اس برس کے آغاز سے ہی دنیا کو کورونا وایرس کی وبا کاسامنا رہا ہے اور چین سے شروع ہونے والے کورونا کے مرض نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
وبا کے عروج کے دوران رواں برس مارچ اور اپریل میں عالمی ادارہ صحت نے متنبہ کیا تھا کہ یہ وبا لمبے عرصے تک دنیا میں رہے گی اور ہمیں ذاتی حفاظتی احتیاط اور صفائی کے ضابطہ کار اور سماجی دوری کو اپناتے ہوئے اس کا مقابلہ کرنا ہو گا۔
دنیا میں کورونا کے پھیلاؤ کے دوران امریکہ، برازیل، سپین، اٹلی، فرانس جیسے ممالک کو بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ یہاں متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد میں ایک دم بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور ان ممالک کا صحت کا نظام بری طرح بیٹھ گیا۔
جبکہ نیوزی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک نے اس وبا کے آغاز میں ہی لاک ڈاؤن جیسے اقدامات لے کر ملک میں وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی کامیاب کوشش کی تھی۔
تاہم عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا تھا کہ اگر دنیا نے اس وبا کا عروج گزر جانے کے بعد بھی احتیاطی تدابیر نہ اپنائے رکھیں تو اس کی دوسری لہر کا خدشہ ہے۔
اگر سپین، اٹلی، فرانس سمیت نیوزی لینڈ کے گذشتہ تین سے چار ہفتوں کے حالات پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی تنبیہ درست تھی۔ ان ممالک میں کورونا کے دوبارہ سے بڑھتے کیسز پر ایک سرسری جائزہ ڈالتے ہیں۔
نیوزی لینڈ میں 102 روز بعد نئے کیس کی تشخیص
نیوزی لینڈ جس نے جون کے اوائل میں اپنے ملک کو کورونا سے پاک قرار دیتے ہوئے معاشرتی اور کاروباری سرگرمیوں کو بھرپور انداز میں شروع کیا تھا وہاں اب دوبارہ سے کورونا کے متاثرین کی تعداد دیکھنے میں آ رہی ہے۔
اس کے پیش نظر نیوزی لینڈ کی حکومت نے اپنے سب سے بڑے 16 لاکھ آبادی والے شہر آکلینڈ میں تین دن کے لیے سخت لاک ڈاؤن کا نفاذ کر دیا ہے۔
شہریوں کو گھروں میں رہنے کا کہا جانے کے ساتھ ساتھ تمام کاروباری مراکز کو بند کر دیا گیا ہے۔ بڑے عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
شہر میں تقریباً 102 دن کے وقفے کے بعد دوبارہ سے ایک ہی خاندان کے چار افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق کی گئی ہے۔ جبکہ ان میں سے کسی فرد نے بیرون ملک کا سفر نہیں کیا تھا۔
دوسری جانب محکمہ صحت کے حکام ان چار متاثرہ افراد کے کونٹیکٹ ٹریسنگ کر رہے ہیں۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈنڈ نے بھی بدھ کے روز اسمبلی تحلیل کرنے کت کارروائی کو منسوخ کر دیا ہے۔
واضح رہے 19 ستمبر کو نیوزی لینڈ میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ وزیر اعظم جاسینڈا کا کہنا تھا فی الحال انتخابات کو ملتوی کرنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت ملک میں کورونا کی صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ کورونا کے متعلق بنائے گئے چار درجوں پر ہنگامی صورتحال کے معیار کے مطابق ملک نے دوسرے درجہ کے اقدامات اٹھا لیے ہیں۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ‘پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی ہم وقت سے قبل اقدامات اٹھا کر وبا کے پھیلاؤ کے خطرے کو کم کر دیں گے اور جلد ہی اس سے چھٹکارا پا لیں گے۔’
یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت سمیت دنیا نے کورونا وائرس کے بارے میں نیوزی لینڈ کی حکمت عملی اور اقدامات کو بہت سراہا تھا، ملک میں فروری کے آخر سے وبا کے باعث اب تک صرف 22 ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ 1220 متاثرین میں وائرس کی تصدیق کی گئی ہے۔
فرانس ’غلط سمت میں جا رہا ہے‘
فرانس میں بھی وبا کی دوسری لہر کا خطرہ منڈلا رہا ہے اور ملک میں مہینوں سے نافذ لاک ڈاؤن پابندیوں میں چند ہفتے قبل نرمی کیے جانے کے بعد سے کورونا متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک میں وبا کے متاثرین کی تعداد میں دگنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کے بعد فرانس کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ‘ملک گذشتہ دو ہفتوں سے غلط سمت میں جا رہا ہے۔’
