’سپر ہیروز کی فلموں نے پیشہ ہی تبدیل کروا دیا‘
’پاک لیجن‘: کامک بک سیریز کے خالق عمیر نجیب جنھوں نے پاکستانیوں کی ترجمانی کرتے 12 سپر ہیروز تخلیق کیے
کراچی کے رہائشی بالاج کو اس وقت ان کے گھر والے اور علاقہ مکین ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ کہاں ہیں یہ کسی کو نہیں معلوم اور گھر کب لوٹیں گے اس بارے میں بھی کوئی کھل کر بات نہیں کرنا چاہتا۔
کہا جاتا ہے کہ دس سال پہلے ایک جنگ ہوئی تھی جس کے بعد سے وہ ’لاپتا‘ ہیں۔ حال ہی میں ایک اخبار کی شہہ سرخی میں لکھا تھا کہ ’بالاج: زندہ یا مردہ؟‘
ان کی کہانی شاید بہت سے لوگ شائع نہیں کرنا چاہیں گے لیکن اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے عمیر نجیب خان ایسے کرداروں پر مبنی ایک کامِک بک سیریز شائع رہے ہیں جس کا نام ’پاک لیجن‘ ہے۔
یہ آٹھ شماروں پر مبنی سیریز ہے جس کا مقصد ان تمام کرداروں کو سامنے لانا ہے جو ہمارے سامنے تو ہیں لیکن نظر انداز ہو جاتے ہیں۔
بالاج کا کردار بھی اسی کہانی کا حصہ ہے اور اس کی سپر پاور اپنے دماغ سے اپنی جانب آنے والے دشمن کو روکتی ہے۔
پچیس سالہ عمیر نجیب خان ایک گرافِک ڈیزائنر ہیں۔ عمیر کی کتاب ایک ایسے وقت میں آ رہی ہے جب کتابی اور فلمی کرداروں کے گرد ایک مختلف بحث چھِڑ گئی ہے۔
اپنی کامِک بک کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمیر نے بتایا کہ’جب ہم عام طور پر سپر ہیروز کی بات کرتے ہیں تو ہمارا خیال ہوتا ہے کہ وہ گوری رنگت کے دراز قد اور جسمانی طور پر مضبوط ہوں گے لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ میں ایسے کردار لکھوں۔ میں چاہتا تھا ایسے کردار ہوں جن سے ایک عام انسان خود کو جوڑ سکے۔‘
عمیر اور ان کے کردار
عمیر نے اپنے بچپن میں سپر ہیروز پر مبنی فلموں کے بجائے کارٹون دیکھیں ہیں۔
’کارٹونز میں وہی ٹام اینڈ جیری یا دیگر کارٹون دیکھے۔ لیکن سپر ہیرو مووی دیکھنے کا شوق تھوڑا بعد میں ہوا۔ اور پھر ایسا شوق ہوا کہ میں نے اپنا پیشہ ہی بدل لیا۔‘
جب عمیر انٹر میں تھے تو ان کا ارادہ انجینیئرنگ کرنے کا تھا۔ لیکن داخلہ نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے میڈیا سائنسز کا انتخاب کیا۔
عمیر نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ’جو ہوا شاید بہت اچھا ہوا، میں اب وہ کر رہا ہوں جو کرنا چاہتا ہوں۔‘
عمیر کی کامک بک سیریز ’پاک لیجن‘ میں 12 کردار ہیں۔
عمیر اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’جب ہم باہر کی سپر ہیرو فلمیں دیکھتے ہیں تو ان کرداروں کو تو سمجھ سکتے ہیں لیکن وہ ہمارے ملک کی اور ہمارے مسائل کی ترجمانی نہیں کر سکتے۔‘
اس لیے سکھر سے تعلق رکھنے والی حجابی لڑکی کا کردار لکھتے ہوئے عمیر نے 12 کردار لکھ ڈالے۔ ان سب لوگوں کا تعلق پاکستان کے چاروں صوبوں سے ہے۔ اس میں غور طلب بات یہ بھی ہے کہ یہ کردار ہر علاقے کی ترجمانی بھی کرتے ہیں۔
