مجھ جیسے دو ٹکے کے رپورٹر ہمیشہ اس گماں میں مبتلا رہے کہ صحافی کا بنیادی کام ’’خبر‘‘ دینا ہوتا ہے۔اس خبر کے تناظر میں تبصرہ آرائی کی گنجائش بھی نکل آتی ہے۔گزشتہ چند برسوں سے بتدریج مگر دریافت ہورہا ہے کہ زمانہ بدل چکا ہے۔صحافی کو اب قوم کی’’رہ نمائی‘‘ فرمانے کی ضرورت ہے۔ ’’بریانی کی پلیٹ‘‘ کھاکر ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ دینے والوں کو سمجھانا لازمی ہے کہ یہ رویہ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو اقتدار میں باریاں دیتا ہے۔ووٹ کو لہٰذا سوچ سمجھ کر استعمال کیا جائے۔ اس کے بعد جو حکومت برسرِ اقتدار آئے اس پر کڑی نگاہ رکھی جائے۔اسے ’’گڈگورننس‘‘ کے اصولوں میں کاربند رکھا جائے۔علم سیاسیات میں 1960ء کی دہائی کے دوران Guided Democracyکا تصور بہت مقبول ہوا تھا۔ اس کے مطابق سامراج کی طویل غلامی سے آزاد ہوئے پاکستان جیسے ممالک کے سیاست دان حکمرانی کی صلاحتوں سے مالا مال نہیں تھے۔ریاست کے دائمی اداروں میں موجود تجربہ کار افسران کے لئے لہٰذا لازمی ٹھہرا کہ وہ انہیں حکمرانی کے گرسکھائے۔اس تصور کو عملی شکل دینے کے لئے ہمارے ہاں 1958ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان کو اقتدار سنبھالنا پڑا۔انہوں نے صدارتی نظام متعارف کروایا۔
ہمارے عوام کا مزاج ان کی دانست میں ’’جمہوری‘‘ نہیں تھا۔اسی باعث ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کا نظام متعارف کروانا پڑا۔گلی محلوں کی صفائی ستھرائی کی نگہبانی ’’یونین کونسلوں‘‘ کے سپرد ہوئی۔ان کونسلوں کو چلانے والے ’’بی ڈی ممبر‘‘ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین منتخب کرتے تھے۔صدارتی انتخاب کا Electoral Collegeبھی ان ہی افراد پر مشتمل تھا۔یہ نظام دس برس تک جاری رہا۔ان دس برسوں کو بہت احترام سے ’’عشرہ ترقی‘‘ بھی پکارا جاتا ہے۔قطعاََ ایک دوسرے -یعنی پارلیمانی- نظام کے تحت منتخب ہوئے وزیر اعظم عمران خان صاحب بھی اکثر اس عشرے کو بہت حسرت سے یاد کرتے ہیں۔اپنی کابینہ میں ڈاکٹر حفیظ شیخ جیسے ’’ہنرمندوں‘‘ یعنی Technocratsکو کلیدی عہدے سونپ کر وہ ’’عشرہ ترقی‘‘جیسی ’’گڈگورننس‘‘ ہی متعارف کروانا چاہ رہے ہیں۔گزشتہ دس برس سے ہماری عدلیہ بھی ’’گڈگورننس‘‘ کو یقینی بنانے کی کاوشوں میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ہمارے قدآور اور عوام میں مقبول صحافیوں کا ایک محترم گروہ اپنے تئیں نااہل سیاستدانوں کو ’’گڈگورننس‘‘ کی جانب دھکیلنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر -کراچی- کو اس تناظر میں ایک لیبارٹری کی صورت اپنالیا گیا ہے۔
اس شہر میں ’’کوڑے کے ڈھیر‘‘ اور بارشوں کے بعد جمع ہونے والا پانی سیاست دانوںکی بے حسی اور نااہلی بے نقاب کرنے کے لئے مسلسل استعمال ہوتے ہیں۔اس شوروغوغا کی بدولت ’’گڈگورننس‘‘ کی عدم موجودگی ثابت ہوجاتی ہے۔مون سون کی حالیہ بارشیں اس تناظر میں اگرچہ واقعتا ’’بارانِ رحمت‘‘ثابت ہوئیں۔ انہوں نے Guided Democracyکے تصور کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔اتوار کے روز سندھ کے وزیر اعلیٰ اپنے وزیروں اور مشیروںسمیت گورنر سندھ کے دربار میں حاضر ہوئے۔ وہاں وفاق سے آئے دو بہت ہی سیانے وزیر جناب اسد عمر اور علی زیدی صاحب بھی موجود تھے۔ایم کیو ایم کے منتخب میئروسیم اختر کی شرکت بھی وہاں لازمی تھی۔اس کے علاوہ NDMAکے سربراہ سے بھی رجوع کرنا پڑا۔ وزیر اعظم صاحب نے انہیں بارشوں کے پانی کی کماحقہ نکاسی کا فریضہ سونپ رکھا ہے۔سپریم کورٹ بھی ا نہیں اس ضمن میں مزید متحرک ہونے کی تلقین کررہا ہے۔اتوار کے اجلاس کے بعدابتدائی خبروںنے مطلع کیا کہ اب مرکزی اور صوبائی وزراء پر مشتمل ایک ’’خصوصی کمیٹی‘‘ کراچی کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کرے گی۔ مذکورہ اجلاس میں مدعو نہ ہونے والی سیاسی جماعتوں نے یقیناََ حسد میں مبینہ فیصلے کی بابت دہائی بچانا شروع کردی۔ عمران حکومت کی سندھ کے بااثر وڈیروں پر مشتمل اتحادی-GDA-کو سندھ حکومت کی ایم کیو ایم کے وسیم اختر سے قربت نے پریشان کیا۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت العلمائے اسلام کے مولانا راشد سومرو صاحب کو ’’صوبائی خودمختاری‘‘ کی دہائی مچانا پڑی۔