انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے معاملے پر جب پاکستان کو سعودی عرب کی حمایت حاصل نہیں ہوئی تو اس نے سعودی عرب کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا ہے۔
گذشتہ دنوں پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے مسئلہ کشمیر پر انڈیا کے خلاف اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ساتھ نہ دینے پر سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
ایک ٹی وی شو کے دوران شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ ’میں ایک بار پھر او آئی سی سے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے کی درخواست کر رہا ہوں۔ اگر آپ اس کا انعقاد نہیں کرتے ہیں تو میں وزیراعظم عمران خان سے یہ مطالبہ کرنے پر مجبور ہوں گا کہ وہ ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کریں، جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ ہیں اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کرتے ہیں۔‘
سعودی عرب پہلے ہی انڈین آئین میں جموں کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کے خاتمے کو انڈیا کا داخلی معاملہ قرار دے چکا ہے۔
پانچ اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد او آئی سی رابطہ گروپ کے وزرائے خارجہ کے ہنگامی اجلاس میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار ضرور کیا گیا تھا۔
اجلاس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ انڈین حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کے بارے میں پانچ اگست 2019 کو کیا گیا فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
یاد رہے کہ او آئی سی میں بنیادی طور پر سعودی عرب کا اثر و رسوخ زیادہ ہے۔ پاکستان کے تنقیدی تبصرے کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کو سنہ 2018 میں دیے گئے 3.2 ارب قرض میں سے ایک ارب ڈالر واپس کرنے کا تقاضا کر دیا۔
سعودی عرب نے قرض کی عدم ادائیگی کے سبب رواں برس مئی سے پاکستان کو ادھار تیل دینا بند کر دیا ہے۔
پاکستانی میڈیا میں بھی شاہ محمود قریشی کے بیان پر بھی تنقید ہوئی کیونکہ تجزیہ کاروں کے مطابق اس سے پاکستان پر قرض واپس کرنے کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔
ماہرین اور تجزیہ کار اسے سعودی عرب سے متعلق پاکستان کے رویے میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
بدلتا توازن
پاکستان کے متعلق سعودی عرب کے رویہ میں آنے والی اِس تبدیلی کے بارے میں جے این یو میں سینٹر فار ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر سنجے بھاردواج کہتے ہیں کہ ’اسے عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ یہ ایشیائی ممالک کے مابین بدلتے توازن کی وجہ سے ہے۔ امریکہ اور چین ایشیائی ممالک میں اپنا اپنا توازن قائم کر رہے ہیں۔‘
’سعودی عرب روایتی طور پر امریکہ کا اتحادی رہا ہے اور اسلامی دنیا میں سعودی عرب کا تسلط رہا ہے۔ اب جبکہ امریکہ اور چین کے مابین سرد جنگ کی ایک نئی صورتحال پیدا ہوئي ہے، چین ایشیائی ممالک میں دخل اندازی کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے لیے نیا توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ایران کے ساتھ چین ایک بڑا معاہدہ کرنے جا رہا ہے۔ وہ پاکستان گوادر پورٹ اور چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) میں بھی بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس طرح سے پاکستان اور ایران دونوں چین کے قریب تر آ رہے ہیں خواہ وہ سرمایہ کاری کے بارے میں ہو یا جغرافیائی سیاسی تعلقات کے بارے میں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’در حقیقت چین اسلامی دنیا میں سعودی عرب کا متبادل بنانا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ ایران، ملائیشیا اور پاکستان جیسے ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے۔‘
’ملائیشیا میں ایک بہت بڑا اسلامی ممالک کا سربراہ اجلاس بھی ہوا ہے جس میں پاکستان اور ایران نے بھرپور شرکت کی تھی جبکہ سعودی عرب اس میں موجود نہیں تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے سنہ 2018 میں چین کے ساتھ تقریباً 50 ارب ڈالر کے سی پیک منصوبے میں سعودی عرب کو شامل کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس معاملے پر عمران حکومت کو حزب اختلاف کی جماعتوں کی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
’لیکن بعد میں حکومت پاکستان نے اپنے فیصلے پر یوٹرن لیتے ہوئے واضح کیا کہ سی پیک دو طرفہ معاہدہ رہے گا۔‘
گذشتہ کئی برسوں میں خلیجی ممالک خصوصاً سعودی عرب کے ساتھ انڈیا کی قربت میں اضافہ ہوا ہے۔ انڈیا کے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ معاشی تعلقات کے علاوہ سکیورٹی پالیسی کے حوالے سے بھی تعلقات مزید بہتر ہو رہے ہیں۔
