لاہور میں ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہوتے تھے جن کی بڑی شہرت تھی، موصوف نے اپنے کلینک میں فیس مشورہ پانچ ہزار روپے لکھ کر لگائی ہوئی تھی اور اس 5000کے کئی صفر اکثر شوشا ہی کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی نیم پلیٹ پر ماہر امراض مزمنہ لکھوایا ہوا تھا چنانچہ وہ چھوٹے موٹے مرض کا علاج نہیں کرتے تھے بلکہ صرف دیرینہ اور موذی قسم کے امراض ہی کو قابلِ توجہ گردانتے تھے چنانچہ اگر ان کے پاس کوئی نزلہ زکام کا مریض آتا تو وہ پہلے اسے ٹی بی کے مرض میں مبتلا کرتے اور پھر اس کا علاج کرتے۔ معمولی کھانسی والے کو پہلے دمہ کراتے اور پھر اس کی طرف متوجہ ہوتے اور یہ بات قابلِ فہم بھی تھی کیونکہ اگر ماہرِ امراض چھوٹی موٹی بیماریوں میں الجھ کر رہ جاتا تو اس سے بڑی بڑی بیماریوں کی حق تلفی ہوتی تھی۔ ایک دفعہ ایک نوجوان ان کے پاس آیا جس کے گالوں پر معمولی کیل مہاسے تھے جو آغازِ جوانی میں ہوتے ہی ہیں۔ اس نے کہا ڈاکٹر صاحب میری منگنی ہو گئی ہے، اگلے مہینے میری شادی ہے، میں چاہتا ہوں شادی سے پہلے میرا چہرہ صاف ہو جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے اسے ایک دوا دی اور کہا بیس من پانی میں اس کا ایک قطرہ ڈال کر اس میں سے ایک گھونٹ پانی پیو اور مجھے بتائو۔ نوجوان نے فائر بریگیڈ والوں سے بیس من پانی اکٹھا کیا، اس میں ایک قطرہ دوا کا ڈال کر اس میں سے ایک گھونٹ پانی پیا، جس کے تھوڑی دیر بعد اس کے سارے جسم پر چہرے سمیت موٹے موٹے دانے نکل آئے، وہ نوجوان شدید گھبراہٹ کے عالم میں ڈاکٹر صاحب کی طرف دوڑا، ڈاکٹر صاحب نے اس کی یہ حالت دیکھی تو خوشی سے ان کا چہرہ کھل اٹھا کہ اب علاج کا مزہ آئے گا، چنانچہ ماہر امراضِ مزمنہ نے اس کا علاج شروع کیا جو تین سال تک جاری رہا، اس دوران نوجوان کی منگنی ٹوٹ گئی، تین برسوں میں دانے تو ختم ہو گئے لیکن اس کے بعد وہ جوان کلینک میں آتا تھا مگر کچھ شرمندہ شرمندہ سا لگتا تھا۔ وہ ڈاکٹر صاحب سے علیحدگی میں مشورہ کرتا اور علیحدگی ہی میں دوا لے کر پچھلے دروازے سے نکل جاتا۔ اس نوجوان کی شادی ایک اور جگہ ہو گئی مگر شادی کے تیسرے دن لڑکی اس سے طلاق لے کر اپنے گھر واپس چلی گئی۔
یہ سارا واقعہ میں نے اس لئے بیان کیا ہے کہ ہمارے ہاں جو آمر ہوتے ہیں وہ سب ماہر امراض مزمنہ ہوتے ہیں۔ قوم ان کے آنے سے پہلے اگر نزلہ زکام میں مبتلا ہوتی ہے تو وہ اسے ٹی بی کے مرض میں مبتلا کرکے اس کا علاج شروع کر دیتے ہیں، اگر قوم کے گلے میں ہلکی سی خراش ہے جو کھانسی کا سبب بن رہی ہے تو یہ اسے دمے کا مرض بنا دیتے ہیں، اگر قوم کے چہرے پر کیل مہاسے ہیں جو آغاز جوانی میں ہوتے ہیں تو یہ اسے لمبے چکر میں ڈالتے ہیں جس کے نتیجے میں اس کا سارا جسم داغ داغ ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کا علاج شروع کرتے ہیں اور تین سال میں یہ دانے تو ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن قوم ’’سستی کمزوری‘‘ کے مرض میں مبتلا ہو جانے سے کسی کام کی نہیں رہتی اور دوست ملکوں سے اس کے رشتے ناتے بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ ماہرِ امراض مزمنہ کی فیس مشورہ اس کے علاوہ ہوتی ہے جو قوم کی جیب سے جاتی ہے۔