اس دہائی نے سندھ حکومت کے جواں سال ترجمان مرتضیٰ وہاب کو وضاحتی بیانات جاری کرنے پرمجبور کردیا۔ یہ وضاحتی بیان مگر اس تاثر کو رد نہیں کر پائے کہ تمام تر باہمی اختلافات کے باوجود تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کراچی کو وطن عزیز کا صاف ترین شہر بنانے کے عزم سمیت ’’متحد‘‘ ہوگئے ہیں۔ پیر کے روز چھپے اخبارات کی شہ سرخیوں نے اس تاثر کو مزید تقویت پہنچائی۔سیاست دانوں کو ’’گڈگورننس‘‘ کی راہ پر دھکیلنے کے مشن میں مصروف صحافی تو اب اپنے سوشل میڈیا پیغامات کے ذریعے یہ اُمید بھی دلانا شروع ہوگئے ہیں کہ اتوار کے روز تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے مابین ہوا معاہدہ یا اتحاد اب دو جماعتوںکے مابین مزید قربت پیدا کرنے کا سبب ہوگا۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جارہا کہ کراچی کے ’’وسیع تر مفاد‘ ‘ میں تحریک انصاف سندھ حکومت میں شامل ہوجائے۔یہ ہوگیا تو وفاقی حکومت میں پیپلز پارٹی کو حصہ دینے کے بارے میں بھی سوچا جاسکتاہے۔گویا ایک حوالے سے ’’قومی حکومت‘‘ کا قیام عمل میںآجائے گا۔
نواز شریف سے منسوب مسلم لیگ تو 2018ء سے پنجاب کے جی ٹی روڈ تک ’’محدود‘‘تصور ہورہی تھی۔عثمان بزدار صاحب نے بڑھکیں لگائے بغیر آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو بتدریج انتہائی خاموشی سے سرجھکاتے ہوئے ’’گڈگورننس‘‘ کی عملی مثال بنادیا ہے۔’’بری حکومت‘‘ فقط سندھ میں نظر آرہی تھی۔ اتوار کے دن کراچی کے گورنر ہائوس میں ہوئے اجلاس نے اسے مگر اب ’’درست‘‘ کرنے کا ارادہ باندھ لیا ہے۔سند ھ میں ’’گڈگورننس‘‘ کو یقینی بنانے کے لئے اب ’’گورنر راج‘‘ جیسے انتہائی اقدام لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ ’’وفاق‘‘’ سندھ پر ’’حملہ آور‘‘ ہوتا نظر نہیں آئے گا۔تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے مابین اتفاق بلکہ اس صوبے میں برکت لائے گا۔ نیتوں کا حال تو فقط میرا ربّ ہی جانتا ہے۔اتوار کے اجلاس کے بعد جو تاثر پھیلایا گیا ہے وہ خیر کی خبر دیتا ہی نظر آیا۔سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے اگرچہ میرا وسوسے بھرا دل یاد کرنے کو مجبور ہے کہ ہماری حالیہ تاریخ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم 1988ء سے 2008ء تک ایک دوسرے کے تخت یا تختہ والے ’’ویری‘‘ رہے تھے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد مگر پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم سے ’’مصالحت‘‘ کا فیصلہ کیا۔اسے وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں جثے سے کہیں زیادہ حصہ ملا۔اس کے باوجود ’’لیاری گینگ وار‘‘ ہوئی۔ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی گھن گرج بھی سامنے آئی۔ بحیثیت وزیر داخلہ رحمن ملک صاحب کراچی کے معاملات سنبھالنے کسی وائسرائے کی طرح اکثر اس شہر میں جانے کو مجبور ہوتے تھے۔ بات مگر بن نہیں پائی۔ اگست 2016ء سے بالآخر ہمیں ایم کیو ایم کے ’’اصل ارادوں‘‘ سے آگہی نصیب ہونا شروع ہوئی۔اس کی جگہ لینے کو کراچی کے ’’کامیاب ترین‘‘ میئر ہونے کے دعوے دار جناب مصطفیٰ کمال ’’پاک سرزمین‘‘ نامی جماعت بناکر میدان میں اُترے۔ 2018ء کے انتخاب میں لیکن کراچی تحریک انصاف کا ہوگیا۔ ایم کیو ایم کے ’’محبانِ وطن‘‘ چند نشستیں ہی بچاپائے۔ بالآخر عمران حکومت کے اتحادی بھی ہوگئے۔وہ جسے سیاسی جماعتوں کی Baseکہا جاتا ہے اسے ذہن میں رکھیں تو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مابین اعلیٰ ترین سطح پر ہوئی ’’مصالحت‘‘ ان دونوں جماعتوں کے متحرک کارکنوں کے درمیان حقیقی قربت فراہم کرنے میں قطعاََ ناکام رہی تھی۔ کراچی کے تناظر میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے مابین ایسی ہی مناقشت اب کئی مہینوں سے بہت شدت کے ساتھ نمایاں ہورہی ہے۔قومی اسمبلی میں جب بھی مراد سعید ’’پرچی سے بنے چیئرمین‘‘ کی کلاس لینے کھڑے ہوتے ہیں تو سب سے زیادہ گرم جوش دادوتحسین تحریک انصاف کے کراچی سے آئے اراکین کے گروہ سے میسر ہوتی ہے۔دیکھنا ہوگا کہ اتوار کے روز ہوا معاہدہ یا اتحاد ان کے رویے میں کیا تبدیلی لائے گا۔