13ویں صدی کے فارسی شاعر سعدی سے ہم آج کیا سیکھ سکتے ہیں؟
ایرانی تاریخ کے انتہائی پریشان کن ادوار میں سے ایک یعنی 13ویں صدی کے دوران فارسی کے معروف شاعر سعدی نے بغداد میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے آبائی شہر شیراز کو چھوڑ دیا۔
وہاں سے وہ دور دراز کا سفر کرتے رہے اور تین دہائیوں کے بعد اپنے گل و بلبل والے شہر واپس آئے تو ان کا شہر شیراز ترک حکمرانوں کی سفارت کاری کی بدولت اس کشت و خون سے بچا ہوا تھا جو منگولوں نے ایران کے دوسرے شہر میں برپا کر رکھا تھا۔
خطے کے نامور شاعر ہونے کے باوجود سعدی نے محسوس کیا کہ انھوں نے اپنی زندگی ابھی تک ضائع کی ہے اور کوئی خاطر خواہ قابل ذکر کام نہیں کیا۔ اس وجہ سے انھوں نے اپنی باقی ماندہ زندگی خاموشی کے ساتھ گزارنے کا عہد کر لیا۔
لیکن پھر ایک دوست کے اصرار پر انھوں نے اپنی قسم توڑ دی۔ وہ شیراز میں موسم بہار کا زمانہ تھا اور دونوں دوست باغ بہشت میں سیر کے لیے نکلے تھے۔
حیرت انگيز طور پر پھول اور جڑی بوٹیاں جمع کرنے کے بجائے سعدی نے شاعر اور فلسلفی خیام کے انداز میں ان اشیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا اور اپنے دوست سے کہا کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھيں گے جو تعلیمی بھی ہو اور دلچسپ بھی ہو، اس کا نام گلستاں ہوگا جس کے صفحات ہمیشہ رہیں گے۔
انسانیت سوز اور دہشت کے ماحول کے باوجود سعدی پرامید تھے
شاعر نے اپنے قول کا پاس رکھا اور وہ درست تھے۔ ان کی دوسری کتاب بوستاں کے ساتھ ان کی تصنیف گلستاں صدیوں سے فارسی ادب کے بہترین فن پاروں میں شمار کی جاتی ہے۔ سعدی نے لکھا:
بنیآدم اعضای یک پیکرند
که در آفرينش ز یک گوهرند
یعنی ‘انسان ایک جوہر سے تخلیق ہوا ہے اور وہ ایک ہی جسم کے اعضا ہیں’۔ یہ آج نہ صرف ان کی سب سے زیادہ نقل کی جانے والی نظم ہے بلکہ یہ فارسی زبان بولنے والی دنیا کی سب سے مشہور نظم بھی ہے۔ اس کے آگے وہ کہتے ہیں:
چو عضوى بهدرد آورَد روزگار
دگر عضوها را نمانَد قرار
تو کز محنت دیگران بیغمی
نشاید که نامت نهند آدمی
یعنی ‘اگر کسی عضو کو تکلیف ہو تو باقیوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ جو دوسروں کی تکلیف پر کوئی رنج و غم محسوس نہیں کرتے انھیں انسان نہیں کہا جاسکتا۔’
اگر قرون وسطی کے دوسرے فارسی شاعروں کو ان کی عشق و محبت کی شاعری، قدیم ایران کے ہیروز کی رزمیہ داستانوں، بہادری کے قصوں یا پھر انسانی نفسیات اور اس عظیم کائنات میں ان کے مقام کے ذکر کے لیے یاد کیا جاتا ہے وہیں سعددی کو انگریزی کے مشہور شاعر لارڈ بائرن کی زبان میں ایران کے ‘اخلاقی شاعر’ کے طورپر یاد کیا جاتا ہے۔
اپنے چاروں طرف انسانیت سوز اور دہشت کے ماحول کے باوجود سعدی کو بنی نوع انسان میں اعتماد تھا اور انھیں ان سے امید تھی۔ اور اس طرح انھوں نے اپنی تمام تر توجہ اخلاقیات اور خیرو شر کی وضاحت کرنے پر صرف کردی اور اپنے قارئین میں مزید عمدہ خصوصیات پیدا کرنے کی بات کہی۔