انھیں میں ایک کردار گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی افسون کا ہے، جو مارخور کا روپ دھار سکتی ہے اور وہ کئی سال روپوش رہنے کے بعد ایک بار پھر اپنے دشمن سے لڑنے پہاڑوں میں واپس آتی ہے۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سما انجینیئر ہونے کے علاوہ ہوا کا رُخ بدل سکتی ہیں لیکن ساتھ ہی وہ اپنے آس پاس رہنے والے لوگوں کی توقعات پر پورا اترنے کی بھی کوشش میں مصروف رہتی ہے۔
اس کے علاوہ ایک لڑکی حاجر ہے جو لاہور سے ہے۔ اور جہاں دن میں وہ اپنے تین بچوں کا خیال کرتی ہے وہیں رات میں جرم کے خلاف لڑنے سے پیچھے نہیں ہٹتیں۔
سندھ کی ماروی اپنے اوپر اوڑھی ہوئی رِّلی سے مجرموں اور دشمنوں کو مار سکتی ہے۔
لیکن اکثر اوقات کامِک بک پر لکھا جانے والا مواد سچائی کے برعکس ایک ایسی دنیا کی عکاسی کرتا ہے جہاں کچھ بھی ممکن ہے۔ اس پسِ منظر میں عمیر کے کردار سچائی سے خاصے نزدیک ہیں۔
عمیر نے اس بارے میں کہا ’ایسا نہیں ہے کہ اس کہانی میں لوگ ذہنی طور پر فرار حاصل نہیں کر سکیں گے۔ ان تمام کرداروں کے پاس پاکستان کے سماجی و ذہنی مسائل سے نمٹنے کا اور اپنے دشمنوں کا سامنا کرنے کا حل موجود ہے۔ جیسے کے ہوا کا رُخ موڑنا، رّلی کو خود پر حملہ کرنے والے کے خلاف استعمال کرنا۔‘
عمیر کا کہنا ہے کہ انھوں نے کوشش کی ہے کہ ان کرداروں کے ذریعے ملنے والے پیغامات سطحی اور نہ ہی ضرورت سے زیادہ کتابی ہوں۔
’یہ سارے لوگ اپنی رنگ و نسل، شکل و صورت کی پرواہ کیے بغیر پاکستان اور خاص کر اپنے علاقے میں ہونے والے جرائم کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت شاید مسائل کا حل بھی یہی ہے۔ کہ ہم ذہنی طور پر خود کو مضبوط کریں۔‘
پاکستان میں کامِک بک کی مارکیٹ ممکن ہے؟
پاکستان میں امریکن سپر ہیروز کی فرنچائز جیسے ڈی سی اور مارویل کی فلمیں آنے سے کامِک بکس کو ایک نئی پذیرائی اور پہچان ملی ہے اور اب پاکستان میں کم ہی صحیح لیکن ایسی دکانیں موجود ہیں جہاں کامِک بکس مل سکتی ہیں۔
مارویل کی کمالہ خان نامی سپر ہیرو کا تعلق پاکستان سے ہے۔ جس کے نتیجے میں باہر ملکوں میں رہنے والے پاکستانی خود کو اس کردار کے قریب محسوس کر سکتے ہیں۔
حال ہیں میں برطانیہ کے مشہور جاسوس شرلاک ہولمز کی بھی کامِک بُک سیریز شائع ہوئی ہے، جس کا پاکستان میں اس کے مداح بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ چونکہ یہاں یہ کتابیں آسانی سے نہیں ملتیں اس لیے لوگ ان کتابوں کو باہر سے منگواتے ہیں یا آن لائن آرڈر کروا لیتے ہیں۔
عمیر کا کہنا ہے کہ یہ کردار لکھتے ہوئے ان کے دماغ میں یہ بات چل رہی تھی کے ان کتابوں کی مارکیٹ بہت مختصر ہے۔
’لیکن میں بہت حیران ہوا تھا کہ اتنی توجہ مل رہی ہے۔ یہاں تک کہ ابھی ہم آرڈرز جمع کر رہے ہیں تو امید سے زیادہ آرڈرز آ رہے ہیں۔‘