اے اور او لیولز کے متنازع نتائج: کیمبرج اسسمنٹ انٹرنیشنل ایجوکیشن پر سوالات، طلبہ کا گریڈز میں بہتری کا مطالبہ
کیمبرج اسسمنٹ انٹرنیشنل ایجوکیشن نے دو روز قبل اے اور او لیول کے نتائج جاری کیے ہیں۔ ان نتائج میں امتحانات کے بغیر براہ راست گریڈنگ کی گئی ہے۔ مگر دیگر کئی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی طلبا نتائج پر سراپا احتجاج ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر گذشتہ روز سے ہی دنیا بھر سے طالب علم سی اے آئی ای کے ہیش ٹیگز استعمال کرتے ہوئے تنقید کر رہے ہیں۔ طلبا کو شکایت ہے کہ ان کے گریڈز گرائے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث کیمبرج کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار امتحانات نہیں ہو سکے تھے۔
کیمبرج نے سکولوں اور کالجوں سے طلبا کے اکیڈمک شواہد جیسا کہ فرضی امتحانات، مکمل یا نامکمل کورس ورک اور اسائنمنٹس وغیرہ کی بنیاد پر نتائج تیار کرنے کا کہا تھا۔ جبکہ اساتذہ سے طلبا کی رینکنگ بھی طلب کی گئی تھی۔
مگر اب کئی سکولوں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان کے جاری شواہد کے برخلاف گریڈ گرائے گئے ہیں جس کے بعد طلبا اور ان کے والدین نتائج مرتب کرنے کے طریقہ کار کو ’متنازع‘ قرار دے رہے ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیمبرج اسسمنٹ انٹرنیشنل ایجوکیشن (سی اے آئی ای) کو اس وقت ایک بیان جاری کرنا پڑا جب متعدد طلبا، جن میں پاکستانی بھی شامل ہیں، نے ایسے سکرین شارٹس شیئر کیے جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان طلبا کو سی اے آئی ای نے بلاک کر رکھا ہے۔
ادارے نے بیان میں کہا کہ ’ہم طلبا کی جانب سے تنقیدی رائے پر مشتمل ٹوئٹس کو ویلکم کرتے ہیں مگر ہم نسلی اور جنسی تعصب یا اور ہم جنس پرستی سے نفرت پر مبنی الفاظ کو برداشت نہیں کر سکتے۔
’ہم ایسا کرنے والوں کو بلاک اور رپورٹ کریں گے۔‘
ادھر سکاٹ لینڈ میں شدید احتجاج کے بعد نتائج تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
’گریڈ اس قدر گرائے گئے کہ کوئی میڈیکل کالج داخلہ نہیں دے گا‘
راولپنڈی کے ایک نجی سکول میں زیرِ تعلیم ماہ نور اپنے اے لیول کے دوسرے سال کا نتیجہ دیکھ کر پریشان ہیں۔
ان کا یہ نتیجہ ان کے گذشتہ تین برس کی کارکردگی کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے مگر وہ اس سے ہرگز متفق نہیں ہیں۔
انھوں نے بی بی سی سے اپنی تین سالہ کارکردگی شیئر کی جس کے مطابق ان کے ماضی میں گریڈز بہتر تھے۔
وہ کہتی ہیں: ’میں نے میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ لینا تھا، مگر اب میرے گریڈز اس قدر گرائے گئے ہیں کہ مجھے کوئی میڈیکل کالج یا یونیورسٹی داخلہ نہیں دے گی، مجھے بتائیں میرے مستقبل کا کیا ہو گا؟‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک اور طالب علم عبار کامران کی والدہ شازیہ کامران نے کہا کہ رزلٹ آنے کے بعد ان کا بیٹا شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میرے بیٹے کا اس سے قبل نتیجہ اتنا اچھا تھا کہ انھیں امریکہ کی پانچ، کینیڈا کی دو، یہاں تک کہ مشرق وسطیٰ کی مشہور یونیورسٹی مڈل ایسٹ ٹو سے بھی آفر تھی۔
