منتخب تحریریں

ٹرمپ اور فلسطین اسرائیل تنازعہ کا حل

Share

’’اندر کی خبر‘‘ ہرگز میرے پاس موجود نہیں تھی۔اس فراست سے بھی قطعاََ محروم ہوں جو میرے کئی محترم اور نوجوان ساتھیوں کو یوٹیوب کے ذریعے خارجہ امور کی تمام تر باریکیاں بیان کردینے کے قابل بناتی ہے۔گزشتہ کئی دنوں سے ایک ’’برادر ملک‘‘ کی بے اعتنائی کا البتہ بہت ذکر ہوا۔اس ضمن میں شوروغوغا کو مہمیز شاہ محمود قریشی صاحب نے ایک ٹی وی انٹرویو کے ذریعے لگائی۔گلہ ہوا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے او آئی سی کو متحرک نہیں کیا جارہا۔بے اعتنائی کا یہی عالم رہا تو پاکستان مسلم اُمہ کا ایک ’’نیا بلاک‘‘ تشکیل دینے کو مجبور ہوجائے گا۔ان کے انٹرویو کے بعد امید یہ پھیلائی گئی کہ ایران ترکی اور ملائیشیا مجوزہ بلاک کے کلیدی کردار ہوسکتے ہیں۔تندوتیز جذبات کی رو میں جو داستان سنائی جارہی تھی اس کے شوروغوغا میں نہایت عاجزی سے اس شبے کا اظہار کرنے کو مجبور ہوگیا کہ ’’برادر ملکوں‘‘ سے شکوے کشمیر کی وجہ سے نہیں ہیں۔پنجابی محاورے والی ’’گوٹ‘‘ کہیں اور پھنسی ہوئی ہے۔

گزشتہ ہفتے ایک چونکا دینے والا ٹویٹ لکھ کر امریکی صدر نے ’’گوٹ‘‘کی نشاندہی کردی ہے۔موصوف نے نہات مان سے اعلان کیا کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کثیر الجہتی تعلقات قائم کرنے کو آمادہ ہو گئے ہیں۔ چند اور (عرب) ملک بھی جلد ہی متحدہ عرب امارات کی تقلید کرتے نظر آئیں گے۔ٹرمپ کے ٹویٹ سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ اسرائیل کو ’’تسلیم‘‘ کرنے اور اس سے دوستانہ تعلقات بنانے کے لئے مسلم اُمہ کی واحد ایٹمی قوت یعنی پاکستان کو بھی یقینا مجبور کیا جارہا ہوگا۔ بہت ہی ٹھوس اور تاریخی وجوہات کی بنا پر ہم ایسا قدم اٹھانے سے انکاری ہیں۔ایک عام اور بے اثر پاکستانی ہوتے ہوئے ذاتی طورپر میں بھی فلسطینیوں کے غم میں مبتلا رہتا ہوں۔میرے جذبات اور خواہشات مگر عالمی تناظر میں اہم ترین امور پر رچائے کھیل کے تناظر میں کسی اہمیت کے قابل نہیں۔ہر امریکی صدر کی طرح 2016میں وائٹ ہائوس پہنچ جانے کے بعد ڈونلڈٹرمپ بھی اپنی کوئی Legacyقائم کرنے کی لگن میں جت گیا تھا۔وہ انتہائی شدت سے محسوس کرتا ہے کہ عرب-اسرائیل تنازعہ گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا کو ’’خواہ مخواہ‘‘ پریشان کئے ہوئے ہے۔یہ قضیہ کسی Dealکے ذریعے حل ہونا چاہیے تاکہ کاروباری دھندوں میں رونق لگے۔ بذاتِ خود وہ حتمی Deal Makerہونے کا دعوے دار بھی ہے۔اسے گماں رہا کہ اس کے دورِ صدارت میں اگر عرب-اسرائیل تنازعہ’’حل‘‘ ہوگیا تو وہ ’’تاریخ‘‘ میں ویسے ہی یادرکھا جائے گا جیسے اس کا ایک پیشرو-نکسن- امریکہ کو چین کا ’’دوست‘‘ بنانے کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔فوری مقصد 2020کے امریکی صدارتی انتخاب میں کامیابی کو یقینی بنانا بھی تھا۔

