کچھ لوگوں کے لیے وہ خواتین کی جنس کی ماہر اور اس پر تحقیق کی بانی تھیں اور کچھ کے لیے وہ صرف ایک امیر اور بااثر شخصیت۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک ایسی شخصیت تھیں جنھیں 20ویں صدی کی تاریخ میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
میری بونا پارٹ فرانس کے مشہور بادشاہ نیپولین اول کی بھانجی اور برطانیہ کے پرنس فلپ کی رشتے دار تھیں۔ میری بونا پارٹ سنہ 1882 میں پیدا ہوئیں اور سنہ 1962 میں ان کی وفات ہوئی۔
وہ خواتین کے آرگیزم کے بارے میں بہت کچھ جاننا چاہتی تھیں۔ آرگیزم یعنی سیکس کے دوران لذت کی تکمیل تک پہنچنا۔
اس کے علاوہ انھیں لوگوں کے نفسیاتی تجزیے کرنے کا بھی شوق تھا اور وہ مشہور ماہرِ نفسیات سیگمنڈ فرائڈ کی شاگرد اور دوست بھی بن گئی تھیں۔
جن لوگوں نے ان کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے ان کے مطابق وہ ایک ’آزاد خیال‘ خاتون تھیں۔
یہ سحرانگیز خاتون آخر کون تھیں جنھوں نے سائنس کے شعبے اور شاہی دنیا میں نام کمایا اور جنھیں خواتین میں جنسی لذت سے متعلق جوابات کی تلاش تھی۔
ایک شہزادی
میری بونا پارٹ پیرس میں ایک جانے پہچانے اور امیر خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ کا نام میری فیلیکس بلانک اور والد فرانس کے شہزادے رولینڈ نیپولین بونا پارٹ تھے۔
وہ مشہور کاروباری شخصیت اور کسینو مونٹی کارلو کی بانی فرانسواں بلانک کی نواسی تھیں۔ انھیں وراثت میں بہت دولت ملی تھی۔
میری بونا پارٹ کی زندگی کا آغاز ہی ایک سانحے سے ہوا۔ وہ پیدائش کے وقت مرتے مرتے بچیں اور ان کی والدہ ان کی پیدائش کے ایک مہینے بعد فوت ہو گئیں۔
ان کا بچپن مشکل اور تنہائی کا شکار تھا۔ وہ دوسرے بچوں سے الگ تھلگ رہیں اور اپنے والد سے بے انتہا قریب تھیں جو جغرافیہ اور علمِ بشریات کے ماہر تھے۔
میری بونا پارٹ کم عمری میں ہی کافی متجسس ذہن کی مالک تھیں۔ انھیں سائنس، ادب، تحریر اور اپنی جسم کے بارے میں جاننے کا شوق تھا۔ ایک دن ان کا خیال رکھنے والی ایک خاتون میماؤ نے انھیں جنسی خود لذتی کرتے ہوئے دیکھ لیا۔
میری نے سنہ 1952 میں اپنی ڈائری میں خود لکھا ہے کہ میماؤ نے انھیں کہا کہ ’یہ ایک گناہ ہے، بُری بات ہے، اگر تم ایسا کرو گی تو مر جاؤ گی۔‘
نیلی ٹامسن اپنے مضمون ’دی تھیوری آف فیمیل سیکسشوئیلٹی آف میری بونا پارٹ: فینٹسی اینڈ بیالوجی‘ میں لکھتی ہیں کہ بونا پارٹ کا دعویٰ ہے کہ اس واقعے کے بعد انھوں نے جنسی خود لذتی کا عمل چھوڑ دیا کیونکہ انھیں میماؤ کی اس تنبیہ کی وجہ سے خوف تھا کہ جنسی لذت کی قیمت موت ہے۔ اس وقت ان کی عمر آٹھ یا نو سال تھی۔
میری بونا پارٹ کم عمری ہی سے خواتین کی کم حیثیت اور اطاعت والے سماجی کردار کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھیں۔
نوجوانی میں انھوں نے انگریزی اور جرمن جیسی مختلف زبانوں کا مطالعہ شروع کر دیا تھا اور اپنے امتحانات میں کافی اچھی کارکردگی دکھائی۔ لیکن اچانک ہی ان کی دادی اور والد نے ان کے امتحانات میں شریک ہونے پر پابندی عائد کر دی۔
میری بونا پارٹ کے والد اور دادی سمجھتے تھے کہ ان کے دشمن ان امتحانات کو سبوتاژ کر کے ان کے خاندان کی تذلیل کریں گے۔ میری بونا پارٹ کو بہت غصہ آیا اور انھوں نے کہا کہ ’اگر میں لڑکا ہوتی تو یہ لوگ مجھے کوشش کرنے سے نہیں روکتے۔‘
