Site icon DUNYA PAKISTAN

جیواں میں کمزوری دے زور اتے

Share

اٹلانٹا میں ڈیرے پر کافی پیتے ہوئے برادرِ بزرگ اعجاز احمد نے وہ سوال پوچھ لیا‘ جو گزشتہ دو تین ماہ سے کثرت سے پوچھا جانے والا سوال ہے۔ برادرِ بزرگ نے پوچھا ؛یہ حکومت مزید کتنے دن چلے گی؟ میں ہنسا اور کہا؛ اعجاز بھائی! یہ ایسا سوال ہے ‘جوہر وہ ملنے والا پوچھتا ہے ‘جسے یہ غلط فہمی ہے کہ مجھے شاید غائب کا علم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا جواب کم از کم مجھ جیسا فقیر آدمی تو ہرگز نہیں دے سکتا۔ اس قسم کے دعوے عموماً وہ کرتے ہیں‘ جو اپنی خواہش کے تابع ہوتے ہیں اور پھر اپنی اس خواہش کے تناظر میں دعوے کرتے ہیں اور آخرکار شرمسار ہوتے ہیں۔ میں کسی خواہش میں مبتلا نہیں ہوں سوائے‘ اس کے کہ اللہ اس ملک کی خیر کرے‘ اس خطۂ زمین پر اپناکرم کرے اور حکمرانوں کو نیک ہدایت بخشے۔ ہمارا کام بحیثیت ِقلمکار غلط کاموں کی نشاندہی اور اچھے کاموں کی تعریف کرنا ہے۔ تنقید کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں اب‘ بددعائوں پر اتر آئوں۔ حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دینی شروع کر دوں اور صبح گیا یا شام گیا کا وردہمہ وقت اپنی زبان پر جاری کر لوں‘ نہ میں پارٹی ہوں اور نہ کوئی پہنچا ہوا بزرگ کہ دلی خواہش کی بنیاد پر ہوائیاں چھوڑوں یا مستقبل بینی کی طاقت کے ذریعے دعوے کروں۔ سو‘ اس معاملے میں مجھے معذور سمجھیں اور اس سلسلے میںکسی رائے کی امید نہ رکھیں۔
برادرِ بزرگ کہنے لگے؛ میں نے یہ سوال کسی مستقبل کے علم کے حوالے سے نہیں کیا ‘بلکہ حالات و واقعات کوسامنے رکھتے ہوئے موجودہ صورتحال کے تناظر میں تمہاری رائے دریافت کی ہے کہ تمہیں ساری صورتحال کا کم از کم اندازہ تو ضرور ہے کہ حالات کیا جا رہے ہیں؟ مہنگائی کا کیا عالم ہے‘ بیروزگاری بڑھ رہی ہے‘ کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں‘ زرعی فصلات کا حال پتلا ہے‘ لوگوں کی قوت ِخرید مسلسل تنزلی کا شکار ہے‘امن و امان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے‘ ادارے ترقیٔ معکوس کی طرف گامزن ہیں‘ بیورو کریسی کو سرکار پر اور سرکار کو بیورو کریسی پر اعتبار نہیں۔ پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ برف پر لکھی ہوئی تحریر کی مانند پانی بن کر بہہ چکا ہے۔ یکساں نظام تعلیم کا دعویٰ خاک بن چکا ہے۔ رشوت ختم کرنے کے بلند بانگ دعوئوں کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کرپشن ختم کرنے کے دعوے کے بالکل الٹ ملک میں رشوت اور کرپشن کا بازار نا صرف حسب ِسابق گرم ہے ‘بلکہ رشوت کا ریٹ بڑھ چکا ہے۔ یہ سب کچھ ہونے سے‘ جس بات نے مجھے سب سے زیادہ صدمہ پہنچایاہے ‘وہ یہ ہے کہ لوگوں کا ایک نئے دور کا آغاز ہونے کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے اور تبدیلی کے نعرے سے مایوسی ہوئی ہے۔ یہ مایوسی اور ناامیدی آنے والے وقتوں میں کسی نئے سیاستدان پر اعتبار کی راہ میں رکاوٹ بن جائے گی۔