تاریخی اعتبار سے ٹرمپ کی مخالف ڈیموکریٹ پارٹی ہمیشہ ’’اسرائیل نواز‘‘ تصور ہوتی رہی ہے۔اوبامہ کے دور میں لیکن اس کے رویے میں نمایاں تبدیلیاں نمودار ہوئیں۔ڈیموکریٹ جماعت کے وہ متحرک افراد جنہیں انسانی حقوق کا ترجمان اور پاسبان مانا جاتا ہے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جارحانہ پالیسیوں کی حمایت سے گریز کو مجبور ہوئے۔ یہودی انتہاپسندوں کی جانب سے فلسطینی زمینوں پر قبضے بھی انہیں منظور نہ تھے۔وہ اصرار کرتے رہے کہ عرب زمینوں کو اسرائیل میں ضم(Annex)کرنے کے بجائے فلسطین کی آزاد وخودمختار ریاست قائم ہو۔اس کی جغرافیائی حدود کا احترام ہو۔ عرب-اسرائیل تنازعہ میں کسی ایک فریق کا ڈٹ کر ساتھ دینے کے بجائے اوبامہ نے بلکہ ایران کے ساتھ اس کے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے کھڑے ہوئے تنازعہ کا حل ڈھونڈتے ہوئے اپنی Legacyبنانے کی کوشش شروع کردی۔اس کی کوششوں نے اسرائیل کو ناراض کیا۔اس کے مخالف ملک نام نہاد ’’عرب بہار‘‘ کی وجہ سے مزید پریشان ہوگئے۔انہیں خدشہ لاحق ہوا کہ اگر ہیلری کلنٹن امریکی صدر منتخب ہوگئی تو مذکورہ ’’بہار‘‘کو ’’جمہوری نظام کے قیام کی جدوجہد‘‘ قرار دیا جائے گا۔ مشرقِ وسطیٰ میں شہنشاہی اور آمرانہ نظام برقرار نہ رہ پائیں گے۔ امریکہ سے تعلقات بہتر بناتے ہوئے ایران اس خطے کا خوش حال اور مستحکم ترین ملک بن جائے گا۔ ایک کائیاں سیاست دان ہوتے ہوئے ٹرمپ نے عرب حکمرانوں کے دلوں میں اُبھرتے خدشات کو جبلی طورپر جان لیا۔اسی باعث اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد 2017میں سعودی عرب کا ’’تاریخی‘‘ دورہ کیا۔ وہاں سے ’’تاریخ میں پہلی بار‘‘ وہ براہِ راست پرواز کے ذریعے یروشلم پہنچا۔دیوارِ گریہ کے روبرو کھڑے ہوکر دُعا مانگی۔یروشلم کو اسرائیل کا باقاعدہ دارالحکومت تسلیم کرلیا۔ یہ سب کرنے کے بعد مگر یہ بھی بڑھک لگائی کہ وہ فلسطین-اسرائیل تنازعہ ’’حل‘‘ کروادے گا۔ٹرمپ کا داماد یہودی النسل ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے اس کے خاندانی مراسم ہیں۔ وہ امریکی وزارتِ خارجہ اور قومی سلامتی کے ذمہ داروں کو نظرانداز کرتے ہوئے عرب-اسرائیل تنازعے کے حل کے لئے ایک ’’منصوبہ‘‘ تیار کرچکا ہے۔2017سے اس منصوبے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی مسلسل مگر درپردہ کوششیں ہورہی ہیں۔نومبر2020کے امریکی صدارتی انتخاب سے قبل ضروری تھا کہ مذکورہ کوششیں ’’بارآور‘‘ ثابت ہوتی نظر آئیں۔ متحدہ عرب امارات نے گزشتہ ہفتے اس ضمن میں بروقت قدم اٹھالیا ہے۔ مجھے شبہ ہے کہ اب اسرائیل کو بحرین بھی ’’تسلیم ‘‘ کرلے گا۔اومان کے اسرائیل کے ساتھ Working Relationsکافی دہائیوں سے پہلے ہی موجود ہیں۔اہم ترین اعلان اس ضمن میں بالآخر سعودی عرب کی جانب سے آنا ہے۔

