ایک بدو سے گفتگو جس کا گھوڑا کھو گیا ہے
ایک دوست بتا رہا تھا کہ اس سال حج اور عمرے پر جزوی اور مکمل پابندی کے گزشتہ پانچ ساڑھے پانچ ماہ نے وہاں روایتی اشیا کی فروخت کا سارا نظام برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ پچاس‘ پچپن ریال فی کلو گرام فروخت ہونے والی عجوہ کھجور آٹھ دس ریال فی کلو گرام فروخت ہوتی رہی ہے۔ میں یہ سوچ کر پریشان ہو گیا ہوں کہ مستقبل کے عالمی منظر نامے میں ”فاسل فیول‘‘ (قدرتی ایندھن) کو بتدریج ترک کرنے کا جو منصوبہ ہے اس کے پیش نظر اپنی اَسی فیصد سے بھی زائد ملکی معیشت کو چلانے والے عرب ممالک کا کیا بنے گا؟ تیل کی کھپت کا نصف ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل میں استعمال ہوتا ہے اور مستقبل الیکٹرک گاڑیوں کا ہے۔ کل شوکت گجر سے یہی سوال کیا تو ساتھ بیٹھے ہوئے رانا شفیق نے یاد دلایا کہ گزشتہ صدی کی پانچویں بلکہ چھٹی دہائی کے آغاز یعنی 1960ء کے لگ بھگ تک جزیرہ نما عرب کے مستحقین زکوٰۃ لینے ادھر آیا کرتے تھے اور مقامی لوگ ان عربوں کو اپنے آقاؐ کی قربت کی نسبت سے دیگر مستحقین پر ترجیح دیتے ہوئے زکوٰۃ دیتے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ ایک بار اپنے دیرینہ دوست افتخار گجر کی شادی کے سلسلے میں اس کے گاؤں گیا جو سکھ بیاس کے پار تھا تو وہاں ایک بزرگ نے بتایا کہ وہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں جہانیاں آنے والے عربوں کو زکوٰۃ دیا کرتے تھے۔ پھر تیل نکل آیا اور سارا حساب الٹ ہو گیا۔
اللہ جنت نصیب کرے میرے نانا مرحوم محمد عبداللہ صدیقی صاحب کو۔ پچاس کی دہائی میں حج پر گئے تو وہاں کے واقعات سناتے ہوئے یہ بتایا کہ تب وہ اپنا سامانِ خورو نوش وغیرہ بھی پاکستان سے اپنے ہمراہ لے جایا کرتے تھے اور اپنے سامان کی‘ خصوصاً رات کو بڑی حفاظت کیا کرتے تھے۔ تاہم اس ساری احتیاط اور چوکسی کے باوجود ایک رات مکے کے مقامی لوگ ان کے آٹے کا توڑا کھسکانے میں کامیاب ہو گئے۔ اگر تیل کا معاملہ اسی طرح خراب ہو گیا جس کا مستقبل میں تصور کیا جا رہا ہے تو پھر حاجیوں کو اپنے سامان کی حفاظت کا مسئلہ دوبارہ پیش آ سکتا ہے۔ باقی تفصیلات کو چھوڑیں ‘ آج نزار قبانی (شام) کی نظم ”حوار مع اعرابیِ ا ٔضاع فرسہ‘‘ (ایک بدو سے گفتگو جس کا گھوڑا کھو گیا ہے) آپ کی نذر کرتا ہوں۔ یہ نظم عربوں کی اندرونی کیفیات کی عکاس ہے۔ ترجمہ امجد اسلام نے کیا ہے اور ایسا خوب کیا ہے کہ ترجمے کا حق ادا کر دیا ہے۔
”ایک بدو سے گفتگو جس کا گھوڑا کھو گیا ہے‘‘
اگر یہ صحرا مری سنے تو اسے بتاؤں
یہ شاعروں کا گروہ فصلِ زوال ہے‘ تو اسے مٹا دے
یا اس کے منہ سے وہ لفظ لے لے
جو کتنی صدیوں سے زہر صورت ہماری نسلوں کو کھا رہے ہیں
یہ بانجھ لفظوں کی ڈگڈگی جو ہمارے کانوں میں بج رہی ہے
خموش کر دے
یہ لفظ بازی کا شوق جسموں میں کوڑھ کی مثل پھیلتا ہے!
