منحرف صحافی کا یوم آزادی
ناصر نے کہا تھا، جنگل میں ہوئی ہے شام ہم کو / بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے۔ شعر تھوڑا گمبھیر ضرور ہے لیکن ناصر بہرصورت محب وطن تھے۔ آہوئے رمیدہ اور کسی قدر وارستہ تھے، آزادی کے پہلے پچیس برس کی تاریخ غزل میں بیان کر گئے۔ ہجرت کی آشفتگی میں “طلسم کم نگاہی” ٹوٹنے کی امید باندھی اور لکھا “پھر خاک نشیں اٹھائیں گے سر”۔ ربع صدی بعد رخصت کی گھڑی آئی تو مشرقی پاکستان کے “کشتیاں چلانے والے” اوجھل ہو چکے تھے۔ ناصر کاظمی نے ہسپتال کے بستر پر لکھا، وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں / جو قافلے تھے آنے والے، کیا ہوئے۔ اردو شعر کی روایت میں پیرے ہوئے تھے۔ وہ جو مصحفی نے کہا تھا، کل قافلۂ نکہت گل ہوگا روانہ / مت چھوڑیو تو ساتھ نسیم سحری کا۔ ناصر نے تو قائد اعظم کے پاکستان سے پیمان باندھا تھا، قائد کا پاکستان جاتا رہا، تو شاعر نے بھی آنکھیں موند لیں۔
اپنے وطن کا یوم آزادی شہری کے لئے اجتماعی خود احتسابی کا موقع بھی ہوتا ہے۔ مستبد اور آمرانہ حکومتوں کا ایک نشان یہ ہے کہ رعایا کو منہ بسورنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ خبر نہیں، خوش خبری کا چلن ہوتا ہے۔ سرکاری مطبوعات کے سرورق پر ہمیشہ ایک نامعلوم چہرہ بے وجہ کھلکھلاتا نمودار ہوتا ہے۔ حکمران (موجودہ) کی بصیرت کے گن گائے جاتے ہیں اور شکر ادا کیا جاتا ہے کہ دنیا کی بہترین، طاقتور ترین اور مہربان حکومت کے زیر سایہ جی رہے ہیں۔ یہ فراموش کر دیا جاتا ہے کہ دنیا کی کوئی ریاست مثالی نہیں ہوتی۔ کوئی حکومت غلطیوں سے خالی نہیں ہوتی۔ نیز یہ کہ معاشرے کسی فوق الفطرت نابغے کے سہارے ترقی نہیں کرتے، اس مقصد کے لئے اجتماعی فراست کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔
حکمران کی ذہانت، سیاسی مہارت اور بصیرت رہنما کردار ادا کر سکتی ہے لیکن جمہوریت میں حکومت تو ایک میعادی امانت ہے۔ دستور میں شہریوں اور ریاست کے درمیان تعلق کا معاہدہ طے کر دیا جاتا ہے، اختیارات کی تقسیم کے ذریعے اختیار اور احتساب کا باہم توازن قائم کیا جاتا ہے۔ ٹیکس کی ادائی اور شہری حقوق کے تحفظ میں براہ راست تعلق روزمرہ زندگی کا ضابطہ قرار پاتا ہے۔ حقوق فرد کی آزادیوں کے منطقے ہیں جن میں ریاست مداخلت نہیں کرتی۔ جرم ان منطقوں سے باہر نکل کے کسی دوسرے شہری کی آزادی میں مداخلت کا نام ہے۔ ریاست شہری کو یقین دلاتی ہے کہ اس کے حقوق میں رخنہ اندازی پر قانون کی قوت نافذہ حرکت میں آئے گی۔
کسی قوم کا بہترین شہری سرکاری ہینڈ آؤٹ، سیاسی بیان کی چک پھیری اور اہل کار کے اعداد و شمار کی فریب کاری سے پرے دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اچھی حکومت ایسے شہری کا تحفظ کرتی ہے اور اسے اثاثہ گردانتی ہے۔ چارلس ڈیگال نے کہا تھا “میں سارتر کو کیسے گرفتار کر سکتا ہوں، سارتر تو فرانس ہے۔” جو حکومتیں ایسی نہیں ہوتیں وہ اپنے بیرون ملک مقیم ناقد صحافی کو تیسرے ملک میں جا کر قتل کرتی ہیں۔ یا ملک کے سب سے بڑے صحافتی ادارے کے سربراہ کو جیل میں ڈال دیتی ہیں، ملک کی اعلیٰ ترین عدالت صحافی کے اغوا کی ناقص تفتیش پر برہم ہو سکتی ہے، کسی کو تڑی پار تو نہیں کر سکتی۔ آپ کو ایک قصہ سناتے ہیں۔