پاکستان کے اولین ’’ماہر امراض مزمنہ‘‘ ایوب خان تھے جنہوں نے محبِ وطن بنگالیوں میں علیحدگی کے جراثیم انجیکٹ کئے۔ دوسرے ’’ماہر امراض مزمنہ‘‘ یحییٰ خان تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان کو کاٹ کر الگ پھینک دیا۔ تیسرے ضیاء الحق تھے جن کی ’’مسیحائی‘‘ کے نتیجے میں ملک فرقہ واریت، ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کی زد میں آیا اور ان کے بعد ہم نے چوتھی ماہر امراض مزمنہ حکومت کا مزا چکھا جس کے نتیجے میں مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ قومی جماعتوں کو سیاست سے آئوٹ کیا گیا چنانچہ ایک بار پھر بہت سی چھوٹی چھوٹی جماعتیں علیحدگی کا پرچم لے کر میدان میں اتر آئیں۔ پاکستانی قوم میں کچھ بےضمیر اور بےحس تلاش کر کے ان سے کام لیا گیا۔ جس قوم میں یہ گائیڈڈ میزائل عام ہو جائیں تو اسے زیر کرنے کے لئے کسی دشمن ملک کو لشکر کشی کی ضرورت نہیں پڑتی یہی گائیڈڈ میزائل وقت آنے پر نئے آقائوں کے بتائے ہوئے ہدف پر جا گرتے ہیں۔ بہرحال یہ بھی کہانی ہے اور بہت دردناک کہانی ہے۔ پاکستان کبھی ایک صحت مند تگڑا ملک ہوتا تھا، ساری دنیا میں اس کی دھاک تھی، لیکن ان دنوں اگر یہ مریض علیحدگی میں کسی امراضِ مزمنہ کے ماہر سے مشورہ کرتا نظر آیا تو اس کی اس ’’سستی کمزوری‘‘ کا ذمہ دار کون ہوگا؟ یقین جانیں کوئی ایک نہیں، ہم سب، میں بھی اور آپ بھی۔
اور آخر میں راحت اندوری کی وفات پر حرفِ تعزیت! راحت اندوری ایک بہت عمدہ شاعر تھے، انڈیا کے شہر اندور میں رہائش پذیر تھے، میرے خیال میں مشاعروں میں ان سے زیادہ مقبولیت شاید ہی کسی کو حاصل ہوئی ہو۔ شعر تو وہ عمدہ کہتے ہی تھے، پڑھنے کا انداز بھی لاجواب تھا۔ بہترین شاعر ہونے کے علاوہ بہترین پرفارمر بھی تھے۔ میں نے بیرونِ ملک ان کے ساتھ بہت سے مشاعرے پڑھے اور ہر بار ان کی آمد پر پورے ہال کو کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کی کوتاہیوں سے درگزر فرمائے۔ پیارے نوجوان شاعر رحمان فارس نے انہیں بہت خوبصورت منظوم خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں
شعر کا سُونا چمن کچھ اور خالی ہو گیا
ہائے کیسے شخص سے اندور خالی ہو گیا
سرحدوں کے اس طرف بھی اُس کی راحت تھی بہت
ایسا لگتا ہے مرا لاہور خالی ہو گیا
کیسی کیسی رونقیں تھیں اُس کے اِک اِک شعر میں
اک زمانہ گم ہوا اک دور خالی ہو گیا
پوچھتے ہیں اب غزل آباد کے دیوار و در
یہ بھرا گھر کس طرح فی الفور خالی ہو گیا