انڈیا کے سابق کپتان مہندر سنگھ (ایم ایس) دھونی نے جب گذشتہ روز بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو ان کے مداحوں کے ساتھ ساتھ کرکٹ کی دنیا کے بڑے ناموں نے بھی انھیں خراج تحسین پیش کیا۔
کسی نے دھونی کو انڈیا کا بہترین کپتان قرار دیا تو کسی نے انھیں کرکٹ کا بہترین فنیشر یعنی میچ ختم کر کے اپنی ٹیم کو جیت سے ہمکنار کرنے والا بلے باز کہا۔
ٹیسٹ کرکٹ سے تو وہ 2014 میں ہی ریٹائر ہوگئے تھے اور حالیہ فیصلے کے باوجود آئی پی ایل میں چنائی سپر کنگز کی کپتانی کرتے دکھائی دیں گے۔ لیکن ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں وہ بلاشبہ گذشتہ 16 برسوں تک انڈین کرکٹ ٹیم کے ایک اہم رکن رہے۔ کپتانی اور بلے بازی ہو یا وکٹ کیپنگ، ہر شعبے میں ان کی خدمات کے لیے انھیں یاد رکھا جائے گا۔
دھونی کی قابلیت اس بات سے ظاہر ہے کہ انھوں نے اکیلے ہی انڈیا کو بین الاقوامی ایک روزہ مقابلوں میں کئی میچز جتائے۔ درج ذیل ایسے پانچ مواقع موجود ہیں جہاں دھونی نہ ہوتے تو ممکنہ طور پر انڈیا یہ میچز ہار سکتا تھا:
پہلے تین میچوں میں ناکامی پھر پاکستان کے خلاف سنچری
انڈیا کے علاوہ پاکستان میں بھی ایم ایس دھونی کے کئی فینز پائے جاتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ یہاں کرکٹ کے مداح دھونی کی مہارت خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ دھونی کی پاکستان کے خلاف دو سنچریاں ہیں اور دونوں ہی تعریف کے لائق مانی جاتی ہیں۔
لیکن ان کی پہلی سنچری پاکستان کے خلاف وشاکھا پٹنم میں تھی۔ یہ بات 2005 کی ہے جب پاکستان کی ٹیم انڈیا کے دورے پر آئی تھی۔ دھونی اپنے پہلے چار میچوں میں شائقین کو کچھ خاص متاثر نہیں کر پائے تھے۔
سچن تندولکر کے جلدی رن آؤٹ ہونے کے بعد انڈین ٹیم مشکل میں تھی۔ لیکن اپنے اس پانچویں میچ میں دھونی نے پاکستان کے خلاف 15 چوکوں اور چار چھکوں کی مدد سے سنچری بنائی جس سے انڈیا یہ میچ با آسانی جیتنے میں کامیاب ہوا۔
پاکستان یہ میچ انضمام الحق، محمد یوسف، عبدالرزاق اور شعیب ملک جیسے بلے بازوں کی موجودگی کے باوجود نہ جیت سکا کیونکہ اس وقت 357 کا ہدف بہت زیادہ تصور کیا جاتا تھا۔
سری لنکا کے خلاف سب سے بڑا انفرادی سکور
ویسے تو دھونی نے بین الاقوامی ون ڈیز میں کل 10 سنچریاں بنائی ہیں لیکن ان کا بہترین انفرادی سکور سری لنکا کے خلاف جے پور میں بنا جب انھوں نے سری لنکا کے 299 رنز کے جواب میں کھیلتے ہوئے بنایا۔ وہ آخر تک ناٹ آؤٹ رہے اور جب انڈیا میچ جیتا تو ان کا سکور 183 رنز تھا۔
اس اننگز کی خاص بات یہ بھی تھی کہ انھوں نے محض 145 گیندیں کھیلی تھیں اور 15 چوکوں کے علاوہ 10 چھکے بھی لگائے تھے۔
اس میچ میں وریندر سہواگ، سچن تندولکر، راہل ڈراوڈ اور یووراج سنگھ جیسے تمام بڑے اور تجربہ کار کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھے اس لیے جیت کے لیے دھونی کی باری کافی اہم تھی۔
لاہور میں دھونی 72 پر ناٹ آؤٹ
