بڑھاپے کے مختلف انداز
ان جائیدادوں اور ماضی کے عہدوں کا کیا فائدہ کہ اس عمر میں بھی آپ احتساب عدالتوں کی پیشیاں بھگت رہے ہوں۔ ایک صدرِ پاکستان رہ چکے ہیں دوسرے تین بار وزارت عظمیٰ کے عہدے تک پہنچے۔ ان کی زندگیاں سوال اُٹھاتی ہیں کہ انسان کتنے پہ راضی ہو جاتا ہے، کتنا اس کیلئے کافی ہوتا ہے۔ جائیدادوں کی فہرست بنائیں تو کم ازکم ایک صفحہ ناکافی ہو‘ لیکن اتنا بنانے کا فائدہ کیا کہ طرح طرح کے بیہودہ الزامات آپ پہ لگ رہے ہوں۔
کھانا تو آدمی نے وہی دو ٹائم کا کھانا ہوتا ہے۔ کسی اور چیز کی بات کرتے نہیں کیونکہ کسی اور چیز کا ذکر ہمارے ہاں کانوں پہ اچھا نہیں ٹھہرتا‘ لیکن انسان کے دیگر شوق بھی ہوں تو کتنا کر سکتا ہے۔ پبلک لائف میں‘ میں بھی ایک ادنیٰ حیثیت سے کچھ عرصہ رہا ہوں۔ اس دوران رشوت کی اتنی بڑی آفرز تو آئی نہیں لیکن ایک آدھ مرتبہ پیسے بنانے کی ترغیبات ضرور دی گئیں۔ میرا جواب یہ تھا کہ ایسی ترغیبات پہ میں عمل ضرور کروں اگر مجھے تین چیزوں کی گارنٹی مل جائے۔ پہلا یہ کہ یہ جو میں ایک ٹائم ایک روٹی کھاتا ہوں میں دو کھا سکوں اور یہ طبیعت پہ گراں نہ گزرے۔ دوسرا یہ کہ شام کے کھانے سے پہلے جو کبھی کبھار تھوڑا شغل ہو جاتا ہے‘ میں اتنا کر سکوں کہ سر نہ چکرائے‘ نہ ہی طبیعت بوجھل ہو۔ تیسرا یہ کہ اُس خاص میدان میں جس کے بارے میں شاعر لکھتے ہیں میں اتنا رستم ہو جاؤں کہ میرے چرچے ہونے لگ پڑیں کہ کیا کمال کا شاہسوار ہے۔ اگر وہی ایک روٹی کھانی ہے اور باقی لوازمات میں قناعت ہی برتنی ہے تو پیسے کے حوالے سے اتنے ہاتھ پیر مارنے کا فائدہ کیا؟
ایک انداز ہونا چاہیے بڑی عمر گزارنے کا۔ بغیر پیسے اور وسائل کے تو انسان ذلیل ہوتا ہے‘ لہٰذا یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اتنے ضرور ہونے چاہئیں کہ آپ کی تما م ضروریات آسانی سے پوری ہو سکیں۔ ہسپتال جانا پڑے تو دِقت نہ ہو۔ اولاد مانگے تواُس کی ضروریات پوری ہوسکیں۔ سیروتفریح کیلئے کچھ کرنا پڑے تو وہ انسان کرسکے۔ عشق وِشق کا چکر بڑی عمر میں ختم نہیں ہوتا۔ اُس شعبے کی بھی ضروریات پوری کرنی ہوں تو انسان کرسکے۔ زیادہ دولت ہونا بہت اچھی بات ہے لیکن ذلالت کے ساتھ تو نہ ہو۔ میری صرف اتنی استدعا ہے کہ عدالتوں کی پیشیاں اس عمر میں ذلالت کے زمرّے میں آتی ہیں۔ یا تو آپ نیلسن منڈیلا ہوں کہ قوم کی تقدیر کی خاطر آپ مصیبتیں سہہ رہے ہوں۔ یہاں توایسی کوئی بات ہے نہیں۔ یہاں کا تو قصہّ ہی یہ رہا ہے کہ جائز وناجائز دولت اکٹھا کرواور کرتے ہی جاؤ۔ کوئی حد ہونی نہیں چاہیے۔ بدنامی راستے میں آئے تو بیشک آئے، آپ نے باز نہیں آنا۔ آپ کی روشوں نے تبدیل نہیں ہونا۔ لیکن ڈھٹائی ساتھ ہی ساتھ اتنی ہو گی کہ عوام کے سامنے آنا پڑے تو ندامت نام کی چیز ذرہ برابر بھی محسوس نہ ہوگی۔
