منگل کو لاہور میں مسلم لیگ ن کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم اور اس کے بعد سیاسی سطح پر شروع ہونے والی الزام تراشیوں نے کورونا کی صورتحال کے باعث ملک کی سیاست پر طاری جمود کو توڑ کر اچانک ایک سیاسی ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔
حزب اختلاف کے بعض رہنما گذشتہ کچھ عرصے سے اپوزیشن کی سیاست میں ہلچل پیدا کرنے کی کوشش تو کر رہے تھے لیکن اسی دوران سیاسی مبصرین مسلم لیگ ن پر سیاسی طور پر غیر متحرک ہونے کا الزام عائد کرتے دکھائی دے رہے تھے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گذشتہ چند مہینوں سے سیاسی افق پر اپوزیشن کی سرگرمیاں ماند نظر آ رہی تھیں۔ بعض ناقدین اور سیاسی مبصرین کا یہ تک کہنا تھا کہ ن لیگ کے رہنماؤں نے لب سی لیے ہیں اور کہا جانے لگا تھا کہ ’حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی سیاست ختم ہو چکی ہے اور یہ کہ اگلے چھ ماہ میں اپوزیشن کی جانب سے بڑی احتجاجی تحریک چلنے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔‘
یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ ن لیگ کا ووٹر احتجاجی مہم یا دھرنوں کا قائل نہیں کیونکہ اس کی ’ن لیگ سے محبت ووٹ کی حد تک ہے، وہ جیل جانے یا پولیس کے ڈنڈے کھانے والا مزاج نہیں رکھتا۔‘
لیکن منگل کو پنجاب کے شہر لاہور میں مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر ہونے والی ہنگامہ آرائی سے صورتحال کچھ بدلتی نظر آ رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی منگل کو لاہور میں پیش آیا واقعہ حکومت کی ہزیمت اور ن لیگ کی سیاست کو جگانے کا ذریعہ بنا ہے؟
گاڑی پر حملہ اور مریم نواز کا موقف
مریم نواز کافی عرصے سے خاموش تھیں حتیٰ کہ ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی کوئی خاص سرگرمی نظر نہیں آ رہی تھی۔ لیکن منگل کی ہنگامہ آرائی کے بعد مریم فوراً پریس کانفرنس کرنے پہنچ گئیں۔
ناصرف یہ بلکہ اس واقعے کے تناظر میں وہ ٹوئٹر پر بھی خاصی سرگرم ہو گئی ہیں۔
ٹوئٹر پر وہ زخمی کارکنان کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی ویڈیوز اور تصاویر بھی شئیر کر رہی ہیں جن میں وہ اپنے اوپر ہونے والے ’حملے‘ کی تفصیلات بتا رہی ہیں۔
نامہ نگار بی بی سی عمر دراز ننگیانہ سے بات کرتے ہوئے مریم نواز کے پرسنل سیکرٹری ذیشان ملک کا کہنا تھا کہ ’آپ گاڑی کی حالت کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کو ہونے والا نقصان پتھر سے نہیں ہو سکتا۔ کوئی تو ایسی چیز ماری گئی ہے جس نے اس کی یہ حالت کی ہے۔‘
ذیشان ملک کا کہنا تھا ’آپ اسے گولی بھی کہہ سکتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’مریم نواز کو پولیس کی جانب سے دانستہ طور پر جسمانی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ’آپ اندازہ لگائیں کہ اگر گاڑی بلٹ پروف نہ ہوتی تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔‘
یاد رہے مریم نواز کی نیب پیشی کے موقع پر ہونے والی ہنگامہ آرائی کا الزام نیب کی جانب سے مریم نواز اور مسلم لیگ ن کے کارکنوں پر لگایا گیا ہے جس کی ناصرف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے بلکہ متعدد کارکنوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
تاہم مسلم لیگ ن اس تصادم کا الزام پولیس اہلکاروں پر عائد کرتی ہے، اور اس سلسلے میں مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم عمران خان سمیت دیگر افراد کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست بھی دے رکھی ہے۔
کیا لاہور میں ہوئی ہنگامہ آرائی نے ‘سوئی ہوئی ن لیگ’ کو متحرک کر دیا ہے؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ سیاسی اور انتظامی، دونوں صورتوں میں، اس کا فائدہ پاکستان مسلم لیگ ن کو ہو گا۔