انھوں نے نصیحت کی کہ کسی درویش سے اس کی پریشان حالی اور قحط سالی کی پریشانی میں اس وقت تک یہ نہ پوچھ کہ وہ کیسا محسوس کرتا ہے جب تک کہ آپ اس کے زخم پر مرہم لگانے یا اس کی دیکھ بھال کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔
سعدی کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیک بخت وہ ہے جو کھاتا ہے اور دیتا یا بوتا ہے اور بد بخت وہ ہے جو خود بھی نہیں کھاتا ہے نہ دیتا ہے بلکہ جمع کرتا ہے۔
سعدی نے جس قدر اچھائی اور بھلائی کی وکالت کی ہے وہ اسی قدر عملی اور حقیقت پسندانہ مفکر بھی تھے۔ جس حالات میں سعدی زندگی گزار رہے تھے وہ ‘انتہائی متشدد اور سفاک’ دور تھا۔ فارسی ادب کے اسکالر ڈک ڈیوس نے بی بی سی کلچر کو بتایا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں۔
سعدی نے گلستان میں لکھا ‘صلح پیدا کرنے والا جھوٹ ہ مصائب پیدا کرنے والے سچ سے بہتر ہے۔’ اسی طرح انھوں نے متنبہ کیا کہ ‘کسی کی خیانت کے بارے میں کسی [شہزادہ] کو معلومات نہ دیں جب تک کہ آپ کو یہ یقین نہ ہو کہ وہ آپ کی بات کا یقین کرے گا نہیں آپ صرف اپنی ہی تباہی کہ پیش خیمہ تیار کرو گے۔
جس طرح گلستان اور بوستان میں سعدی کے زمانے کی غیر یقینی صورت حال کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے اسی طرح ان میں موجودہ وبائی بیماری کے بارے میں بھی بہت دانشمندی کی باتیں ہیں۔
اسی صدی میں اس سے قبل شاعر رومی منگولوں کے حملے سے بچ کر نکلنے میں اس وقت کامیاب ہوئے تھے جب وہ ابھی اپنے بچپن میں ہی تھے۔ اپنے آبائی شہر بلخ سے اپنے کنبے کے ساتھ مغرب کی جانب سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ یہ ایک عقل مندی والا قدم تھا۔
ایک دوسرے صوفی اور شاعر نیشا پور کے عطار اس کے فورا بعد ہی منگولوں کے ہاتھوں قتل کردیے گئے۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ سعدی نے مشرقی ایران میں منگول کے قتل عام کے فورا بعد شیراز اسی لیے چھوڑ دیا تھا؟
ڈیوس کا کہنا ہے کہ یہ پتا نہیں کہ سعدی نے اپنا آبائی شہر کیوں چھوڑ دیا۔ ‘مختصر جواب یہ ہے کہ ہمیں نہیں معلوم ‘۔
سعدی نے اپنے سفر کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اسے پورے طور پر سچ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر گلستان اور بوستان میں سعدی کا دعوی ہے کہ شام میں صلیبیوں نے انھیں اغوا کیا تھا اور انھوں نے کاشغر (موجودہ چین میں) کے علاوہ ہندوستان کا بھی دورہ کیا تھا۔
ڈیوس کا کہنا ہے کہ ‘ان کہنا کہ اسے صلیبیوں نے انھیں پکڑ لیا اور کچھ عرصے کے لیے غلام کی حیثیت سے رکھا اس بات کو ان کی اختراع کہا جاتا ہے۔
اسی طرح ، ڈاکٹر ہوما کٹوزیان کا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر یہ سعدی نے شام، فلسطین، اور جزیرہ نما عرب جیسے مقامات کا دورہ کیا ہے لیکن خراسان (یعنی مشرقی ایرانی سرزمین)، کاشغر یا ہندوستان کا دورہ نہیں کیا ہے۔
البتہ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ سعدی نے یقینا ایران سے باہر کا سفر کیا تھا اور طویل عرصے کے بعد بہت سی چیز کہنے کے لیے واپس آئے۔ ان کے الفاظ بند کوئں کے درویش کے نہیں بلکہ جہاندیدہ آدمی کے ہیں۔
