سانحۂ بہاولپور ‘ بھٹو مخالف سیاسی اثاثہ اور نواز شریف
شہداء بہاولپور کی32 ویں برسی پر اعجاز الحق سے اپنا ایک طویل انٹرویو یاد آیا۔یہ انٹرویو اگست 2009ء میں جدہ میں ہوا۔ تقریباً تین گھنٹو ںپر محیط انٹرویو سانحۂ بہاولپور سے پرویز مشرف کے زوال تک پاکستان کی سیاسی کہانی تھی۔ سانحۂ بہاولپور اور اس کے بعد ضیا الحق فیملی اور نوازشریف میں تعلقات کے حوالے سے کچھ حصے نذرِ قارئین ہیں۔
اعجاز الحق کہہ رہے تھے: ”سانحۂ بہاولپور کے بعد بہت زور لگا یا گیا کہ ہم عملی سیاست میں نہ آئیں۔ جنرل حمید گل سب سے زیادہ دبائو ڈال رہے تھے۔ انہوں نے والدہ سے بھی کہا‘ اور مجھ پر بھی بہت زور دیا‘‘۔
”اس کی وجہ ‘‘؟
”ہم سانحۂ بہاولپور کے بعد کچھ اہم شخصیات پر انگلی اٹھا رہے تھے۔ جنرل شمیم عالم سے تو فون پر میری کافی توتکار بھی ہوئی۔ جب حادثہ ہوا‘ وہ ملتان کے کور کمانڈر تھے۔ میجر جنرل محمود علی درانی ملتان میں ڈویژن کی کمان کررہے تھے‘ جنہیں مشرف نے امریکہ میں پاکستان کا سفیر بنایا۔ زرداری /گیلانی حکومت میں یہ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر تھے(تاج ہوٹل ممبئی کے واقعہ کے بعد ایک غیر ذمہ دارانہ بیان پر وزیر اعظم گیلانی نے انہیں برطرف کردیا تھا) جنرل اسلم بیگ کے نام کے سامنے بھی کئی سوالیہ نشانات تھے۔ انہوں نے مارشل لا لگانے کی کوشش بھی کی لیکن انہیں اپنے ”رفقا ء کار‘‘کی حمایت حاصل نہ ہوسکی۔ میرے خیال میں اس میں کچھ ہاتھ امریکیوں کا بھی تھا۔ کیونکہ ہم ایف بی آئی کے حوالے سے بھی سوالات اٹھارہے تھے کہ حادثے کی تحقیقات کے لیے وہ کیوں نہیں آئی جبکہ اس میں امریکی سفیر اور امریکی ملٹری اتاشی بھی مارے گئے تھے پاکستان میں نئے امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر انوار الحق اور ہارون اختر سے ملاقات کی۔ ہمارا سوال تھا کہ حادثے میں جہاز کے کاک پٹ میں استعمال ہونے والی اعصابی گیس کہاں سے آئی؟ یہ جہاز کے اندر کیسے پہنچی؟ اس حوالے سے ایئر مارشل حکیم اللہ کے سامنے بھی سوالیہ نشان تھا۔ رابرٹ اوکلے نے انوار سے کہا کہ اعجاز سیاست میں آنا چاہتا ہے تو اس طرح کی باتیں کم کردے۔ ان دنوں سی آئی اے کا سائوتھ ایسٹ ایشیا ہیڈ کوارٹر پاکستان میں تھا۔ مسٹر”B‘‘ اس کے سربراہ تھے۔ ہم ان سے رابطہ میں رہتے کہ حادثے کے متعلق جو بھی نئی اطلاعات ہوں‘ شیئر کرسکیں۔جنرل حمید گل پر امریکیوں کا دبائو تھا‘ یاوہ اسلم بیگ کے کہنے پر یہ سب کچھ کررہے تھے جن پر ہم نے سانحہ بہاولپور کے حوالے سے براہِ راست الزام لگایا تھا۔ ہمارے پاس شواہد تھے کہ انہوں نے اٹاپسی رکوائی۔ سی ایم ایچ بہاولپور سے ڈیڈ باڈی کے کچھ ٹکڑے معائنے کے لیے لاہور بھجوائے گئے۔ جنرل بیگ نے انہیں واپس نہ آنے دیا اور سی ایم ایچ کے سٹاف کو دور دراز ٹرانسفر کردیا۔ادھر نوازشریف کا اصرار تھا کہ ہم سیاست میں ضرور آئیں۔ جنرل ضیا الحق کی تدفین پر جس طرح لاکھوں لوگ امڈ آئے تھے‘ اس نے پیپلز پارٹی کے مخالف عناصر کو نیا حوصلہ دیا۔ یہ نیا ضیا الحق تھا‘ جو دریافت ہوا۔ نوازشریف کا اصرار بڑھتا گیا۔وہ کئی بار والدہ صاحبہ کے پاس آئے۔ ایک بار جنرل فضلِ حق اور گورنر مخدوم سجاد قریشی (شاہ محمود قریشی کے والدِ محترم) بھی ساتھ تھے۔ والدہ کا ایک ہی جواب تھا کہ آپ (نوازشریف) ہی آگے بڑھیں۔ ہم آپ کو پوری طرح سپورٹ کریں گے‘‘۔
”ایک طرف حمید گل آپ کو سیاست میں آنے سے روک رہے تھے۔ دوسری طرف انہوں نے پیپلز پارٹی کو ”کٹ ٹو سائز‘‘ کرنے کے لیے اس کی مخالف سیاسی قوتوں کو متحد کیا اور اسلامی جمہوری اتحاد بنایا‘‘؟