فرانس کی وزارت صحت کے مطابق رواں ہفتے پیر سے اب تک ملک میں تقریباً 1400 نئے متاثرین میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جبکہ 14 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ملک میں لاک ڈاؤن پابندیوں میں ایک بار پھر اضافہ کیا جا رہا ہے، پانچ ہزار سے بڑے عوامی اجتماعات پر پابندی 30 اکتوبر تک بڑھا دی گئی ہے۔
فرانس کی وزارت صحت کے مطابق گذشتہ ہفتے میں ملک میں دس ہزار سے زائد متاثرین کی تصدیق کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ مارچ اور اپریل میں وبا کے عروج کے دوران فرانس میں کورونا کے بہت زیادہ متاثرین تھے اور ملک میں ابتک 30 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں جو کہ عالمی سطح پر ساتویں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔
ملک میں ماسک پہننے پر پابندی عائد ہے تاہم حکومت نے جون کے اواخر میں سیاحت کے لیے لاک ڈاؤن میں نرمی کی تھی۔
سپین میں ’خطرناک صورتحال‘
سپین میں بھی ایک بار دوبارہ سے کورونا کی وبا سر اٹھا رہی ہے اور ملک میں صورتحال دن بدن بگڑتی جا رہی ہے۔
صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سپین ایک مرتبہ پھر سے وبا کے حوالے سے ‘خطرناک صورتحال’ تک پہنچ گیا ہے کیونکہ ملک میں وائرس کے پھیلاؤ کا تناسب یورپی ممالک میں سے سب سے زیادہ ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ملک میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد میں 4923 یومیہ اوسط کے لحاظ سے اضافہ ہو رہا ہے۔
سپین کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ملک میں وبا کے پھیلاؤ کے تقریباً 500 ہاٹ سپاٹ موجود ہیں۔ حکام نے دوبارہ سے تیزی سے پھیلتے کیسز کو انتہائی تشویشناک قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران مارچ اور اپریل میں سپین میں 28000 افراد اس وائرس کے باعث ہلاک ہو گئے تھے۔
جرمنی : کیسز دوبارہ بڑھنے لگے
روئٹرز کے مطابق جرمنی میں بھی کورونا کے کیسز میں دوبارہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور بدھ کو نئے 1226 متاثرین میں وائرس کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ چھ افراد وائرس کے باعث ہلاک ہوئے ہیں۔
مارچ اور اپریل کے دوران جرمنی میں بھی وبا عروج پر تھیں اور لاکھوں افراد متاثر جبکہ ہزاروں ہلاک ہوئے تھے۔
ملک میں اب تک دو لاکھ سے زیادہ افراد متاثر جبکہ نو ہزار سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
جرمنی نے ملک بھر کے ایئر پورٹس پر بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کا کورونا ٹیسٹ لازمی قرار دیا ہے۔
ملک میں سیاحت کو جزوی طور پر کھولا گیا ہے تاہم بیشتر مقامات پر چہرے پر ماسک پہننے کو لازمی قرار دیا ہے۔
جرمنی کی وزارت خارجہ نے اپنی شہریوں کو کورونا وبا کے پیش نظر سپین کے شہر میڈرڈ اور باسکی کے علاقے میں سفر کرنے سے منع کیا ہے۔
ملک میں ماہرین صحت نے عوام کی جانب سے احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزی کرنے پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہےکہ عوام غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے ملک کو ایک مرتبہ دوبارہ وبا کی گرفت میں دینے جا رہی ہے۔
اٹلی میں سیاحتی مقامات ایک بار پھر بند
اٹلی میں بھی کورونا کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر حکام نے مشہور اور مصروف سیاحتی مقامات بند کر دیے ہیں۔
ملک میں وہ کلبز، مے خانے اور ریستوران جو سماجی دوری کے ضابطہ کار پر عمل پیرا نہیں تھے انھیں بند کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے اٹلی میں سات مارچ کو پہلی مرتبہ لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا اور پھر دو ماہ بعد رفتہ رفتہ مرحلہ وار اس میں نرمی کی گئی تھی۔
گذشتہ ماہ سے ملک میں ایک مرتبہ بھر وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اٹلی میں اب تک ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد متاثر جبکہ 35 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق رواں ماہ اٹلی میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں 38 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