سعدی نے گلستان میں خود اشارہ کیا ہے کہ ان کے کچھ قصے حقیقت پر مبنی نہیں ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے دوست کو باغ میں سیر کے دوران بتایا تھا ان کی کتاب نہ صرف تعلیم و تدریس کے لیے ہوگی بلکہ تفریح کا بھی سامان ہوگی۔
گویا کہ گلستان اور بوستاں، اگرچہ بنیادی طور پر زندگی کی رہنمائی کے لیے ہیں لیکن بعض اوقات ان میں سفرنامہ اور ایڈونچر کی کہانیاں بھی ہیں۔ ان میں قارئین لٹیروں کے گروہ، قزاق، سمندر کے ملاح، قاتلوں اور خوفناک حکمرانوں کے علاوہ دوسرے کرداروں سے بھی ملتے ہیں۔
یہاں تک کہ ان کی بعض کہانیوں کو لطیفے کے طور پر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر خاموشی کے فوائد کے باب میں سعدی نے مقدس صحیفے کے ایک خراب قاری کے بارے میں بیان کیا ہے۔
‘ایک متقی شخص قریب سے گزرا اور [تلاوت کرنے والے] سے پوچھا کہ اس کی ماہانہ تنخواہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: ‘کچھ بھی نہیں۔’ انہوں نے مزید دریافت کیا: ‘تو پھر آپ یہ مشقت کیوں اٹھائی؟’ اس نے جواب دیا: ‘میں خدا کی خاطر پڑھ رہا ہوں۔’ اس پر انھوں نے کہا کہ ‘خدا کے لیے نہ پڑھیں۔‘
جیسا کہ ڈیوڈ روزنبام نے 19 ویں صدی میں گلستان کے ایڈورڈ ریہیٹسک کے ترجمے کے تعارف میں لکھا ہے کہ [سعدی] قارئین کو یہ بھلا دیتے ہیں کہ انھین کچھ سکھایا جارہا ہے۔ سعدی کے اشعار شہد میں ڈوبی دوائيں ہیں۔’
اگرچہ سعدی نے گلستاں میں لکھا ہے کہ خاموشی کی قسم کو توڑنے کے بعد یہ ان کی پہلی کتاب تھی جو انھوں نے نتصنیف کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ بوستان اس سے ایک سال پہلے کی تصنیف ہے۔
انھیں سعدی نامہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور یہ شاعری کی کتاب دس ابواب میں تقسیم ہے۔ دوسری طرف گلستان نثر ہے جس میں بیچ بیچ میں اشعار کی چاشنی ہے۔
یہ آٹھ ابواب پر مشتمل ہے اور اس میں بھی اسی طرح کے موضوعات پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ دونوں شیراز کے سلجوقی حکمرانوں کی سرپرستی میں لکھے گئی ہیں۔ شاعر کے نام کی طرح سلطان کا نام بھی سعد تھا جس کی اس میں مدح کی گئی ہے۔
اور بہت صورتوں میں سعدی بادشاہوں اور وزیروں کے لیے مناسب طرز عمل پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ لیکن ، گیارہویں صدی کی تصنیف قابوس نامہ کے برخلاف یہ صرف حکمرانوں کی رہنمائی کے لیے نہیں۔ ڈیوس کا کہنا ہے کہ ‘گلستان اور بوستاں کا مقصد ہر ایک کے لیے آئینہ ہے۔ وہ فارسی زبان و ادب کی زندگی گزارنے کے متعلق گھریلو پند و نصائح کی قدیم روایت کا حصہ ہے۔
بوستاں میں سعدی نے قناعت پسندی، احسان مندی، فیاضی اور عاجزی جیسے مضامین کے بارے میں بیان کیا ہے۔ جبکہ گلستان میں درویشوں کی اخلاقیات، بوڑھاپے کی آزمائشوں، اور قناعت کی کہانیوں کے ساتھ ساتھ دوسرے قسم کے عام اقوال زریں شامل ہیں۔