مرے وطن میں عجب قصّہ ہے
مردِ میداں تو کھیت رہتے ہیں اور شاعر
زمیں کے سینے پہ حسبِ سابق رواں دواں ہیں
یہ لفظ بازی ہے جس کے باعث ہمارے ہاتھوں میں کچھ نہیں ہے
زمیں کے نقشے پہ ہم مقاموں سے ماورا ہیں
ہماری آنکھوں میں آنے والے سراب لمحوں کے خواب سجتے ہیں
اور کانوں میں اس کے گھوڑے کی ٹاپ بجتی ہے جو ہمارے
دلوں کو غم سے نجات دے گا
جو دشمنوں کی صفیں الٹ کر شکست دے گا
مرے وطن اے زمین میری!
فغاں! کہ ہم نے وہ لفظ جنسِ دکانِ اہلِ ہوس بنایا
جو قاصدانِ بہار جیسا سبک نَوا تھا
حرم کے طائر سا خوش نما تھا
………
اگر یہ صحرائے نجد میری فغاں سنے تو اسے بتاؤں
میرے تصرّف میں ہو تو لفظوں کے کارخانے کو سرخ مہروں سے
بند کر دوں! حروفِ ابجد کے شہسواروں کو قتل کر دوں‘
کہ جب سے ہم نے جنم لیا ہے
یہ ہم کو لفظوں کی چکیوں میں کچل رہے ہیں
اگر میں اپنے وطن میں کوئی مقام رکھتا
تو ایسے لوگوں کی انگلیوں کو تراش دیتا
جو اپنے لفظوں کو ظالموں کے غلیظ جوتوں پہ پھیرتے ہیں
اور ان میں ایسی چمک دکھاتے ہیں‘
جو بھی دیکھے خود اپنے چہرے سے دو بہ دو ہو
تو نگروں کے مصاحبوں کو ذلیل کرتا
جو شوربے کی مہک پہ کتوں کی مثل ہونٹوں کو چاٹتے ہیں
اور ان کے لفظوں کو سخت دُروّں کی مار دیتا
جو اہلِ زر کی مدح سرائی میں جھوٹ کی فصل کاٹتے ہیں
…………
مرے وطن اے زمین میری!
میری دعا ہے کہ سوکھ جائے ترے کنوؤں کی یہ بہتی دولت
سوائے پانی کے سب فنا ہو
جو میری چاہت سے منحرف ہیں انہیں سزا ہو
جو بیٹیوں کو سجا کے گاہک کو ڈھونڈتے ہیں
انہیں ہوس کا عذاب پہنچے
وہ اپنے جسموں میں کوڑھ دیکھیں یہ موت ان کی طرف نہ آئے!
میں چاہتا ہوں
تو نگروں کے محل… محلوں کے سرخ کمرے
جدید سائنس کے معجزوں کے کمال‘ کلچر کی خوشنمائی
سفید آقاؤں کی وراثت‘ جلا وطن ہو
حسین تاجوں میں جگمگاتے ہوئے جواہر
غریب لوگوں کی جوتیوں میں مقام پائیں
اگر وطن میں مجھے کوئی اختیار ہو تو میں اپنے صحرا
میں پلنے والے نئے امیروں کے بھاری خلعت اتار پھینکوں
یہ ارضِ یورپ کے سارے تحفے جو جگمگاتے ہیں مسخ کر دوں
اور ان کے چہروں کو اس ملمع سے پاک کر دوںجسے سجا کر
یہ اپنے اہلِ وطن سے ظاہر میں مختلف ہیں
انہیں بٹھاؤں بغیر زینوں کی گھوڑیوں پر
سُلاؤں صحرا کی سرد راتوں میں جب سروں پہ کھلا فلک ہو
پلاؤں ان کو وہ دودھ جس سے نظر میں ان کی وہی چمک ہو
جو ان کے ناموں کا حاشیہ ہے
عرب شجاعت کا اور غیرت کا نام جس سے تمام تاریخ آشنا ہے۔
حالانکہ نظم کا بہت سا حصہ اس کالم کا حصہ نہیں بن سکا۔ مگر یہ بھی سارے منظر نامے کا احاطہ کرتا ہے۔ غاصب اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عمل بھی ادھر سے شروع ہوا ہے جن کی خاطر ہم عشروں سے ”مدعی سست گواہ چست‘‘ والے محاورے کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