شام کے وقت گھر کے سامنے دریا کنارے چہل قدمی کرتے ہوئے نوبت بجنے کی آواز کانوں سے ٹکرائی۔اس کے ساتھ ہی نغمے کی مسحور کن آواز سنائی دی۔جاپان کے اس دورافتادہ قصبے میں شام کی خاموشی نے ان آوازوں کومزید نمایاں کردیا تھا۔ہم پنجابیوں کا مزاج ایسا ہے کہ ڈھول کی تھاپ جہاں سے بھی سنائی دے اسی جانب کھنچے چلے جاتے ہیں۔ہفتے کی نیم شب ویسے بھی عام معمول سے زیادہ فراغت اور آسودگی کا احساس دلاتی ہے۔اس لئے میں خراماں خراماں آوازوں کے منبع کی تلاش میں چل دیا۔سازوآواز کا مرکزایک بدھ مت کا قدیم معبد تھا۔مقامی زبان میں جنجاکہلانے والی اس عبادت گاہ میں کافی زیادہ گہما گہمی تھی۔کثیر تعدادمیں معتقدین مرکزی ہال میں سٹول نما کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ان کے سامنے سٹیج پرروایتی جاپانی مذہبی لباس میں ملبوس پیشوااپنی مناجات میں مصروف تھے۔ایک کونے سے بانسری بجنے کی آواز آرہی تھی۔کورس میں مذہبی گیت گائے جارہے تھے۔
لکڑی سے تعمیرکردہ یہاں کی روایتی بدھ اورشنتومت کی عبادت گاہوں میں عموماًدروازے نہیں ہوتے۔تالے کا توخیرتصور بھی محال ہے کہ وہ تو روایتی گھروں میں بھی نہیں لگائے جاتے، چہ جائیکہ معبد کی تالہ بندی۔ دیوارودرسے بے نیازی کے سبب چوبی ستونوں پہ کھڑامعبدکشادگی اور کھلے پن کا احساس دلاتاہے۔اس مرکزی عمارت سے باہر نکلاتو پتھروں کے باغیچے کے پہلومیں جلتی ہوئی قندیلوں نے اپنی طرف متوجہ کیا۔زردبرقی قمقموں اورقندیلوں کی روشن قطاروں کے ساتھ ساتھ سفید رنگ کے چارٹ لگے ہوئے تھے۔جن پرسیاہ برش سے اسمائے گرامی تحریرتھے۔یہ نام ان مرنے والوں کے تھے۔جن پرماہ اگست کی پہلی شب دوسری جنگ عظیم کے آخری دنوں میں یعنی 1945ء میں امریکی فضائیہ کے لڑاکاطیاروں نے اتنی شدیدبمباری کی تھی کہ وہ اگلی صبح کا سورج نہ دیکھ سکی۔ستائیس ہزارافرادیکم اگست کی رات لقمہ اجل بن گئے۔متاثرین کی تعدادایک لاکھ سے زیادہ تھی۔یاد رہے کہ اس شہر کی مجموعی آبادی بھی تقریباًاتنی ہی تھی۔معبد کی مرکزی عمارت کے سامنے پتھروں کے باغیچے کے پہلو میں لوگ یہاں اپنے پیاروں کے نام تلاش کررہے تھے۔حاضرین کی کثیر تعدادکی وجہ یہ بھی تھی کہ اس تاریخی فضائی بمباری سے شہر کا شائدہی کوئی گھر ہوگاجو اس ہولناک تباہی کے اثرات سے محفوظ وماموررہاہوگا۔
روایتی جاپانی لباس میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر خاتون بڑے ہی انہماک سے ان کاغذی قندیلوں پر تحریرنام پڑھ رہی تھی۔میرے استفسارپر کہ وہ کس کانام تلاش کررہی تھی؟بتانے لگی کہ میرے دادااس رات مارے گئے۔یہ ان کانام درج ہے۔گپ شپ کے دوران اس نے بتایاکہ روشنی ا میدکااستعارہ ہے اس لئے یہ قمقمے روشن ہیں۔ایک سوال میرے ذہن میں وہاں ہاتھ سے بنی تصاویردیکھ کرکلبلارہاتھا۔بظاہران میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔کہیں پہاڑ کی تصویر ہے تو کہیں کسی جانوراورپرندے کی تصویر ہے۔کسی پینٹنگ میں چاول کی فصلیں نظرآرہی ہیں توکہیں چانداورچکور،میں نے مذکورہ خاتون کو اپنی الجھن بتائی کہ یاحبیبی!یہ ماجراکیاہے؟ادھیڑعمر عورت نے سمجھایاکہ یہ تباہی سے پہلے کے مناظر ہیں۔مصورکا مقصد یہ دکھاناہے کہ ہنستابستا،جیتاجاگتاشہرخاک وخون میں جو تبدیل ہو گیا تھا۔تباہی سے پہلے وہ کیساتھا۔یوں کہیے کہ وہ کیاتھا۔جو دشمن نے خاکسرکردیا۔اس دردناک رات اس شہر جسے تویاماکہتے ہیں،کا99%حصہ منہدم ہو گیاتھا۔ہیروشیما اورناگاساکی پرامریکی ایٹمی بمباری کے نتیجے میں مرگِ انبوہ کے سبب دنیا بھر کے لوگ آگاہ ہیں کہ اگست کی 6اور9تاریخ کوچشم زدن میں ہی ان دوشہروں کے لاکھوں بے گناہ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔مگر جاپان کے دیگر شہروں میں بھی دوسری عالمی جنگ کے بالخصوص آخری ایام میں نہتے عوام نے جس بربریت اور قیامت صغریٰ کا سامنا کیا،اسے ضبط تحریرمیں لاناجوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔آج جب جاپانی لوگ جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں بات کرتے ہیں تواس کا بنیادی محرک یہی ہولناک مناظر ہیں۔جن کا انہیں تجربہ ہوا۔ایٹم بم کا گرنا تونقطہ عروج تھا۔اس کے علاوہ بھی تباہی وحشت انگیزحدودکو چھوتی نظرآتی ہے۔