ایک ہی قسم کے موضوعات دونوں میں پائے جاتے ہیں سعدی کے مطابق بھیک مانگنے اور کسی دوسرے کا مقروض بننے سے کہیں زیادہ بہتر تنگی کی زندگی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمیں خواہشات کے معاملے میں محتاط رہنا چاہیے کیونکہ ہم خود کو بدتر صورت حال میں لا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دوسرے پر الزام دھرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، وہ خاموشی کو سنہرا کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک روحانی دولت مادی دولت سے افضل ہے اور یہ کہ تقدیر آپ کے عہد کو کچل دیتی ہے۔ سعدی کے کچھ خیالات مذہب سے جڑے ہوئے ہیں، ان کی باتیں سیاسی طور پرہمیشہ درست نہیں۔ لیکن ان کی زیادہ تر باتیں اور ان کے مشورے زمان و مکان کی قید سے آزاد ہیں۔
حکمت
یورپ میں شہرت حاصل کرنے والے اولین فارسی شعراء میں سعدی نے فرانس اور دیگر جگہوں پر والٹیئر، ڈیڈرو، گوئٹے، اور وکٹر ہیوگو جیسے روشن خیالی اور رومانوی مصنفین پر واضح اثرات مرتب کیے۔
وکٹر ہیگو نے تو اپنی تصنیف لیس اوریئنٹلز کے تعارف میں گلستان کے اقوال بھی نقل کیے ہیں۔ جب کہ والٹیئر نے مذاقا اپنے زرتشتی ہیرو زادگ کی کہانی کے پیش لفظ کو سعدی سے منسوب کیا ہے تاہم ان کی اہم تصانیف میں سعدی کے اثرات سطحی سے کہیں زیادہ ہیں۔
ڈاکٹر مظفر بہراد نے اپنی کتاب ‘لٹریری فارچونز آف سعدی ان فرانس’ میں لکھا ہے کہ ‘سیرندیپ کا ماڈل بادشاہ ، اس کے وزیر، کامل معاشرہ، سب سعدی سے متاثر ہیں۔’ انھوں نے کہا کہ ‘والٹئر نے فلسفے کے لیے سعدید سے حقیقی رہنمائی حاصل کی ہے’ یہاں تک کہ ‘ان کے روایتی دشمن ، ایلی فیروں نے والٹئر پر تنقیدی حملے کے دوران انھیں ‘سعدی’ کے نام سے بھی مخاطب کیا ہے۔’
امریکہ میں سعدی نے رالف والڈو ایمرسن کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ ایمرسن نے شاعر (سعدی) کی شان میں اپنی نظم میں سعدی کو ‘انسانی دلوں کا دلدار’ کہا ، اور ان کی ‘حکیمانہ باتوں’ کو آفاقی کہا۔
گلستان کے فرانسس گالڈون کے ترجمے کے تعارف میں ایمرسن نے لکاھ کہ ‘اگر چہ ان کی زبان فارسی تھی لیکن وہ ہومر، شیکسپیئر، سروینٹیس، اور مونٹین کی طرح تمام اقوام عالم سے مخاطب ہیں اور وہ ہیمشہ تازہ ہیں۔’
شاید اسی وجہ سے ہی نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں ایک فارسی قالین ہے جس میں گلستان کی بنی نوع انسان کی وحدت سے متعلق مشہور قول کڑھائی کیا ہوا ہے اور جسے امریکہ کے صدر باراک اوباما نے اپنے 2009 کے ایرانی نئے سال کے پیغام میں نقل کیا ہے۔
مصنف اور سیاسی مبصر ہمان مجد کا کہنا ہے کہ ‘ایرانیوں کی شاعری سے محبت کی اس انتظامیہ میں کچھ آگاہی تھی اور ایرانی عوام کے ساتھ احترام سے بات کرنے کا خیال اوباما کا تھا۔ میں تصور کرتا ہوں کہ ان کے لکھنے والوں کی قالین سے واقفیت تھی جہاں سے انھوں نے وہ مواد حاصل کیا۔
شکر کرو کہ تم جس گدھے پر سوار ہو وہ تم نہیں جس پر لوگ سوار ہوں
