وہی اکثریت کا جبر اور وہی بے بسی۔ کیا ہندوستان کے مسلمان آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں 1947ء میں کھڑے تھے؟ پاکستان نام کی ایک آزاد مسلم مملکت، جس نے ایسے ہی ایک جبر کے نتیجے میں جنم لیا، کیا آج ان کی کوئی مدد کر سکتی ہے؟ کیا بھارت کے مسلمانوں کے پاس آج بھی علیحدگی کا متبادل موجود ہے؟
یہ سوال 1947ء میں بھی اٹھے تھے۔ اُس وقت انہیں جب کوئی پذیرائی نہیں ملی تو یہ مولانا ابوالکلام آزاد کے ایک نوحے میں ڈھل گئے۔ یہ نوحہ دلی کی جامع مسجد کے میناروں نے سنا اور مسلمانوں نے بھی۔ دونوں ساکت رہے۔ آج مولانا کے الفاظ کی صدائے بازگزشت پورے جنوبی ایشیا میں گونج رہی ہے۔ وقت کا قافلہ مگر رواں دواں ہے۔ اب ان سوالوں کو گزرے وقت کی بازگشت کے بجائے، نئے دور کی صدا سمجھنا ہو گا۔ موجودہ حالات کی روشنی میں ان کے جواب تلاش کرنا ہوں گے، ہمیں بھی اور بھارت کے مسلمانوں کو بھی۔
1947ء میں تو ہم نے اپنے دروازے وا کر دیے کہ جو ہجرت کر کے آنا چاہے، ہم استقبال کریں گے۔ ہم سے مراد وہ علاقے ہیں جو تقسیم کے فارمولے میں پاکستان قرار پائے۔ کیا ہماری یہ پیشکش آج بھی برقرار ہے؟ عمران خان صاحب نے بطور وزیر اعظم اس کا جواب دے دیا ہے کہ ‘نہیں‘۔ 17 دسمبر کو انہوں نے جنیوا میں ‘عالمی مہاجر فورم‘ کے اجلاس میں دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان کے دامن میں اتنی وسعت نہیں رہی کہ وہ مزید مہاجرین کو پناہ دے سکے۔ انہوں نے یہ بات مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی حالیہ صورتِ حال کے تناظر میں کہی۔
ہم تو ان بہاریوں کو ابھی تک قبول نہیں کر سکے جو سقوطِ دھاکہ کے بعد بھی مصر ہیں کہ وہ پاکستان کے شہری ہیں۔ وہ یہ مان کر نہیں دے رہے کہ 16 دسمبر 1971ء کو ایک ‘نیا پاکستان‘ وجود میں آ چکا، وہ جس کے شہری نہیں ہیں۔ جولائی 2018ء میں ہم نے مزید ‘نیا پاکستان‘ بنا لیا ہے۔ اس نئے پاکستان کے وزیر اعظم نے بھی واضح کر دیا کہ اس میں کسی مسلمان مہاجر کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ گویا بھارت کے مسلمانوں کے لیے اب یہ راستہ بند ہو گیا کہ وہ پاکستان کی طرف ہجرت کر سکیں۔ یہ راستہ 1947ء میں کھلا تھا، آج نہیں۔
زیادہ کھلے الفاظ میں، آج کا پاکستان بھارت کے مسلمانوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتا، سوائے ‘اخلاقی مدد‘ کے۔ اس مدد سے کیا ہو سکتا ہے، اس کے جواب کے لیے بھارت کے مسلمانوں کو وادیٔ کشمیر کے مسلمان شہریوں سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ وہ بتائیں گے کہ اس مدد سے تن ڈھانپا جا سکتا ہے یا من؟ بدن یا روح؟ یہ مدد لباس فراہم کر سکتی ہے یا کفن؟ ریاست تو چلیں عالمی معاہدوں کی پابند ہے اور اس کی اپنی مجبوریاں ہیں، کیا عام پاکستانی شہری ان کی کوئی مدد کر سکتے ہیں؟ اس کے جواب کے لیے انہیں افغانستان، عراق اور فلسطین کے لوگوں سے پوچھنا ہو گا۔ وہ ایسی ہی مدد کے ثمرات برسوں سے سمیٹ رہے ہیں۔
اس صورت میں بھارت کے مسلمان کیا کریں؟ کیا نئی تحریکِ پاکستان برپا کریں؟ کیا تقسیمِ بھارت کا کوئی نیا فارمولہ؟ آج کیبنٹ مشن کے مجوزہ یا 3 جون 1947 طرز کے کسی فارمولے کا بھی کوئی امکان نہیں کہ موجودہ بھارت میں کشمیر کے علاوہ کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو اور اس خطے کو نیا ملک بنا دیا جائے۔ بطور جملہ معترضہ عرض ہے کہ میں آج بھی کیبنٹ مشن پلان کو حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش اسے مان لیا جاتا۔
آج کا جنوبی ایشیا، انہی تین ممالک پر مشتمل ہے جو کیبنٹ مشن نے تجویز کیے تھے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ آسام بنگلہ دیش کے بجائے، بھارت کا حصہ ہے۔ آج زیادہ شورش آسام ہی میں ہے۔ فطری تقسیم یہ ہے کہ اسے بنگلہ دیش میں شامل کیا جائے۔ اس سے بھی فساد کم ہو سکتا ہے مگر وہی بات کہ تاریخ کا پہیہ پیچھے کی جانب نہیں گھوم سکتا۔ ہمیں آگے دیکھنا ہو گا کہ مستقبل کے لیے کیا امکان موجود ہے؟