20 برس کی ہونے سے پہلے اور جنسی طور پر پوری طرح بیدار میری بونا پارٹ کا اپنے والد کے ایک اسسٹنٹ سے معاشقہ ہوا لیکن یہ میری کے لیے ایک سکینڈل، بلیک میلنگ اور تذلیل کے ساتھ ختم ہوا۔
جلد ہی ان کے والد نے انھیں ایک ایسے شخص سے ملوایا جو ان کے خیال میں داماد بننے کے لیے سب سے بہتر امیدوار تھے۔ یہ یونان اور ڈنمارک کے شہزادہ جارج تھے جو میری بونا پارٹ سے 13 سال بڑے تھے۔
یہ شادی 12 دسمبر 1907 کو یونان کے شہر ایتھنز میں ہوئی اور ان کے دو بچے ہوئے، بیٹے کا نام پیڈرو اور بیٹی کا نام یوجینیا رکھا گیا۔
لیکن اس شاہی جوڑے کے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ حالانکہ ان کا رشتہ 50 سال تک قائم رہا لیکن میری کو جلد ہی احساس ہو گیا تھا کہ ان کے شوہر کا اصلی جذباتی تعلق اپنے انکل ولادیمیر کے ساتھ ہے۔ اس دوران وہ اپنے لیے محبوب ڈھونڈتی رہیں اور اپنے شوہر کی سرد مہری کو سہتی رہیں۔ پڑھائی نے انھیں زندگی کی پریشانیوں سے فرار حاصل کرنے میں بہت مدد کی۔
خواتین کی جنسیت
خواتین میں جنسی لذت سے متعلق میری بونا پارٹ کی دلچسپی نے اس زمانے میں سر اٹھایا جو دانشوارانہ طور پر اس موضوع کے لیے تیار تھا۔
سنہ 1924 میں انھوں نے ’خواتین کے سرد جذبات کی جسمانی وجوہات‘ کے نام سے اپنا تحقیقی مقالہ شائع کیا۔ لیکن انھوں نے اسے ایک فرضی نام ’اے ای نرجانی‘ سے شائع کروایا۔
جارجیا کی ایموری یونیورسٹی میں ب’یہیورل نیورو اینڈو کرونالوجی‘ کے پروفیسر کم والن کہتے ہیں کہ ’انھیں اس بات پر بہت جھنجھلاہٹ تھی کہ سیکس کے دوران کبھی ان کے شہوت کی تکمیل کیوں نہ ہوئی۔ یعنی انٹر کورس کے دوران ان کی لذت کی تکمیل کیوں نہیں ہوئی۔ انھوں نے یہ تسلیم نہیں کیا خواتین میں آرگیزم براہ راست کلیٹورس کو متحرک کرنے سے آ سکتا ہے۔‘
میری کے خیال میں اگر انٹر کورس کے دوران عورت کے جذبے کی تکمیل نہ ہو تو ایسا کسی جسمانی نقص کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘
اس سوچ کے نتیجے میں انھوں نے یہ خیال پیش کیا کہ اگر کلیٹورس (خواتین کے اعضاۓ جنسی کا حساس تن جانے والا چھوٹا سا حصّہ) اور اندام نہانی کے درمیان فاصلہ کم ہو تو انٹر کورس کے دوران عورت کے جذبے کی تکمیل کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
اپنے اس خیال کو ثابت کرنے کے لیے میری بونا پارٹ نے 240 سے زیادہ خواتین کی شرم گاہوں کے ناپ جمع کیے۔
لیکن ان کی تحقیق کا محور خواتین کی جسمانی ساخت تھی اور نفسیاتی بلوغت کے بارے میں اس تحقیق میں کچھ نہیں کہا گیا تھا۔ میری بوناپارٹ سمجھتی تھیں کہ اگر آپریشن کر کے کلیٹورس اور اندام نہانی کے درمیان فاصلہ کم کر دیا جائے تو انٹر کورس کے دوران خواتین کے جذبات کی تکمیل آسانی سے ہو سکتی ہے۔
لیکن وہ اس سے زیادہ غلط نہیں ہو سکتی تھیں۔
والن بتاتے ہیں ’ایسے آپریشن تباہ کن ثابت ہوئے۔ کچھ خواتین میں تو لذت حاصل کرنے کا احساس ہی ختم ہو گیا۔ میری بونا پارٹ کو اپنی تحقیق پر بہت یقین تھا اور انھوں نے اپنا بھی آپریشن کروایا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘
انھوں نے ایک مرتبہ نہیں تین مرتبہ یہ کوشش کی۔
انڈیانا یونیورسٹی میں ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری اینڈ فلاسفی آف سائنس کے پروفیسر لوائڈ کہتے ہیں کہ جب آپ کلیٹورس کے آس پاس بہت ساری نسوں کو کاٹ دیتے ہیں تو جسم کے اس حصے میں محسوس کرنے کی صلاحیت ختم ہو سکتی ہے کیونکہ آپ بہت اہم نسوں کو کاٹ رہے ہوتے ہیں۔