گلستاں اور بوستاں نے یقینی طور پر والٹیئر اور ایمرسن کو متاثر کیا لیکن آج ہم ان سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ دراصل ان میں کافی مقدار میں ایسے پند و نصائح موجود ہیں جو کورونا وائرس وبائی مرض سے متعلق ہیں۔ بوستان میں سعدی اپنے قارئین کو محتاجوں اور ضرورت مندوں کے ساتھ فراخ دلی کی تلقین کرتے ہیں کہ ‘ایسا نہ ہو کہ آپ اجنبیوں کے دروازوں کے سامنے جانے لگیں۔
مگر دان غریب از درت بے نصیب
مبادا کہ گردی بدرہا غریب
ایک جگہ وہ کہتے ہیں ‘اگر آپ نے صحرا میں کنواں نہیں کھودا ہے تو کم سے کم مزار میں چراغ رکھ دیں۔ وہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ ہمیں اپنی سوچ سے کہیں کم چیزوں کی ضرورت ہے۔
ایک ناقد کہتا ہے کہ وہ بہتر گھر بنا سکتا ہے تو درویش کہتا ہے کہ ‘مجھے اونچی چھت کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے جو یہ گھر بنایا ہے وہ ایک رہائش کے لیے کافی ہے اور مرنے پر اسے بھی چھوڑ دینا ہے۔’
اسی طرح فارس کے شہنشاہ اردشیر پاپکان کو ان کے معالج نے ان کے خیال ‘زیستن برائے خوردن’ یعنی کھانے کے لیے جینا ہے پر ڈانٹا کہ اس کے برعکس اس کا نظریہ ‘خوردن برائے زیست’ ہونا چاہیے۔ سعدی نے ایک پیٹو کی کی حکایت بیان کی جو اپنے وزن کی وجہ سے درخت سے گر پڑا۔
سعدی اپنے سامعین کو یہ بھی مشورہ دیتے ہیں جو کچھ ان کے پاس ہے اس کے لیے انھیں مشکور ہونا چاہیے اور اس کی قدر کرنی چاہیے۔
وہ کہتے ہیں ‘صحت کی اہمیت وہ جانتا ہے جو بخار میں اپنی طاقت کھو چکا ہے۔ رات تمہارے بستر پر آرام سے لیٹے رہنے سے کیونکر لمبی ہو سکتی ہے؟’ یا ‘شکر ادا کرو اگرچہ گدھے پر سوار نہیں ہیں کیونکہ آپ وہ گدھا نہیں ہیں جس پر آدمی سوار ہوتے ہیں۔’
گلستان میں ایک حکایت ایسی بھی ہے جس میں اپنی عقل کے نہ استعمال کرنے اور آنکھیں بند کرکے ان لوگوں کے مشوروں پر عمل کرنے کے خطرات کی عکاسی کی گئی ہے جو اسے دینے کے قابل نہیں ہیں۔
آنکھوں کے عارضے کے علاج کے لیے ایک شخص نعل لگانے والے کے پاس گیا وہ جو دوا گھوڑوں کے کھروں پر استعمال کرتا تھا اس کی آنکھ پر لگا دیا جس کے نتیجے میں وہ شخص اندھا ہو گیا۔ انصاف کے لیے قاضی کے پاس گیا جس نے اس کی فریاد کو مسترد کر دیا۔
جج نے کہا: ‘اگر یہ آدمی گدھا نہ ہوتا تو وہ کسی نعل لگانے والے کے پاس نہ جاتا۔’ کہیں اس میں کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو سعدی نے اس کہانی سے لیے جانے والے سبق کو واضح کرتے ہوئے لکھا: ‘جو شخص کسی ناتجربہ کار آدمی کو ایک اہم کام سونپتا ہے اور پھر بعد میں اس پر افسوس کرتا ہے عاقلوں کے نزدیک وہ کم عقلی کا شکار ہوتا ہے۔’
سعدی کو گلستان اور بوستان تحریر کیے ہوئے بہت سے خزاں کے موسم گزر چکے ہیں لیکن جیسا کہ صدیوں پہلے شیراز واپس آنے کے بعد انھوں نے پیش گوئی کی تھی ان کی حکمت اور دانشمندی سے بھری یہ کتابیں وقت کی آزمائش پر پوری اتری ہیں۔ یہاں ایک شاندار باغ میں ان کا مزار واقع ہے جو کہ مرجع خلائق ہے۔
شاعر کے الفاظ میں: ‘پانچ دن یا چھ- ایک پھول کی زندگی مختصر ہے۔ یہ باغ بہر حال صدا بہار ہے۔’
گُل همین پنج روز و شش باشد
وین گلستان همیشه خوش باشد