2006 میں انڈیا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی اور تیسرا ون ڈے کھیل رہی تھی۔ شعیب ملک کی سنچری اور عبدالرزاق کے برق رفتار 64 رنز کے بعد پاکستان نے انڈیا کو 289 کا ہدف دیا تھا۔
جواب میں انڈیا کے 12 پر دو آؤٹ ہوچکے تھے۔ اس میچ میں پہلے یووراج اور تندولکر نے انڈین بیٹنگ کو سنبھالا اور اس کے بعد دھونی نے 46 گیندوں پر 72 بنائے اور آخری وقت تک وہ یووراج کے ساتھ کھڑے رہے۔
اسی طرح سیریز کے آخری میچ میں بھی دھونی نے کراچی میں 77 رنز بنائے اور ناٹ آؤٹ رہے۔
سورو گنگولی اس سیریز کے حوالے سے ایک مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ان سے پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے پوچھا تھا کہ وہ ’دھونی کو کہاں سے پکڑ کر لائے؟‘
اس دوران دھونی کا ہیئر سٹائل بھی کافی مشہور ہوا تھا۔
پاکستان کے دورے پر گئی انڈین ٹیم کی ملاقات جب سابق صدر جنرل پرویز مشرف سے ہوئی، تو انھوں نے دھونی کی زلفوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ انھیں نہ کٹوائیں۔
ورلڈ کپ جیتنے کے لیے خود کپتان کو میدان میں آنا پڑا
کئی لوگوں کے مطابق 2011 کے ورلڈ کپ فائنل میں ایم ایس دھونی کی اننگز نہایت اہم تھی اور اسے ان کی بہترین باری قرار دیا جانا چاہیے۔
بلے بازی کے اعتبار سے ان کا ورلڈ کپ کچھ خاص نہیں جا رہا تھا لیکن انڈیا کی ٹیم فائنل میں سری لنکا کے خلاف پہنچ چکی تھی۔ میچ جیتنے کے لیے انڈیا کا ہدف 275 رنز تھا اور 114 پر ورات کوہلی سمیت تین وکٹیں گِر چکی تھی۔
دھونی گوتم گمبھیر کا ساتھ دینے کے لیے یووراج سے پہلے خود کریز پر آگئے تھے تاکہ متایا مرلی دھرن کی سپن کا مقابلے کر سکیں۔ سنہ 2007 کے ورلڈ کپ میں مرلی دھرن نے ہی دھونی کو صفر پر ایک ایسے میچ میں آؤٹ کر دیا تھا جو انڈیا کے لیے جیتنا لازمی تھا۔
لیکن اس مرتبہ دھونی کامیاب رہے اور انھوں نے 91 رنز کی باری کھیلی جس میں گمھبیر کے ساتھ ان کی 109 رنز کی شراکت رہی۔
اور پھر وہ یادگار چھکا کوئی کیسے بھول سکتا ہے جس نے ورلڈ کپ کی ٹرافی پر انڈیا کی مہر لگائی تھی۔
آسٹریلیا کے خلاف ایڈیلیڈ میں 112 میٹر کا چھکا
سنہ 2012 میں آسٹریلیا کے خلاف ایڈیلیڈ میں انڈیا کو جیت کے لیے 270 رنز درکار تھے۔
انڈیا کی بیٹنگ شروع میں تو اچھی رہی لیکن 179 پر چار آؤٹ اور جیت کے لیے مزید 91 رنز نے ٹیم کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔
دھونی پہلے کی طرح اس بار آغاز سے پُرسکون دکھائی نہ دیے۔ اور دوسری طرف سوریش رائنا اور رویندر جدیجا کی وکٹیں گِرنے کے بعد ان پر دباؤ مزید بڑھ گیا تھا۔
اس کے باوجود وہ ’کیپٹن کول‘ رہے اور اپنی ٹیم کی جیت کے لیے 44 قیمتی رنز بنا ڈالے۔
انڈیا کو آخری اوور میں 15 رنز اور آخری چار گیندوں پر 12 رنز درکار تھے۔ ایسے میں فاسٹ بولر کلینٹ مکے کے ہاتھ میں گیند تھی جو تین وکٹیں لے چکے تھے۔
دھونی نے انھیں 112 میٹر کا لمبا چھکا لگایا جس نے انڈیا کی امیدوں کو بحال کر دیا اور اس طرح یہ میچ انڈیا نے آسٹریلیا کے منھ سے چھین لیا۔