ایران بھی ایک مسئلہ ہے
پروفیسر سنجے بھاردواج نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا، امریکہ اور متحدہ عرب امارات اس بدلتے ہوئے توازن میں فطری شراکت دار بن رہے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کبھی بھی اکٹھا نہیں ہو سکتے۔ سعودی عرب کی امریکہ سے قربت کی وجہ سے وہ (سعودی عرب) انڈیا کے بھی قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ درحقیقت یہ عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں۔‘
لیکن کیا چین، پاکستان اور ایران سے بڑھتی قربت کی وجہ سے خلیجی ممالک کی مارکیٹ میں اپنے مفادات پر سمجھوتہ کرنے کو تیار ہے؟
اس کے جواب میں پروفیسر سنجے بھاردواج کا کہنا ہے کہ چین خلیجی ممالک کے بازار میں اپنے امکانات یقینی طور پر تلاش کرنے کے درپے ہے، لیکن جیو سٹریٹیجک معاملے میں ایران اور پاکستان سعودی عرب سے زیادہ اہم ہیں۔
’چین یقینی طور پر سعودی عرب کو امریکہ کے اثر و رسوخ سے نکالنا چاہتا ہے لیکن وہ کبھی بھی پاکستان اور ایران کی قیمت پر یہ کام نہیں کرنا چاہے گا۔ اس کے علاوہ چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھی ساتھ لانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
بی بی سی کے سینیئر صحافی ثقلین امام اس معاملے کو صرف ایشیا میں امریکہ اور چین کے بدلتے ہوئے حساب کتاب کے پس منظر میں نہیں دیکھتے ہیں۔ تاریندر کشور سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھیں یقین نہیں ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے مابین کسی بھی طرح کے دشمنی پر مبنی تعلقات کا دور شروع ہو گیا ہے تاہم ان کے مطابق دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کا عنصر ضرور آیا ہے۔
وہ بدلتی ہوئی موجودہ صورتحال میں اسرائیل اور ایران کا کردار بھی دیکھتے ہیں۔
ان کے مطابق ’پہلی مرتبہ سعودی عرب میں کوئی ایسا بادشاہ بننے والا ہے جو طویل عرصے تک اس عہدے پر براجمان رہے گا لہذا اس تبدیلی کے پیش نظر امریکہ مستقبل کے مطابق اپنی حکمت عملی طے کر رہا ہے۔ دوسری طرف بادشاہ کو ہمیشہ غیر ملکی حمایت کے ساتھ ساتھ مقامی مدد کی بھی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ قبائلی معاشرے میں مقامی سطح پر بغاوت کا خطرہ رہتا ہے اور اسی لیے بیرونی طاقت کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ امریکہ اس وقت ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی حمایت کر رہا ہے مگر اس کے باوجود مستقبل میں عدم تحفظ کا احساس باقی ہے اور اس کی بنیادی وجہ اسرائیل اور ایران ہیں۔
چین اور اسرائیل کا کردار
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ تمام ممالک باہمی تعلقات کے توازن کو تبدیل کر رہے ہیں اور اس کے پس پشت اسرائیل اور ایران ہیں۔‘
’ان سب میں جو سب سے اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کر رہا ہے وہ اسرائیل ہے، یہی وجہ ہے کہ محمد بن سلمان کی آمد کے بعد سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات تاریخ کے بہترین دور میں ہیں۔ ان کے تعلقات پہلے کبھی اتنے اچھے نہیں تھے۔ لیکن آج یہ دونوں ممالک ایران کے خلاف متحد ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل کو ایک موثر ترین مسلم ملک سعودی عرب کی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے سعودی عرب کی شناخت ایک وہابی نظریے کے حامل ملک کے طور پر تھی نہ کہ سنی ملک کے طور پر۔ لیکن اب اس کی شناخت ایک سنی ملک کے طور پر بنائی گئی ہے۔ اس سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو بھی ایران کے خلاف ہے وہ سعودی عرب کا شراکت دار ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اب سعودی عرب، انڈیا اور اسرائیل ایک طرف ہیں کیونکہ وہ امریکہ کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف مشرف کے دور سے پاکستان آہستہ آہستہ چین کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ اسرائیل اس توازن کو بنانے میں بڑا کردار ادا کر رہا ہے اور وہ ایران کا سخت مخالف ہے۔‘
سعودی عرب اور پاکستان کے بدلتے ہوئے رشتوں کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ساٹھ کی دہائی سے پاکستانی فوج ہمیشہ سے ہی سعودی عرب کی حفاظت کے لیے جا رہی ہے۔
’سعودی عرب کے ساتھ یہ فوجی تعلقات اب بھی قائم ہیں۔ فرق صرف اتنا آیا کہ محمد بن سلمان اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے مغرب کے قریب تر ہو گئے ہیں لیکن انھوں نے آج بھی پاکستانی افواج کو بے دخل نہیں کیا۔‘
انھوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان یقینی طور پر کشیدہ صورتحال ضرور پیدا ہوئی ہے تاہم اسے دشمنی نہیں کہا جا سکتا۔