اپنی بات ختم کر کے برادر ِبزرگ اعجاز احمد نے اپنا سوال پھر دُہرایا کہ اس حکومت کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ کیا یہ وقت پورا کرے گی؟ میں پھر ہنسا اور میں نے کہا؛ اعجاز بھائی! اگر تو مولانا فضل الرحمن کی باتوں پر جائیں تو پھر یہ حکومت میرے پاکستان پہنچنے سے پہلے رخصت ہو جانی چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن کی پیش گوئیاں اور دعوے ‘دراصل ان کی خواہش کی ترجمانی کر تے ہیں اور کچھ نہیں۔ آپ کو یاد ہے؟ پیپلز پارٹی کی حکومت میں کئی اینکرز روزانہ صبح کا آغاز آصف علی زرداری حکومت کے خاتمے کی پیش گوئی سے کرتے تھے‘ دوپہر کو وہ دعویٰ کرتے تھے کہ شام تک حکومت کا خاتمہ نوشتہ دیوار ہے۔ شام کو کہتے تھے کہ رات تک حکومت کی رخصتی ایک طے شدہ امر ہے اور رات گئے کہتے تھے کہ کل صبح آصف علی زرداری کی حکومت سابقہ ہو چکی ہوگی اور صبح سے پھر وہی چکر شروع ہو جاتا تھا‘ جو گزشتہ روز ‘رات گئے مکمل ہوا تھا۔ دعوے‘ مخبریاں اور پیش گوئیاں؛ سب دھری کی د ھری رہ گئیں اور آصف علی زرداری اینڈ کمپنی نے پانچ سال پورے کر لیے۔ مہینوں تک روزانہ کی بنیاد پر حکومت کے خاتمے کیلئے دی گئی ساری تاریخیں صرف غلط ثابت ہوئیں اور ایک کمزور ناتواں‘ نالائق‘ ناکام اور بدعنوان حکومت مزے سے پانچ سال پورے کر کے اس طرح رخصت ہوئی کہ سب کو حیرانی ہوتی ہے۔
اعجاز بھائی پوچھنے لگے؛ اس کی وجہ کیا تھی؟ میں نے کہا؛ وجہ یہ تھی کہ حکومت کمزور تھی اور ہمارے ہاں دراصل کمزور حکومت ہی مضبوط ہوتی ہے کہ طاقتور حکومت کسی کومنظور نہیں۔ تگڑی حکومت کسی کو قبول نہیں ۔کمزور‘ تابعدار اور ”ماڑی‘‘حکومت سے کسی کو انکار کی توقع نہیں‘ اکڑ کا خوف نہیں اورسامنے کھڑے ہونے کا ڈر نہیں۔ بھلا کمزور حکومت کسے پسند نہیں آئے گی؟ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی اسی کمزوری کے زور پر پانچ سال نکال گئی‘ اگر کوئی انہونی نہ ہوئی اور اس حکومت نے اپنے پائوں پر خود کوئی زوردار کلہاڑی نہ مارلی تو یہ بھی اپنی کمزوری کے زور پر اپنی مدت پوری کر لے گی۔ اعجاز بھائی نے پوچھا؛ یہ زوردار کلہاڑی سے تمہاری کیا مراد ہے؟ میں نے کہا ؛اعجاز بھائی آپ خواہ مخواہ بھولے بن رہے ہیں۔ آپ اس کا مطلب خوب سمجھ رہے ہیں۔ چھوٹی موٹی کلہاڑی تو یہ حکومت ہفتہ وار اپنے پائوں پر مارتی ہے‘ مگر اب مقتدر حلقے‘ اسٹیبلشمنٹ‘ بیورو کریسی‘ حزب ِاختلاف‘ عوام اور خود تحریک انصاف کے کارکن تک اس ہفتہ وار کلہاڑی کے عادی ہو گئے ہیں اور اس سے حکومت کو اب‘ چھوٹی موٹی شرمندگی تک نہیں ہوتی‘نقصان تو دور کی بات ہے۔ تو بات ہو رہی تھی‘ کسی زوردار کلہاڑی کی ‘تو اگر یہ حکومت اپنے پائوں پر خود کوئی بہت دھماکے دار اور تباہ کن کلہاڑی نہیں مارتی یا کوئی اور انہونی نہیں ہو جاتی‘ یہ حکومت اپنی مدت پوری کر لے گی کہ اس کی ساری طاقت اس کی کمزوری ہے۔ عددی بھی اور دوسری کمزوری بھی۔ اعجاز بھائی نے پوچھا ؛دوسری کمزوری سے تمہاری کیا مرادہے؟ میں نے کہا؛ اس کمزوری سے میری مراد بالکل وہی کمزوری ہے ‘جو آپ کو سمجھ آئی ہے اورمیں کہے بغیر کہہ رہا ہوں۔ اعجاز بھائی کہنے لگے ؛کمزوری اور تابعداری میں کیا فرق ہے؟ میں نے کہا؛ فی الوقت تو کوئی فرق نہیں ‘مگر پہلے آپ شریف کنجاہی کا ایک شعر سنیں۔ یہ شعر پیپلزپارٹی کے پانچ سال مکمل کرنے اور موجودہ حکومت کے مدت پوری کرنے کے سوال کا شاعرانہ جواب ہے۔ ایسی الہامی بات کوئی شاعر ہی کہہ سکتا ہے اورشریف کنجاہی مرحوم کی توبات ہی کیا ہے۔
اعجاز بھائی کہنے لگے؛ چلیں شعر سنائیں۔ میں نے کہا؛ پہلے ایک اور شعر یاد آ گیا ہے۔ شریف کنجاہی صاحب کا ہی ہے۔ پہلے وہ سن لیں۔؎
اے واعظ ذوق تہاڈے نوں‘ کیہہ نور غازی آکھن گے
ہر جمعے کہانی حوراں دی‘ پا بہنی حضرت ٹھیک نئیں
(اے واعظ‘ آپ کے ذوق کے بارے غازی کیا کہیں گے؟ ہر جمعے کے خطبے میں صرف حوروں کا قصہ لے بیٹھنا مناسب نہیں) اور اب اصل شعر سنو‘ لیکن اس شعر سے پہلے ایک اور بات یاد آگئی ہے‘ پہلے وہ ہو جائے۔ یہ میں نے پاکستان میں کمزور حکومت کے مضبوط ہونے کا جو فلسفہ بیان کیا ہے‘ اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ میاں نواز شریف کی طاقت ہی دراصل ان کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنتی رہی ہے۔ ہر بار اوربار بار۔ پہلی بار وہ واضح اکثریت کے ساتھ اسمبلی میں تھے۔ دوسری بار تو دو تہائی اکثریت تھی۔ ایسی قطعی اکثریت کہ دل چاہے تو منٹوں میں آئین کو اوپر نیچے کر دیں اور آئین میں من پسند ترامیم کیں ‘کبھی اسی طرح سارے قواعد کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے‘ پھر کیاہوا؟ ہر بار گھر گئے ناں! تگڑا سول حکمران کسی کو وارے نہیں کھاتا۔ ویسے ہمارے ہاں سول حکمران بہت تگڑا ہو جائے تو کسی بدترین آمر سے کم نہیں ہوتا‘ لیکن یہ ایک الگ بحث ہے۔ فی الحال شریف کنجاہی کا شعر سنیں۔؎
جیواں میں کمزوری دے زور اتے
لباں تیک نئیں آندی اے جان میری
(میں کمزوری کے زور پر زندہ ہوں۔ کمزوری اور ناتوانی اس قدر ہے کہ میری جان اسی کمزوری کے طفیل لبوں تک نہیں آ رہی اور نہ ہی نکل رہی ہے) میں نے کہا ؛برادر ِبزرگ بات سمجھ آئی۔ اعجاز بھائی ہنسے اور کہنے لگے؛ سمجھ آ گئی ہے۔ چلو اب ‘کافی پیتے ہیں۔

Exit mobile version