’یہ تمام یونیورسٹیاں یوں ہی تو کسی کو داخلے کی پیشکش نہیں کرتی ہیں، بہترین طلبا کو یہ آفرز آتی ہیں مگر میری سمجھ سے باہر ہے کہ کیمبرج نے کس طرح یہ نتائج مرتب کیے ہیں جن میں اے سٹار لینے والے طلبا کو سی اور ڈی گریڈ دیا گیا ہے، یہ ہم کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے راولپنڈی کے ایک نجی سکول میں مکمل سکالرشپ پر زیرِتعلیم طالب علم محمد ابراہیم راجہ نے کہا کہ ان گریڈز کے لیے صرف ان ہی طلبا نے درخواست کی تھی جن کے گریڈز بہترین تھے، یہ اے اور اے سٹار حاصل کرنے والے طلبا تھے، مگر کیمبرج نے انھیں سی اور ڈیز دیے ہیں یہ دیکھے بغیر ہی کہ یہ اس کیٹیگری کے طالب علم نہیں ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ان نتائج سے ان طلبا کو زیادہ نقصان ہوا ہے جنھیں اب یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز میں داخلہ لینا تھا۔
‘ان طلبا کو شاید دوبارہ امتحان دینا پڑے اور یوں ان کا ایک تعلیمی سال ضائع ہو جائے گا۔’
دوسری جانب وزیر تعلیم شفقت محمود نے اس حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وزارت اس معاملے پر برٹش کونسل اور کیمبرج اسسمنٹ انٹرنیشنل ایجوکیشن کے نمائندوں کے ساتھ رابطے میں ہیں جو صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔
انھوں نے اس سے متعلق ایک ٹویٹ بھی کی جس میں کہا کہ انھیں نتائج کے بارے میں بہت سی شکایات موصول ہوئی ہیں اور وہ متعلقہ اداروں سے بات کر رہے ہیں۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ انتظامیہ یہ مسئلہ جلد حل کرے گی۔
ادھر پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیرِ تعلیم مراد راس نے سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے سی اے آئی ای پر تنقید کی اور کہا کہ اس معاملے میں ادارے نے انتہائی غیرمنصفانہ رویہ اختیار کیا ہے۔
’اس وقت میں نے کیمبرج سے درخواست کی ہے کہ وہ اس مسئلے کا حل تلاش کریں، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو میں ان کے خلاف جو ہو سکا کروں گا۔ میں اپنے بچوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔‘
ایک اور ٹویٹ میں انھوں نے امتحانات کی فیس کی رقم لکھتے ہوئے کہا کہ ’آپ خود ہی حساب کر لیں۔ ایسے گریڈز دے کر ان سے دوبارہ رقم وصول کرنا ایک کھلی ڈکیتی ہے۔‘
پاکستان سمیت دنیا بھر کے نو لاکھ سے زیادہ طلبہ کے نتائج کا اعلان ہوا ہے جبکہ پاکستان کے 550 سکول اور پرائیویٹ طلبا بھی ان نتائج کا حصہ ہیں۔
پشاور کے ایک نجی تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کے مطابق انھوں نے برٹش کونسل کو ای میلز کی ہیں تاہم تاحال انھیں اس بارے میں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
راولپنڈی میں سٹی سکول کے نمائندے ایاز اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ممکن ہے کہ ریویو (جائزہ) انفرادی طور پر نہ کیا جائے اور امتحانی مرکز کے حساب سے درخواست دی جا سکے، لیکن انھیں اس بارے میں برٹش کونسل کے جواب کا انتظار ہے۔‘
دوسری جانب برطانیہ میں متعلقہ ادارے نے کہا ہے کہ ملک میں وہ سکول جن کے طلبہ کے گذشتہ برس کے مقابلے میں اس سال آنے والے نتائج میں واضح فرق ہے وہ دوبارہ جائزے کے لیے درخواست دے سکتے ہیں تاہم طلبا کو انفرادی طور پر ریویو کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
بی بی سی نے اسی بارے میں سی اے آئی ای کی کنٹری منیجر عظمیٰ یوسف سے رابطے کی کوشش کی مگر تادمِ تحریر ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔
نتائج پر پاکستان کی کئی مشہور شخصیات نے بھی ٹوئٹر پر مایوسی کا اظہار کیا۔
نامور ٹی وی ہوسٹ فرح سعدیہ نے ایک ٹویٹ میں اے لیول اور او لیول کے نتائج اخذ کرنے کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’میرے لیے اپنے بیٹے کو دلاسہ دینا نہایت مشکل ہے جس کا آج جی سی ای کا نتیجہ آیا ہے۔‘