا کچھ زیادہ نہ بگاڑ سکی۔ کرکٹ کے مایہ ناز کھلاڑی تھے لیکن خیالات اور ذہن وہی جو آپ کہہ سکتے ہیں ہمارے ایک اور مایہ ناز کھلاڑی سے منسوب کیے جا سکتے ہیں۔
بات جب یہاں تک پہنچ جائے تو سر کھپانے کا کیا فائدہ؟