دو قسم کے پاکستان ہیں، ایک زہدوتقویٰ والوں کا اور ایک ہم گناہگاروں کا۔ پاکستان میں مقابلہ البتہ تقویٰ اورگناہ کا نہیں۔ بڑی مشکل سے ہم نے یہ راز پایاکہ اس اسلامی مملکت میں اصل فرق صاحبِ استطاعت لوگوں اور بے وسیلہ انسانوں کے درمیان ہے۔ مناسب وسائل آپ کے ہوں تو چاہے آپ متقی یا اول درجے کے گناہگار ہوں ہر چیز آپ کی دسترس میں ہوگی اور ہرچیز آپ کرسکیں گے۔ لیکن اگر آپ بے وسیلہ ہیں تو عبادات جتنی بھی کریں مشکلات آپ کی زندگی میں رہیں گی۔ وسائل ہوں تو تھانہ بھی آپ کا اور انگریزوں کے بنائے ہوئے تمام قوانین آپ کے تابع۔ تھانیدار باادب پیش آئے گا اور پٹوار چل کے آپ کے گھر کی دہلیز پر پہنچ جائے گا۔ مالی حالت پتلی ہو اور معاشرے میں کوئی زیادہ مقام نہ ہو تو پولیس مدِمقابل اور پٹوار ایک ہتھیارِ استحصال۔
یہ سب سچائیاں ہیں اور ہم پاکستان کے باسی ان سب سے بخوبی آشنا ہیں‘ لیکن پھر بھی ہم گناہگاروں کی الگ سے شکایات ہیں۔ اس اسلام کے نام پہ بننے والے ملک میں مگر جھوٹ کا راج بہت زیادہ مستحکم ہے۔ ہم گناہگار بھی جھوٹ بولتے ہیں اور شاید کثرت سے بولتے ہیں لیکن روزمرّہ کی زندگی میں جتنا جھوٹ کا ملاپ ہو چکا ہے ہم گناہگار بھی توبہ توبہ کرنے پہ مجبور ہوجاتے ہیں۔ ملاوٹ اب قومی نشانی بن چکی ہے۔ اشیاء میں ملاوٹ کا نوبیل انعام تو ہم جیت چکے ہیں لیکن سوچ اورافکار میں ملاوٹ حتیٰ کہ گناہ میں بھی ملاوٹ۔ جن اشیاء کو صاحبِ تقویٰ حضرات اسلامی اصولوں کے خلاف عیاشیاں کہتے ہیں… میں اس سے زیادہ واضح ہونے سے قاصر ہوں… اُن کے بننے میں بھی اتنی دونمبری ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ ایسی صورتحال میں گناہگار جائیں تو جائیں کہاں؟
انصاف اور قانون میں ملاوٹ، آئین میں اتنی ملاوٹ کہ حساب کرنا مشکل ہوجائے، اور پھر دو نمبریوں میں بھی ملاوٹ۔ تکیہ کس پہ کیا جائے، معیار تو ہم نے کوئی چھوڑا نہیں۔ اس سارے جھمیلے میں ایک بات اچھی ہوئی ہے کہ حکمران اور حکمران اشرافیہ کی باتوں پہ عام آدمی اب ذرہ برابر بھی یقین نہیں رکھتا۔ بڑے سے بڑے دعوے جب کیے جاتے ہیں تو صرف بے وقوف اُن کے بہکاوے میں آتے ہیں۔ ہماری اپنی حالت یہ ہوچکی ہے کہ اخبارات کے مطالعے سے دل اُٹھ چکاہے۔ ریڈیو سیلون سے پرانے گانے سننے کو اخبارات پڑھنے پہ ترجیح دیتے ہیں۔