1947ء میں تقسیم کی صورت میں ایک حل موجود تھا۔ دنیا میں کسی مسئلے کا کوئی ایسا حل ممکن نہیں ہوتا جو ہمہ گیر ہو۔ انسان اسباب اور امکانات کی دنیا ہی میں سوچ سکتا اور کوئی اقدام کر سکتا ہے۔ تقسیم ایک حل ضرور تھا لیکن یہ بھی کوئی ایسا حل نہیں تھا جس کے بعد ہند مسلم تصادم کے امکانات ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتے۔ اس حل نے بھی ایک تلخی کو جنم دیا، جس پر بد قسمتی سے قابو نہیں پایا جا سکتا۔ قائد اعظم اور گاندھی، دونوں کی خواہش یہی تھی کہ تقسیم کی تلخیاں یادداشت کا مستقل حصہ نہ بنیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ گاندھی نے اتفاق کے لیے جان دے دی لیکن ان کے قاتلوں کی فکری ذریت نے آج ایک بار پھر پوری طاقت کے ساتھ ظہور کیا ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام سے جس سیاسی عمل کا آغاز ہوا تھا، آج وہ اپنے جوبن پر ہے۔
ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ پاکستان ہندو انتہا پسندی کا نتیجہ ہے۔ اسی ذہنیت نے قائد اعظم کو مجبور کیا اور وہ ہندو مسلم اتحاد سے قیامِ پاکستان کے مطالبے تک پہنچے۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب جیسے مورخین کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ قائد اعظم ابتدا ہی سے واضح تھے کہ ہمیں پاکستان بنانا ہے۔ یہ مطالبہ کسی واقعاتی ارتقا کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس تاریخی بحث سے قطع نظر، آج کے واقعات کی شہادت یہ ہے کہ بھارت کے مسلمانوں میں فی الجملہ علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں ہے۔
یہ درست ہے کہ دیگر عصبیتوں کے نام سے علیحدگی کے رجحانات موجود ہیں جیسے سکھ یا ماؤ علیحدگی پسندہیں یا کشمیری ہیں جو آزادی چاہتے ہیں‘ لیکن پورے بھارت میں مسلمانوں میں علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں پائی جاتی۔ سوال یہ ہے کہ اگر ‘ہندوتوا‘کا تصور اسی طرح آگے بڑھتا رہا اور مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کا یہ عمل جاری رہا تو پھر ان کے پاس، بقا کا کیا راستہ ہو گا؟ اگر جغرافیائی اعتبار سے وہ الگ وطن نہیں بنا سکتے اور پاکستان بھی ان کی مدد نہیں کرتا تو پھر وہ کیا کریں گے؟
بھارت کے مسلمانوں کو آج اسی سوال کا جواب تلاش کرنا ہے۔ میرے نزدیک ان کے پاس ایک ہی راستہ ہے: وہ بھارت کے سیکولر اور جمہوری تشخص کے لیے ایک مربوط سیاسی جدوجہد کریں۔ اس کے لیے انہیں دو کام کرنے ہیں۔ ایک یہ کہ اپنی ایک ملک گیر سیاسی جماعت بنائیں۔ اس کا صرف ایک مقصد ہو: ہندوستان کو آئین کے مطابق، ایک سیکولر اور جمہوری ریاست بنانا۔ پھر وہ اپنی صفوں میں سے کسی محمد علی جناح کو تلاش کریں جنہیں وہ اپنا قائد اعظم مان لیں۔
دوسرا کام انہیں یہ کرنا چاہیے کہ اس مقصد کے لیے دیگر اقلیتوں اور عام ہندوئوں کو ساتھ ملائیں۔ یہ قومی سیاسی جماعتوں کو مجبور کریں کہ وہ ‘ہندوتوا‘ جیسی کسی ایسی آئیڈیالوجی کو سیاست سے دیس نکالا دیں جو کسی مذہبی امتیاز کو جنم دیتی ہے۔ یہ ایک عام بھارتی، ہندو ہو یا غیر ہندو، اچھی طرح سمجھتا ہے کہ بیس کروڑ مسلمانوں کو بھارت سے نکالا نہیں جا سکتا۔ اور اگر کسی نے انہیں بزور دیوار سے لگانے کی کوشش کی تو بقا کے فطری تقاضے کے تحت، مسلمانوں میں ردِ عمل ہو گا اور اس سے جو فساد برپا ہو گا، اس میں کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔
جس کارپوریٹ سیکٹر نے مودی صاحب کو پہلی بار اقتدار تک پہنچایا، اسے ان باتوں کی اچھی طرح خبر ہے۔ اسے بھی اس مہم میں ساتھ ملایا جا سکتا ہے۔ بھارت کے مسلمانوں کا بڑا المیہ یہ ہے کہ آج ان کے پاس علامہ اقبال ہے اور نہ محمد علی جناح۔ ابوالکلام، نہ حسین احمد مدنی۔ اگر وہ تقسیم کے بعد ہی مولانا آزاد کی بات مان لیتے اور بھارت میں خود کو سیاسی طور پر منظم کرتے تو آج کہیں زیادہ محفوظ ہوتے۔
تاریخ لیکن پیچھے نہیں جا سکتی۔ بھارت کے مسلمانوں کو آگے دیکھنا اور داخلی وسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے، اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرنا ہو گا۔ یہ طے ہے کہ انتہا پسندانہ اور فسطائی خیالات کے ساتھ جدید ریاست نہیں چلائی جا سکتی۔ بھارت کی ہندو اکثریت اگر آج نہیں تو کل جان جائے گی۔ جرمنی کو اگر ہٹلر سے اظہارِ برات کرنا پڑا ہے تو بھارت کے شہریوں کو بھی مودی جیسی قیادت سے جان چھڑانا ہو گی۔