سیاسی فائدے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’اس واقعے سے قبل عام تاثر یہ تھا کہ ن لیگ مفاہمتی سیاست کی طرف چل پڑی ہے اور اس میں احتجاجی سیاست کا دم خم ہی نہیں ہے۔ کل انھوں نے ایک تو یہ دکھایا کہ اگر چیلنج پیش آیا تو ہم احتجاجی تحریک چلا سکتے ہیں۔‘
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ یہ بھی سمجھا جا رہا تھا کہ ن لیگ کے قائد نواز شریف کے جانے کے بعد ان کی جماعت کا اصل بیانیہ مفاہمت کا بیانیہ ہے۔ ’یعنی جو نواز شریف کا بیانیہ تھا وہ کہیں کھو گیا ہے۔ کل مریم نے اسی بیانیے کی بات بھی کی ہے اور اظہار بھی کیا ہے۔‘
تصادم کے حوالے سے دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر پہل کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔تاہم سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’انتظامی معاملات میں یہ سب باتیں ہوتی ہیں کہ امن و امان کی صورتحال کس نے خراب کی، پتھر کون لے کر آیا، پہل کس نے کی یا کس کی غلطی تھی۔‘
’لیکن انتظامی معاملات میں جب بھی صورتحال بگڑتی ہے تو انتظامیہ ذمہ دار ہوتی ہے۔ انتظامیہ کا کام ہے کہ صورتحال کو قابو میں کرنا یا بگڑنے نہ دینا اور حزبِ مخالف کا کام ہوتا ہے اس سے فائدہ اٹھانا۔ اس لیے سیاسی طور پر بھی ن لیگ کی جیت ہوئی ہے اور انتظامی طور پر انتظامیہ کو شکست ہوئی ہے۔‘
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ دونوں اطراف سے پتھر چلتے دکھائی دیے تھے تاہم ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے یہ الزام عائد کرنا درست نہیں ہو گا کہ انھیں دانستہ طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی جب تک کہ معاملے کی تحقیقات نہ کر لی جائیں۔
صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کا استدلال ہے کہ اس واقعے نے پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو ایک مرتبہ پھر متحرک ہونے کا موقع دیا ہے۔ ’جو جمود ن لیگ کی سیاست میں طاری تھا وہ ایک حد تک ٹوٹا ہے۔‘
مریم نواز کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ’ن لیگ نواز شریف کے مزاحمت کے بیانیے کو یکسر چھوڑ نہیں سکتی اور اب بھی اس پر قائم ضرور ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس واقعے کے لیے وقت کا تعین درحقیقت نیب نے کیا کیونکہ مریم نواز تو آرام سے بیٹھی ہوئیں تھیں۔۔۔اس موقع سے ن لیگ نے فائدہ اٹھایا۔‘
’انھوں نے یہ بتا دیا کہ ان کے جماعت ڈرائنگ روم کی جماعت نہیں ہے اور اسے ڈرائنگ روم میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ مریم نے اپنی پریس کانفرنس سے بھی تاثر دیا ہے کہ وہ اپنے بیانیے پر قائم ہیں اور ان کی جماعت اب بھی ایک عوامی طاقت ہے۔‘
مجیب الرحمان شامی کے مطابق جیسا کہ مریم دعوٰی کر رہی ہیں کہ ان کی گاڑی کو پتھروں کے علاوہ بھی کسی چیز سے نشانہ بنایا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’کچھ ایسے عناصر بھی وہاں موجود تھے جو یا تو پولیس کی وردی میں تھے یا وردی سے باہر تھے جو اس سارے ہنگامے کو بڑھاوا دے رہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی باقاعدہ تحقیقات ہوں تو صحیح طرح معلوم ہو پائے گا کہ کون کیا کر رہا تھا۔
وہ تجزیہ کار سہیل وڑائچ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہنگامہ آرائی کی ذمہ داری انتظامیہ پر ہی عائد ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا پر بیشتر سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں سے لے کر عام صارفین تک منگل کو پیش آئے واقعے پر اپنی آرا کا اظہار کرتے نظر آئے۔
کئی صارفین مریم نواز کی نیب میں پیشی اور پریس کانفرنس کے موقعے پر مریم نواز کے چچا اور جماعت کے صدر شہباز شریف کی غیر موجودگی کو نشانہ بناتے یہ کہتے نظر آئے کہ ’بھتیجی پر مبینہ طور پر قاتلانہ حملہ ہوا اور چچا لاہور میں ہونے کے باوجود پہلے پیشی اور پھر پریس کانفرنس سے بھی غائب ہیں۔‘
کئی صارفین یہ بھی کہتے نظر آئے کہ ’مریم نواز کی ایک پیشی اور پریس کانفرنس، شہباز اور اپوزیشن کی دو سالہ کارکردگی سے سو گنا بہتر ثابت ہوئی ہے۔