اللہ جانے حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کردہ نئے پاکستان‘ میرا مطلب ہے پاکستان کے نئے نقشے نے عالمی سطح پر کوئی ہلچل مچائی ہے یا نہیں؛ تاہم سوشل میڈیا پر اس نقشے نے ایسی دھوم مچائی ہے کہ وہاں پر اس کی شدت ریکٹر سکیل پر کم از کم بھی سو ڈیڑھ سے کم نہیں۔ یاد رہے کہ 2005 میں آزاد کشمیر اور ارد گرد کے علاقوں میں آنے والے تباہ کن زلزلے کی شدت ریکٹر سکیل پر 7.6 تھی۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ اس ڈیڑھ سو ریکٹر سکیل والے سوشل میڈیائی زلزلے نے کیا تباہ کن اثرات چھوڑے ہوں گے؟
بقول شاہ جی یہ ملک کا جغرافیائی نہیں بلکہ سیاسی نقشہ ہے جو پی ٹی آئی کی حکومت نے کاغذوں میں جاری کرکے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے بلکہ اپنے سر سے بلا اتاری ہے۔ اسے پنجابی میں ”چَٹی بھگتانا‘‘ کہتے ہیں۔ اس نقشے کے حوالے سے بڑے لطیفے چل رہے ہیں کیونکہ بعض لطیفوں کا دائرہ کار قابل اعتراض بلکہ حساس معاملات کی چھیڑ چھاڑ تک پہنچ گیا تھا‘ اس لئے بہت سے لطائف کو خوفِ فسادِ خلق کے مارے فوراً ”ڈیلیٹ‘‘ کر دیا کہ کہیں خواہ مخواہ ایف آئی اے سائبر کرائم والوں کا کام نہ بڑھ جائے۔
پانچ ا گست 2020 کو مقبوضہ کشمیر پر بھارت سرکار کی طرف سے نافذ کئے گئے لاک ڈائون کو ایک سال مکمل ہو گیا۔ اس سال کے دوران گزرنے والے پانچ لاکھ ستائیس ہزار چالیس منٹ کی مسلسل اور مکمل خاموشی سے بھی جب ہمارا جی نہیں بھرا تو ہم نے اس طویل غیر اعلانیہ سرکاری خاموشی کے بعد ایک منٹ کی اعلانیہ سرکاری خاموشی کا اعلان کر دیا۔ مودی جیسے فاشسٹ ہندو وزیراعظم پر اس ایک منٹ کی خاموشی کا بھی وہی اثر ہوا جو پہلے پانچ لاکھ ستائیس ہزار چالیس منٹ کا ہوا تھا۔ اس ایک منٹ کی سرکاری خاموشی سے ہمارا فرض بھی پورا ہو گیا، بھارت کا بھی کچھ نہ بگڑا اور دنیا پر بھی کوئی اثر نہ ہوا۔ کیا پرامن اور مؤثر احتجاج تھا؟ دنیا بھر میں عموماً کسی مرگ پر اظہار افسوس کے لئے دو چار منٹ کی علامتی خاموشی جیسا اقدام کیا جاتا ہے۔ اس خاموشی سے کبھی بھی کسی مردے کو زندہ ہوتے نہیں دیکھا گیا۔ یہ تدفین سے پہلے یا تدفین کے بعد میت اور اس کے لواحقین سے اپنی محبت، اپنے غم کے اظہار اور پھر مردے کو مٹی میں دفن کرنے کے عمل میں شریک ہوئے بغیر اس سے اظہار یکجہتی کا طریقہ ہے۔ سو ہم نے اس ایک منٹ کی خاموشی سے مسئلہ کشمیر کی رحلت اور تدفین پر اپنے حصے کا اخلاقی فرض پورا کر دیا۔ اس خاموشی کو آپ ”سکوت مرگ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ پانچ اگست کو اس ایک منٹ کی خاموشی کو شامل کر کے اس سکوت مرگ کا دورانیہ پانچ لاکھ ستائیس ہزار اکتالیس منٹ ہو گیا تھا۔
مقبوضہ کشمیر کو ”سرکاری طور پر‘‘ پاکستان کا حصہ دکھاتا ہوا پاکستان کا جو سرکاری نقشہ جاری کر کے بزعم خود کشمیر پر بہت بڑی پیش رفت کے بعد جو داد وصول کرنے کی سعی کی گئی ہے اس بارے میں یہ عاجز بہت کنفیوز ہو رہا ہے۔ مجھے بہت ہی اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا تو تیمور روڈ کی جانب بنے ہوئے سکول کے بڑے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے اینٹوں کی سولنگ والے راستے کے بائیں طرف بجری اور سیمنٹ سے دو عدد نقشے بنائے گئے تھے۔ ایک ضلع ملتان کا اور دوسرا پاکستان کا نقشہ تھا۔ ضلع ملتان کا نقشہ بالکل پلین تھا اور اس پر مختلف رنگوں سے مختلف تحصیلوں کو نمایاں کیا گیا تھا اور ان پر نام بھی لکھا ہوا تھا۔ پاکستان کا نقشہ زیادہ دلچسپ اور متاثر کن تھا۔ میدانی علاقوں کو بالکل پلین دکھایا تھا اور اسے سبز رنگ سے ظاہر کیا ہوا تھا۔ پانچ دریا اس سیمنٹ کے نقشے میں بڑی مہارت سے پتلی پتلی گہری نالیوں کی صورت میں بنائے گئے تھے اور ان میں نیلا رنگ بھرا ہوا تھا۔ کشمیر کے پہاڑوں کو باقاعدہ چھوٹے چھوٹے پہاڑوں کی طرح بجری اور سیمنٹ سے ابھار کر بنایا گیا تھا۔ ایک بہت نمایاں‘ اونچا پہاڑ بھی تھا جسے کے ٹو کے نام سے منسوب کیا گیا ہوا تھا۔ سطح مرتفع پوٹھوہار اور بلوچستان کو اونچا نیچا اور غیر ہموار دکھایا گیا تھا۔ سارے پہاڑ سفید رنگ کے تھے۔ تب پورا کشمیر بشمول مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ دکھایا گیا تھا اور اسے جموں و کشمیر کا نام دیا گیا تھا بلکہ یہ سیمنٹ کا نقشہ ہی کیا؟ تب جغرافیے کی کتاب میں بھی پاکستان کا وہی نقشہ ہوتا تھا جو گزشتہ دنوں تحریک انصاف کی حکومت نے جاری کیا ہے۔