”یہ واقعی دلچسپ بات تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ جنرل اسلم بیگ اور حمید گل نے آئی جے آئی بنائی۔ حمید گل تو اس کا برملا اعتراف بھی کرتے تھے‘‘۔
1988ء میں اعجاز الحق نے الیکشن کی ٹرین مس کردی ‘تب وہ بحرین میں ایک امریکی بینک میں افسر ی کر رہے تھے۔ 1990ء میں سیاست میں آگئے۔ ضیاالحق نے دعا کی تھی کہ ان کی زندگی بھی نوازشریف کو لگ جائے۔ پھراعجاز کی والدہ نے بھی نوازشریف ہی کی حمایت کی۔ لیکن سیاست میں آنے کے بعد نوازشریف کے ساتھ اعجاز کے تعلقات میں قربت بھی تھی اور دوری بھی۔ وہ جو انگریزی میںLove and Hateکہتے ہیں۔
اعجاز الحق کا کہنا تھا :1988ء میں ہمایوں اختر کا اصرار تھا کہ ہم اپنی الگ جماعت بنائیں اور اسی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں‘ لیکن والدہ نوازشریف کی حمایت کررہی تھیں۔ 1990ء میں ہم نے مسلم لیگ کے کوٹے سے آئی جے آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور خدا کے فضل سے بہت پذیرائی ملی۔ نوازشریف (پہلی بار ) وزیر اعظم بنے۔ میں ان کی کابینہ میں محنت وافرادی قوت اور بیرون ملک پاکستانیوں کا وفاقی وزیر تھا۔بے نظیر صاحبہ کے دوسرے دور (1993-96ئ)میں میاں صاحب اپوزیشن لیڈر تھے اور میں ان تین چار لوگوں میں تھا جو ہر جلسے جلوس میں‘ تحریکِ نجات اورپہیہ جام میںبھی ‘ میاں صاحب کے شانہ بشانہ رہے۔ میں چار بار جیل بھی گیا۔ ہماری یہ جدوجہد میاں صاحب ہی کو( دوسری بار )وزیر اعظم بنانے کے لیے تھی‘ مجھے تو وزیر اعظم نہیں بننا تھا۔ ویسے ایک موقع پر میرے لیے بھی یہ پیش کش موجود تھی۔ اپریل 1993ء میں صدر غلام اسحاق اوروزیر اعظم نواز شریف میں کشمکش کے دوران ‘ صدر صاحب نے مجھے بلایا۔ میاں صاحب کی کابینہ کے بعض ارکان صدر کے کہنے پر استعفے دے چکے تھے۔ صدر نے کہا :اگر میں بھی استعفیٰ دے دوں تو وہ مجھے عبوری وزیر اعظم بنا دیں گے۔ اگلے دن پرنسپل سیکرٹری نے میری بیگم کو فون کیا کہ اعجاز الحق صدر سے کوئی بات کر کے آئے تھے۔ انہیں ایک کاغذ بھجوانا تھا‘ وہ بھجوادیں۔ ایوانِ صدر نے میری پریس کانفرنس کا اہتمام بھی کردیا تھا لیکن میں آمادہ نہ ہوا۔ الٰہی بخش سومرو ‘ ہمایوں اختر‘ عبدالستار لالیکا اور صدیق کا نجو جیسے لوگوں نے استعفے دے دیے تھے لیکن میں کسی سازش کا حصہ بننے کو تیار نہ ہوا‘‘۔
بات ضیا الحق فیملی اور نواز شریف میں تعلقات کے حوالے سے ہو رہی تھی۔اعجاز الحق کا کہناتھا : ”ہماری چھوٹی بہن زین تو اب بھی نوازشریف سے بہت پیار کرتی ہے‘ شاید ہم حقیقی بھائیوں سے بھی زیادہ۔ اس کا کمرہ ان کی تصویروں سے بھرا ہوا ہے۔ عرفان صدیقی صاحب نے لکھا تھا کہ اعجاز الحق کے گھر میں زین کا کمرہ نوازشریف کا کیمپ آفس ہے۔ نوازشریف جلاو طنی کے دنوں میں جدہ میں تھے۔ تو زین جب بھی میرے ساتھ عمرے پر آئی۔میاں صاحب اسے مکہ مکرمہ سے سرور پیلس لانے کے لیے گاڑی بھجواتے‘ دن بھر اپنی فیملی کے ساتھ رکھتے اور رات کو مکہ بھجوادیتے۔ ہماری والدہ کے ساتھ بھی ان کا تعلق نہایت احترام‘ محبت اور شفقت کا تھا۔ 1996ء میں والدہ علاج کے لیے لندن میںتھیں۔ نوازشریف بھی ان دنوں وہیں تھے۔ وہ والدہ صاحبہ کی مسلسل خبر گیری کرتے رہے۔ ان کے انتقال کی خبر ملتے ہی ہسپتال پہنچ گئے اور تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ہمیں میت کے ساتھ پاکستان روانہ کیا اور تاکید کی کہ جنازے کے لیے ان کی آمد کا انتظار کیا جائے۔ اگلی پرواز سے وہ بھی پاکستان پہنچ گئے۔ جنازہ گاہ تک ایمبولینس میں میت کے ساتھ رہے۔ ان کا رویہ بالکل ایسے تھا‘ جیسے ایک بیٹے کا اپنی ماں کے ساتھ ہوتا ہے‘‘۔