’’اصولی مؤقف‘‘ والے جذبات تھوڑی دیر کو بھلادیں تو یہ دریافت کرنا بہت آسان ہوجائے گا کہ عرب-اسرائیل تنازعے سے جڑے کئی اہم ترین فریق اپنی ’’قومی‘‘ اور حکمرانوں کی سیاسی ترجیحات کے مطابق ٹرمپ کی آئندہ صدارتی انتخاب میں کامیابی یقینی بنانا چاہ رہے ہیں۔اس تناظر میں کشنر کا بنایا ہوا منصوبہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرنے میں جو پیش قدمی دکھائی ہے اس کی وجوہات بھی تاریخی ہیں۔ شہنشاہ ایران کے دور میں تہران اس ملک کے قیام سے ناخوش تھا۔خلیج کو وہ ہمیشہ ’’خلیج فارس‘‘ پکارتا رہا ہے۔امارات میں ایرانی النسل افراد کثیر تعداد میں آباد ہیں۔دوبئی کے کاروبار میں ان میں سے چند بہت کلیدی کردار بھی ادا کرتے ہیں۔مثال کے طورپر ایک مشہور خاندان ہے ’’گلہ داری‘‘ یہ نام ہی اس خاندان کی نسل کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے۔ ایران کے بڑھتے ہوئے اثر سے متحدہ عرب امارات کا مسلسل خوفزدہ رہنا ایک فطری بات ہے ۔ اسے گماں ہے کہ اسرائیل سے ’’دوستی ‘‘اسے کئی اعتبار سے توانا بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔اسی باعث گزشتہ کئی برسوں سے نیتن یاہو اور حکومتِ متحدہ عرب امارات کے روابط نہایت خاموشی سے استوار ہوتے رہے ہیں۔متحدہ عرب امارات میں ممکنہ ’’تخریب کاروں’’ پر کڑی نگاہ رکھنے کے لئے اسرائیل کی کئی کمپنیوں نے جدید ترین ٹیکنالوجی فراہم کی ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم کو بھی اس وقت کسی ’’اچھی‘‘ خبر کی اشد ضرورت تھی۔وہاں کے ’’احتساب بیورو‘‘ جیسے محکمے نے کئی برس کی تحقیق کے بعد بالآخر اس کے خلاف ’’دوستوں سے تحائف‘‘ لینے کے حوالے سے ایک تگڑا مقدمہ تیار کرلیا ہے۔آئندہ برس کے آغاز سے اسرائیل کے سپریم کورٹ میں اس کی باقاعدہ سماعت شروع ہوجائے گی۔تین سے زیادہ بار انتخابی عمل سے گزرنے کے باوجود نیتن یاہو ابھی تک اپنی پارلیمان میں قطعی اکثریت حاصل نہیں کرپایا ہے۔ اس کے حصول کے لئے موصوف نے عہد باندھا تھا کہ گزشتہ جولائی میں وہ دریائے اردن کی مغربی پٹی کو اسرائیل میں باقاعدہ ضم (Annex)کرنے کا اعلان کردے گا۔ٹرمپ ا ور کشنر اس فیصلے پر عملدرآمد کو روکتے نظر آئے۔متحدہ عرب امارات کا اب یہ دعویٰ ہے کہ وہ اسرائیل کو مذکورہ فیصلے پر عملدرآمد کو روکنے کی خاطر ہی تسلیم کررہا ہے۔رشوت ستانی کے الزامات کے علاوہ اسرائیلی وزیر اعظم سے اس کے لوگ اس لئے بھی ناراض ہیں کیونکہ ان کی نظر میں نیتن یاہو کرونا کا کماحقہ انداز میں مقابلہ نہ کرپایا۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے اس کے سرکاری گھر کے باہر مظاہرین جمع ہورہے ہیں۔ وہ نیتن یاہو کو Crime Ministerپکارتے ہوئے اس سے نجات کے خواہاں ہیں۔متحدہ عرب امارات کا ’’تاریخی‘‘ فیصلہ اس کی مشکلات میں آسانیاں پیدا

کرے گا۔متحدہ عرب امارات کی تاریخی مجبوریاں،اسرائیلی وزیر اعظم کی سیاسی مشکلات اور نومبر میں ہونے والا امریکی صدارتی انتخاب گزشتہ ہفتے ہوئے اعلان کی لہٰذا کلیدی وجوہات ہیں۔کشمیر کے بارے میں ’’بے اعتنائی‘‘ اس تناظر میں کسی اہمیت کی حامل نہیں۔خارجہ امور پر ہماری رہ نمائی فرمانے والے کئی صاحبِ فراست افراد اپنے یوٹیوب چینلوں کے ذریعے امید یہ دلارہے ہیں کہ ترکی کے صدر اردوان اب متحدہ عرب امارات کو’’سبق‘‘ سکھائیں گے۔یہ امید دلاتے ہوئے ہمیں لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ ترکی نے اسرائیل کو 1948سے تسلیم کررکھا ہے۔ان دو ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات اردوان کے دور میں بھی پھل پھول رہے ہیں۔اسرائیل ترکی کی مصنوعات درآمد کرنے والوں میں چھٹے نمبر پر ہے۔گزشتہ برس ترکی نے ان کی بدولت ڈیڑھ ارب ڈالر کمائے ہیں۔صرف جون 2020میں اس تجارت کی بدولت 378ملین ڈالر کی اضافی رقم ملی ہے۔اردوان کی تندوتیز تقاریر کے ساتھ اسرائیل سے تجارت بھی زوروشور سے جاری ہے۔اس حقیقت کو بھی نگاہ میں رکھنے کی ضرورت ہے۔