یہ صرف پرائمری سکول کی بات نہیں‘ گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی میں چھٹی کلاس میں ماسٹر گلزار صاحب نے جغرافیے کی کلاس میں پاکستان کا جو نقشہ کتاب میں دکھاکر پڑھایا‘ کاپی پر بنوایا اور کلاس میں جو چارٹ بنوا کر لگایا‘ اس میں سارا کشمیر یعنی آزاد کشمیر‘ مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان‘ پاکستان کا حصہ ہوتے تھے۔ ہر نقشے میں صفحے کے ایک طرف ایک چھوٹے سے چوکھٹے میں جوناگڑھ اور مناوادار بھی پاکستان کے نقشے کا حصہ ہوتا تھا۔ یہ نقشہ ہم اپنی جغرافیے کی ہر کتاب میں دیکھتے رہے اور پڑھتے بھی رہے۔ یہ سلسلہ کامل 1973 تک تو نصابی کتب کے حوالے سے چلتا رہا اور بعدازاں جغرافیہ ہمارا مضمون نہ رہا؛ تاہم ایک عرصہ بعد تک بھی یہی وہ نقشہ تھا جو ہر نصابی کتاب میں نظر آتا رہا۔ اب وہی پرانا نقشہ نئی انتظامیہ کی زیرنگرانی دوبارہ پیش خدمت ہے۔
ایک ستم ظریف نے اس نئے نقشے کے حوالے سے ایک بڑا دلچسپ لیکن مشکل سوال کیا ہے کہ اب مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور پاکستان کے اس حصے پر نو لاکھ بھارتی فوج بیٹھی ہوئی ہے‘ اب اس کا کیا کرنا ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: اگر اس طرح نقشے میں شامل کرنے سے وہ علاقہ آپ کی مملکت کا حصہ بن جاتا ہے تو پھر مناسب ہے کہ امریکہ کو پاکستان میں شامل کر لیا جائے۔ میں نے کہا: شاہ جی وہ ہم سے بڑا بھی ہے اور تگڑا بھی۔ ویسے اس کی آبادی بھی ہم سے زیادہ ہے۔ ہم نے اگر اسے پاکستان میں شامل کر لیا تو معاملہ الٹا ہو جائے گا اور اس کو حصہ بناتے بناتے ہم اس کا حصہ بن جائیں گے۔ زیادہ مناسب ہے کہ دوچار چھوٹے چھوٹے لیکن امیر کبیر ممالک کو اپنے نقشے میں شامل کرکے ان کے مالک بن جائیں جیسے برونائی دارالسلام‘ یہاں فی کس آمدنی پچاسی ہزار ڈالر سالانہ ہے۔ سنگاپور کی آبادی ساٹھ لاکھ سے کم ہے۔ جی ڈی پی چار سو ارب کے لگ بھگ ہے جو پاکستان سے تقریباً ڈیڑھ گنا ہے اور فی کس آمدنی ایک لاکھ ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے جو پاکستان کی فی کس آمدنی سے بیس گنا زیادہ ہے۔
چودھری بھکن کا معاملہ سب سے زیادہ ٹیڑھا ہو گیا ہے۔ اس نے حکومت کی دیکھا دیکھی اپنے ساتھ والے گھر کا لان اپنے گھر کے نقشے میں شامل کرکے وہاں گھسنے کی کوشش کی تو خاصی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ اپنی اس بے عزتی پر گزشتہ ہفتے سے بہت غصے میں ہے۔
میرا حکومت سے صرف ایک سوال ہے کہ وہ اپنے جاری کردہ نقشے کو واقعی سرکاری نقشہ سمجھتی ہے یا یہ ”گونگلوئوں‘‘ سے مٹی اتارنے والا معاملہ ہے؟ اگر یہ واقعی پاکستان کا سرکاری نقشہ ہے تو وہ اس کی حرمت کا خیال کرتے ہوئے اور کچھ بھی نہ کرے تو کم از کم اب اس کے علاوہ کسی اور پاکستانی نقشے پر مشتمل کوئی کتاب‘ کوئی رسالہ‘ کوئی دستاویز یا کوئی ایپ پاکستان کی حدود میں نہ داخل ہونے دے اور نہ ہی چلنے دے۔ کم از کم وہ اتنا تو کر سکتی ہے؟ Economist رسالے میں جموں و کشمیر کو متنازعہ علاقہ دکھاتے ہوئے ایک نقشہ چھاپ دیا گیا تھا۔ بھارتی حکومت نے وہ رسالہ بھارت میں داخل نہیں ہونے دیا تھا۔ اب دیکھتے ہیں پانچ لاکھ ستائیس ہزار اکتالیس منٹ کی خاموشی کے بعد حکومت نقشے کی حرمت کے لئے کیا قدم اٹھاتی ہے؟