بڑے عہدوں پہ جورہے ہوں‘ انہیں عمر کے ایک حصے میں یہ خیال آتا ہے کہ آنے والی نسلیں انہیں کیسے دیکھیں گی۔ یہاں یہ خیال ہے ہی نہیں۔ آنے والے وقت بھاڑ میں جائیں، جو ہے بس یہی سامنے کا وقت ہے، اس میں جو کرسکو مال اکٹھا کرنے کیلئے کرتے رہو اور کبھی بھی نہ رکو۔ جس حکمران طبقے اوراس کی کلیدی شخصیات کے ایسے خیالات ہوں اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ ایسے اشخاص سے کوئی امید باندھی جاسکتی ہے؟ لیکن بدنصیب قوم، اس کے سامنے لیڈر ہی ایسے رہے ہیں۔ اس کے نصیب میں کوئی اور قسم کے لیڈر آئے ہی نہیں۔
قوموں کی زندگی میں 73 سال اتنا لمبا عرصہ نہیں ہوتا‘ لیکن اتنا کم بھی نہیں۔ ہندوستان کے دیگر حصوں پہ انگریز کی حکومت زیادہ رہی لیکن یہ جو موجودہ پاکستان کا علاقہ ہے اس پہ انگریز کی حکمرانی 98 سال ہی رہی یعنی اینگلو سکھ جنگوں کے بعد پنجاب پہ انگریز کا قبضہ 1849ء میں ہوا اور انگریز یہاں سے 1947ء میں چلے گئے۔ انگریز راج کی نشانیاں تقریباً ہر شعبۂ زندگی میں اب بھی موجود ہیں۔ قانون انہوں نے بنائے، انتظامی ڈھانچہ انہوں نے کھڑا کیا، ریلوے کی لائنیں بچھائیں، دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام دیا۔ تھانوں سے لے کر ہائیکورٹوں کے نظام تک سب کچھ انہوں نے بنایا۔ بڑے ہسپتال اُن کے، کالج اور یونیورسٹیاں اُن کی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہماری اجتماعی سوچ پہ وہ گہرے نشانات چھوڑ گئے۔ یہ سب کچھ انہوں نے 98 برسوں میں کیا۔ پوچھنے کی بات تو یہ ہے کہ 73 برسوں میں ہم نے کیا کیا۔ 73 اور 98 میں اتنا زیادہ فرق تو نہیں۔ ہمارے کون سے کارنامے ہیں جو انگریز دور کی نشانیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟
ایک طبقہ انگریزوں کا تھا جس نے برصغیر میں مختلف ذریعوں سے بہت لوٹ مارکی لیکن اُن کا حکمران طبقہ جو یہاں رہا‘ وہ ایسی لوٹ مار کا حصہ نہیں بنا۔ زیادہ تر وائسرائے جو آئے اُن کا بڑے گھرانوں سے تعلق تھا۔ برطانیہ کی فیوڈل اشرافیہ کے ارکان تھے۔ وارن ہیسٹنگز (Warren Hastings) پہ کرپشن کے شدید الزامات لگے لیکن وہ گورنر جنرل بنگال تھے جب انگریز حکمرانی بنگال تک محدود تھی۔ جو بعد کے وائسرائے آئے کسی ایک پہ بھی تاریخ کے اوراق کرپشن کے الزامات نہیں لگاتے۔ یہ درست ہے کہ بیشتر وائسرائے ایسے رہے جن کے پاس خاندانی اعتبار سے پہلے ہی بہت کچھ تھا۔ اس لئے یہ کہاجا سکتاہے کہ انہیں کرپشن کی کیا ضرورت تھی۔ بڑے انگریز عہدیداروں کی مراعات بھی بہت ہوتی تھیں۔ لیکن ہمارے جو لیڈر رہے ہیں اور جن پہ کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں، کیا وہ اقتدار سے پہلے کسمپرسی کی زندگیاں گزار رہے تھے؟ اُن کے پاس بھی بہت کچھ تھا لیکن وہ کبھی کسی چیز پہ راضی ہی نہ ہوئے۔ فر ق کس چیز کا ہے؟ کردار اور سوچ کا۔ نتیجہ یہ اخذ ہواکہ ہمارا کردار ہی پست رہاہے۔ جب لوٹ مارکی روش اتنی پھیل جائے اورصرف اوپر کے حکمرانوں تک محدود نہ رہے بلکہ اُس کی سُرعت سارے معاشرے میں ہو جائے تو اس معاشرے کے کردار کے بارے میں کیا کہاجائے گا؟ ایسے معاشرے سے پھر کوئی خیر کاپہلو نکلتاہے؟
فوج کا نظام بھی سارا انگریزوں کا دیا ہواہے۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کی تشکیل انڈین ملٹری اکیڈمی ڈیرہ ڈون کی طرز پہ ہوئی۔ ڈیرہ ڈون کو بنانے والے انگریز حکمران تھے۔ جب ہم کاکول گئے تو سب سے پہلا سبق ہمیں یہ بتایا گیاکہ افسر کا کریکٹر ہونا چاہیے۔ باقی سب چیزیں بعد کی ہیں۔ کسی مضمون میں کمزوری تو برداشت کر لی جاتی تھی لیکن دو چیزوں کیلئے کوئی معافی نہ تھی، ایک جھوٹ دوسرا کسی قسم کی دھوکہ دہی (جسے ہم انگریزی میں چیٹنگ ‘cheating‘ کہتے ہیں) آپ نے جھوٹ بولا اور جھوٹ پکڑا گیا تو آپ اکیڈمی سے فارغ۔ کوئی لمبی دوڑ ہے اور آپ نے چپکے سے کوئی شارٹ کٹ لے لیا اور آپ پکڑے گئے تو آپ کیلئے کوئی معافی نہیں۔ وہ کیا سبق تھے جو ہمیں سکھائے گئے اور بعد میں ہم نے اپنی زندگیوں میں کیا کچھ نہیں دیکھا۔ یہاں تو لگتا یوں ہے کہ مملکت کی دو ہی بڑی خصوصیات ہیں، جھوٹ اور دھوکہ دہی۔
ماؤنٹ بیٹن سے پہلے وائسرائے لارڈ ویول تھے۔ جب اُن کا عہدِ حکمرانی ختم ہونے جارہا تھا‘ اپنی یادداشتوں میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ہم اب انگلینڈ واپس جانے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ وہاں ہمیں ایک پرابلم ہوگا کہ اپنے لئے مناسب گھر ڈھونڈنا ہوگا۔ یہ نہیں کہ اُن کے پاس پیسے نہیں تھے لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ وہ کمانڈر انچیف افریقہ رہے اور پھر وائسرائے ہند اور ان کے پاس برطانیہ میں کوئی جائیداد نہ تھی۔ گھر لینا اُن کے لئے مشکل نہ ہوگا‘ لیکن پہلے سے کوئی لمبی چوڑی جائیدادیں انہوں نے نہ بنا رکھی تھیں۔ ہمارے میں سے کوئی کمانڈر انچیف نارتھ افریقہ ہوتا تو کیا شان و شوکت ہوتی۔