پروفیسر لوائڈ نے مزید کہا کہ میری بونا پارٹ سمجھتی تھیں کہ انٹر کورس کے دوران شہوت کی تکمیل حاصل کرنے کے لیے یہ سرجری ہی واحد راستہ ہے۔
سیگمنڈ فرائڈ سے تعلقات
میری بونا پارٹ نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے جنسی اضطراب اور زندگی میں پریشانیوں کے بارے میں جوابات کی تلاش جاری رکھی۔
سنہ 1925 میں وہ ایک ماہرِ نفسیات سے مشورہ کرنے کے لیے آسٹریا کے شہر ویانا پہنچیں۔ لوگوں کے نفسیاتی تجزیے کرنے والے اس شخص کا ذکر پیرس کی طبی ماہرین کے حلقوں میں نیا نیا شروع ہوا تھا۔ وہ تھے سیگمنڈ فرائڈ۔
ٹامسن نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ میری بونا پارٹ کو فرائڈ کی صورت میں وہ مل گیا جو وہ چاہتی تھیں یعنی پیار اور خدمت کرنے کے لیے ایک نئے والد۔
میری بونا پارٹ ان کی مریض اور پھر جلد ہی دوست بن گئیں۔ انھیں نفسیاتی تجزیے (سائکو انالسس) میں دلچسپی ہوتی گئی اور وہ فرائڈ کی شاگرد بن گئیں۔
سوئٹزر لینڈ میں یونیورسٹی آف لوزین میں سائکالوجی کی پروفیسر ریمی ایموغو کہتے ہیں کہ وہ فرانس میں نفسیاتی تجزیے کا مضمون پڑھنے والی اولین خواتین میں سے ایک تھیں، خاص طور پر ایسی خواتین جو فرائڈ سے منسلک ہوں۔
’فرائڈ ان کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتے تھے کیونکہ وہ نہ تو کوئی خطرناک خاتون تھیں اور نہ ہی کوئی استاد۔ جب وہ پہلی مرتبہ ملے تو فرائڈ 70 سال کے ہو چکے تھے اور وہ ایک دلچسپ، ذہین اور امیر خاتون تھیں جو فرائد سے بحث کرتی تھیں۔‘
میری بونا پارٹ پیرس میں نفسیاتی تجزیے کے حوالے سے ایک معتبر شخصیت بن گئیں۔ ایک شہزادی ہونے کی وجہ سے مصروفیت کے باوجود ان کے شہر میں کئی مریض تھے۔
انھوں نے فرائڈ کو جرمن نازیوں سے بھی بچایا اور اپنے سیاسی اور مالی اقدامات کے ذریعے انھوں نے فرائڈ اور ان کے خاندان کو ویانا سے لندن فرار کرانے میں مدد کی۔
فرائڈ نے سنہ 1938 میں بی بی سی کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ 82 سال کی عمر میں وہ ویانا سے فرار ہو کر لندن آ گئے تھے تا کہ اپنی زندگی کے آخری دن آزادی سے گزار سکیں۔
ایک آزاد خاتون
پیشہ وارانہ تجربے اور پختگی کی وجہ سے میری بونا پارٹ کو اندازہ ہو گیا کہ خواتین کی جنسیت سے متعلق ان کی تحقیق غلط تھی۔
والن کہتے ہیں کہ میری بونا پارٹ نے اپنے ابتدائی خیالات کو یکسر مسترد کر دیا۔ وہ سنہ 1950 میں اپنی کتاب ’فیمیل سیکشوئلیٹی‘ میں اپنی تحقیق کی ہر بات سے پیچھے ہٹ گئیں۔
انھوں نے لکھا کہ جسم کی ساخت یا اناٹمی کا آرگیزم (جنسی جذبے کی تکمیل) سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس سے متعلق ہر چیز نفسیاتی ہے۔ جب انھوں نے یہ کتاب لکھی تو انھیں سائکو انالسس یا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے 25 سال ہو چکے تھے۔
والن سمجھتے ہیں کہ اپنا موقف تبدیل کرنے کے باوجود وہ ایک انقلابی خاتون تھیں۔ ’میرے خیال میں ان کی اصل تحقیق لاجواب تھی۔‘
پروفیسر لوائڈ کے مطابق وہ ایک شاندار خاتون تھیں۔ ’وہ میری ہیروئنوں میں سے ایک تھیں۔ مگر وہ المناک کردار بھی تھیں۔ خواتین کی جنسیت کو سمجھنے اور اس پر تحقیق کے لحاظ سے وہ اپنے وقت سے بہت آگے تھیں لیکن وہ خود اپنے جسم سے ناخوش تھیں۔‘