ہم گناہگار صرف اتنا کہتے ہیں کہ جھوٹ کا خاتمہ تو کبھی نہیں ہوگا لیکن جھوٹ کی مقدار میں کچھ تو کمی آنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ہمارا اصول ہے جیو اورجینے دو۔ آپ نے جو کہنا اورکرنا ہے شوق سے کیجیے‘ لیکن کچھ آزادی ہمارے لیے بھی ہونی چاہیے۔ جیسے عرض کیا‘ جیبیں بھاری ہوں تو ہمیں بھی ہر آزادی میسر ہے‘ لیکن یہ تو پھر استحصالی فارمولا ہواکہ کرنے کی چیزیں صرف صاحب استطاعت کیلئے ہوں۔ یہ تو ہر اصول کے خلاف ہے، حتیٰ کہ اسلامی اصولوں کے بھی۔ گناہ کا لفظ تو یہاں علامتی طورپہ استعمال ہورہا ہے لیکن استدعا میں وزن توہے کہ تفریح اور ثقافت کے میدانوں میں بھی برابری کے مواقع بند نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ بھی نہیں کہ صاحب استطاعت کیلئے ہرچیز آسان یا ممکن ہے۔ ایسے ہوتا تو پاکستانیوں کو بنکاک اور دوبئی وغیرہ جانے کی اتنی تڑپ نہ ہوتی۔ جتن یہاں بہت کرنے پڑتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کیلئے زیادہ ہی ہاتھ پاؤں مارنے پڑتے ہیں۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں صرف چار ایسے نعمت کدہ ہیں جہاں تسکین روح کیلئے گناہگاروں کا جانا رہتاہے۔ پانچویں راحت کدہ کو اجازت ملی اور اس کا تماشا بن گیا۔ غلط کام کو درست بھی سمجھا جائے طریقہ تو صحیح ہونا چاہیے‘ لیکن ہماری اجتماعی صلاحیتوں کا ملاحظہ ہو کہ اس نسبتاً سادہ کام کا بھی بتنگڑ بنا دیا گیا۔ جوابدہی کیلئے کوئی چھوٹے افسرنہیں بلائے جارہے بلکہ صوبے کے وزیراعلیٰ۔ پنجاب کے بہت حکمران رہے ہیں لیکن کسی کے حصے میں یہ خفت نہیں آئی کہ ایک چھوٹے سے پرمٹ کے معاملے میں سوال جواب ہو رہے ہوں۔ کیا یہ سوچا بھی جاسکتا ہے کہ میاں ممتاز دولتانہ یا گزرے زمانوں کے کسی چیف منسٹرکے ساتھ ایسا ہوتا؟
ہم گناہگار یہ نہیں کہہ رہے کہ پاکستان سنگاپور یا ہانگ کانگ بن جائے۔ ایسا ہوگا بھی نہیں، اُن دیسوں کے حالات اور ہمارے اور۔ اُن کا خمیر اپنا ہمارا خمیر نرالا۔ بنیادی استدعا ہماری یہ ہے کہ اس معاشرے میں غیرضروری طورپہ بہت گھٹن پیدا ہوچکی ہے‘ ایسی گھٹن کا کوئی مقصد، کوئی حاصل نہیں۔ پاکستان میں صاحبِ تقویٰ لوگوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ منافقت کا بھی معاشرے میں اپنا حصہ رہا ہے اوراب تو یہ حصہ کچھ زیادہ ہی ہو چکا ہے‘ لیکن نیکی کے شور کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایک حد تک سوشل آزادیاں بھی ہوا کرتی تھیں۔ معاشرے میں ایک بیلنس تھا، وہ جو انگریزی کا لفظ ہے harmony، ایسی ہارمنی معاشرے میں تھی۔ صاحبِ تقویٰ اورگناہگار ایک محفل میں بیٹھتے بھی تو ایک دوسرے کا گریبان نہیں پکڑا جاتا تھا۔ اپنی سیاسی غلطیوں اور قباحتوں کی وجہ سے ہم نے وہ بیلنس برباد کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو بہت ذہین تھے لیکن سیاست کی کشتی کو سنبھال نہ سکے۔ اُن کی کوتاہیوں کی وجہ سے سیاست کا سارا بیڑہ جنرل ضیاالحق کے ہتھے چڑھ گیا اور انہوں نے پھر سیاست کا وہ حشر کیاکہ اُن کے پیدا شدہ اثرات سے پاکستان اب تک نجات حاصل نہیں کرسکا۔ حکمرانی اور سیاست‘ دونوں کا معیار پست ہوگیا۔ کتنی فضول باتوں پہ ہماری تکرار ہوتی ہے۔ معیار کی گفتگو کم از کم سیاست میں نہیں رہی۔ صاحبِ استطاعت لوگ تو اپنی عیاشیاں کرسکتے ہیں، انہیں کون روکے گا‘ لیکن معاشرے کی گھٹن کاکیا بنے گا؟ ایسی گھٹن میں عوام اپنے آپ میں اعتماد پیدا نہیں کرسکتے۔ مغرب کو چھوڑیے، ترکی کا ہم بہت ذکر کرتے ہیں، اسی سے کچھ ہم سیکھ لیں۔ جو سوشل آزادیاں ترکی میں موجود ہیں کیا وہ یہاں پائی جاتی ہیں؟
ایسی گھٹن ہوتو اس کا اثر ہر شعبے پہ پڑتاہے۔ تعلیم ہماری کیوں انحطاط پذیر ہے؟ جس قسم کے یہاں مضامین پڑھائے جاتے ہیں، جس قسم کی کتابیں نصاب کا حصہ ہیں، جو ماحول ہماری جامعات میں ہے، ایسے ماحول میں کوئی تحقیقی ذہن پیدا ہوسکتے ہیں؟ لیکن کسی کی ہمت نہیں کہ اس گھٹن کو توڑے۔ حکمرانوں کو ڈر لگا رہتا ہے اپنے سایوں سے اور ہر مخالف آواز سے کہ یہ کریں تو پتا نہیں ردِعمل کیا ہوگا، صاحبِ تقویٰ لوگ کیا کہیں گے۔
علامہ اقبال اور قائداعظم‘ دونوں کا تعلق شعبہ قانون سے تھا۔ اُن کی روحیں اگر اب پاکستان میں قانون اور قانون دانوں کا حال دیکھیں تو اُن پہ کیا گزرے گی؟ انگریز دور میں ہندوستان کے بہترین ذہن شعبہ قانون کی طرف جاتے تھے لیکن اب جو حال قانون کا یہاں ہو گیا ہے‘ کچھ ایسے بھی کارنامے ہیں کہ انہیں صاف بیان نہیں کیاجا سکتا۔ بات صرف قانون کی نہیں ہے، یہ ایک مثال ہے کہ ہم نے ہر شعبے میں بربادی کیسے پیدا کی۔
ہندوستان کا ریل کانظام انگریز حکمرانی کی ایک نمایاں نشانی تھی، symbol of empire، یعنی راج کی نشانی۔ دوردراز اور دشوار گزار علاقوں میں ریل کی پٹڑی لے گئے،دریاؤں پہ انہوں نے کیسے کیسے پل بنائے۔ آج کی بگڑی حالت میں بھی انہیں دیکھیں تو ذہن محوِ حیرت رہ جاتے ہیں۔ ہم سے ریل کا نظام نہ سنبھالاگیا۔ کیا وجہ تھی کہ ایسا ہوا؟ ہندوستان اور پاکستان میں ایک ہی ریل کا نظام ہے۔ وہاں چل رہاہے یہاں تباہی سے آگے پہنچ چکاہے۔ اس سے ذہنوں میں سوال نہیں اُٹھنے چاہئیں؟ کیا ہماری اجتماعی صلاحیتوں میں کوئی کمی تھی کہ اس بیدردی سے ایک رواں دواں نظام کو ہم نے تباہ کردیا۔ ریلویز کی صرف یہ ایک مثال ہے‘ نہیں تو تقریباً ہر ادارے کے ساتھ ہمارا سلوک یہی رہا ہے۔