امریکی ٹیلی وژن چینل ایچ بی او نے 2012ء میں ” دی نیوز روم” کے عنوان سے ایک سیریز شروع کی جسے Aaron Sorkin نے تحریر کیا تھا۔ اس سیریز کی پہلی قسط میں ایک منظر نے بہت شہرت پائی۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات کے سامنے تین افراد کا ایک پینل بیٹھا ہے۔ سوال پوچھا گیا کہ امریکہ دنیا کا عظیم ترین ملک کیسے ہے؟ پینل میں موجود ایک خاتون “تنوع اور مواقع” کا کلیشے دہراتی ہے۔ دوسرے صاحب “آزادیوں” کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اداکار جیف ڈینیئل اس پینل میں ول میکاوائے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ امریکہ دنیا کا عظیم ترین ملک نہیں۔ اس پر مجمے میں حیرت بلکہ غم و غصے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ تھوڑی سی ردوکد کے بعد ول میکاوائے ایک طویل تقریر کرتا ہے، اقتباس دیکھیے، “ہم (امریکہ) شرح خواندگی میں دنیا میں ساتویں نمبر پر ہیں، ریاضی میں 27ویں، سائنس میں 22ویں، شہریوں کی متوقع عمر میں 49ویں، شیر خوار بچوں کی اموات میں 178ویں، گھرانے کی اوسط آمدنی میں تیسرے اور برامدات میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ ہمارا کارنامہ یہ ہے کہ قیدیوں کی تعداد، خلائی طشتریوں کو حقیقی ماننے والوں اور دفاعی بجٹ میں ہم دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔ دفاع پر ہم اتنا خرچ کرتے ہیں کہ ہمارے بعد آنے والے اگلے 26 ملک مل کر ہماری برابری نہیں کر سکتے۔ یہ ہے ہماری عظمت۔۔۔؟” ول میکاوائے کی اس تقریر کے بعد انہیں کرسیاں نہیں ماری گئیں۔ کیونکہ جمہوری ثقافت قاتل کو صدارتی اختیار کے ذریعے رہا کرنے کی تجویز پر ڈیسک بجانے کو اچھا نہیں سمجھتی۔ کورونا وائرس کی اطلاع دینے والے ڈاکٹر کی سرزنش نہیں کی جاتی۔ قومی مفاد کے تعین پر ریاست کا اجارہ نہیں ہوتا، شہری اس مکالمے کا مساوی حصہ ہوتے ہیں۔ اختلاف رائے کے حق سے انکار کرنے والے معاشرے بار بار فریب، صدمے، مایوسی اور خسارے کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ زمینی حقائق منظور شدہ نصاب اور حکمیہ خبروں سے مختلف ہوتے ہیں۔
ہم وطنو کو یوم آزادی مبارک۔ عرض یہ ہے کہ انگریز سے آزادی ہم نے لے لی لیکن اس آزادی کو پاکستان کے شہریوں تک منتقل نہیں کر سکے۔ شہریوں کو بنیادی انسانی ضروریات فراہم نہیں کر سکے۔ ہم نے وہ معاشی بنیاد ہی نہیں رکھی جو ہماری برامدات کو بڑھا سکے۔ درس گاہوں میں وہ طالب علم پیدا نہیں کر رہے جو ہم عصر دنیا سے مقابلے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ہم نے اس خوبصورت ملک اور یہاں کے محبتی انسانوں کو کٹھور دل، کوتاہ نظر، ذہنی طور پر کمزور ٹولے کو سونپ دیا ہے۔ اس سے بڑی تکلیف یہ کہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ حقیقی مسائل کی بجائے ہوائی قصوں میں الجھا ہوا ہے۔ برادر اسلامی ملک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا، ہم سے پوچھا ہی نہیں۔ اب بتائیے کہ ہمارے وزیر خارجہ نے کس بھروسے پر سعودی عرب سے تناؤ پیدا کر لیا۔ تو نے کس رت میں ہری شاخ میں جھولے ڈالے۔۔۔