میں اورمتذکرہ خاتون باتوں میں مشغول تھے کہ ”بازیچہ سنگ“یاپتھروں کے بازیچے سے معبد کاپروہت بھی ادھرآنکلااورہماری گفتگومیں شریک ہو گیا۔جاپانی عورت سے پوچھنے لگا کہ آپ کا کون جاں بحق ہوا تھا؟داداکاذکر سن کرپروہت نے خاتون سے اس کے دادا کا نام پوچھ لیا۔خاتون نے اپنے دادا کا نام بتایاتو پروہت نے اس کے داداکے تمام حالات زندگی ایک ہی سانس میں بیان کر ڈالے۔اس سے میں نے یہ اندازہ لگایاکہ شائدخاتون کا دادابزرگ کوئی مشہورآدمی گزرا ہوگایاپھرپروہت کو تمام بمباری میں مرنے والے افرادکے کوائف حفظ ہیں۔میرے دریافت کرنے پر خاتون نے بتایاکہ دادابحری فوج میں فرائض سرانجام دے رہے تھے۔اس پہرمیں پتھروں کے باغیچے یا”باغِ حجر“کی گہری اداسی میں ایک عجب طمانیت تھی۔
یہاں پتھروں کے باغیچے یا”بازیچہ ء سنگ“کی وضاحت کرنا بھی برمحل ہوگا۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے چونکہ سنگ سفید وسیاہ سے مزین ایسے باغ صرف جاپان میں پائے جاتے ہیں۔دنیا میں اورکہیں ان کی مثال نہیں ملتی۔چشم تصور میں سبز باغ لائیے،اب اس باغ کی ہری گھاس کو سفید بجری سے تبدیل کردیجئے۔پتھروں کے باغیچے جسے پوری دنیا ”Stone Garden“کے نام سے جانتی ہے۔اس کی یہ سادہ ترین تفصیل ہے۔ان پتھروں کے بازیچوں کی باقاعدہ دیکھ بھال ہوتی ہے۔اوران میں ایسے لکیریں ڈالی جاتی ہیں جیسے کھیت کھلیانوں میں ہل چلنے سے کیاریاں سی بن جاتی ہیں۔ان سنگلاخ باغات کے باغبان اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان میں کہیں کوئی جڑی بوٹی،سبزہ یا درخت نمو نہ پا جائے۔ان پتھروں کے باغیچوں کی تاریخ پر ہم نظرڈالیں تو یہ صدیوں بلکہ کئی ہزار سال پرانی روایت ہے۔بڑے لوگوں کی باتیں بھی بڑی ہواکرتی ہیں،استاذالشعراء شہزاداحمدجن دنوں انجمن ترقی اردوکے صدر نشین تھے۔تو ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔مجھے جاپانی ناول ”شوگن“پڑھنے کا مشورہ دینے کے بعد،پوچھنے لگے کہ جاپان میں کیا اب بھی”سٹون گارڈن“ہوتے ہیں؟یہ پہلا موقع تھاکہ میری توجہ اس جانب مبذول ہوئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی بھی روایتی عبادت گاہ کے صحن اور گردوپیش میں آپ کوسبزباغ نظرآئے یا نہ آئے،یہ بازیچہ سنگ ضرور نظرآئے گا۔معبدوں کے احاطے میں پتھروں کا بازیچہ لازمی خیال کیا جاتاہے۔یہ فقط روایت پسندی اور حسن پرستی ہی کامظہر نہیں ہے بلکہ روحانیت سے اس کا بہت گہرارشتہ ہے۔یہاں بتاتاچلوں کہ عموماًعبادت گاہوں کے پروہت،پجاری جب ان باغیچوں میں داخل ہوتے ہیں تووہ ننگے پاؤں ہوتے ہیں۔اندازہ کریں کہ پتھریلی نوکیلی بجری پر ننگے پاؤں چلنے کاتجربہ کیسا ہوگا؟اسے روحانی بالیدگی کا ذریعہ سمجھاجاتاہے۔بعض نقاد اسے اذیت پسندی سے تعبیر کرتے ہیں اورSadisticرویہ قراردیتے ہیں۔اہلِ سلوک کے نزدیک ننگے پاؤں پتھروں پرچلناعبادت میں شماراورروحانیت کی سیڑھی خیال کیاجاتاہے۔معرفت حق کے سفر کاضروری حصہ سمجھاجاتاہے۔اگر مصطفیٰ زیدی کے الفاظ میں مجازکو حقیقت کے روپ میں ڈھال دیں تو،انہی پتھروں پہ چل کے اگرآسکوتوآؤ میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے۔بدھ بھکشوکئی کئی گھنٹوں تک خالی نظروں سے ”باغِ حجر“کے پتھروں کوتکتے رہتے ہیں۔ذہنی جنجال سے چھٹکارہ پانے کے لئے بھی ان پتھریلے بازیچوں کی زیارت کو نہایت مفید سمجھاجاتاہے۔