ٹیلی ویژن بہت کم دیکھتا ہوں۔ کبھی نیوز بلیٹن پر نظر ڈال لیتا ہوں یہ جاننے کے لیے کہ آج کل کون سی خبر سنانے کی اجازت ہے اور کون سی منع ہے۔
خبروں سے زیادہ اشتہاروں کے لیے ٹی وی دیکھتا ہوں کہ اندازہ ہوتا رہے کہ آج کل مارکیٹ میں کون کیا بیچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کورونا آیا کورونا گیا لیکن لگژری فلیٹ، سستے فون اور مرغی کے گوشت سے بنی ہوئی عجیب و غریب اشیا اب بھی بک رہی ہیں یا بیچنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
ایک دن نیوز بلیٹن دیکھنے کے چکر میں ٹی وی چند منٹ پہلے آن کر لیا تو ایک انتہائی بزرگ اور معتبر صحافی ایک قدیمی سودا بیچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ میں نے بڑے عرصے سے کسی کو سنجیدہ چہرے کے ساتھ اس طرح کی بات کرتے نہیں دیکھا کہ ’ہم نے جنرل ضیا الحق کی قدر نہیں کی۔‘
بلکہ میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ اب کوئی نام ہی نہیں لیتا۔ جو جنرل ضیا الحق کے دسترخوان پر متواتر مہمان تھے وہ بھی اُن کا نام آئے تو موضوع بدل دیتے ہیں۔
میری اور میرے سے سینیئر نسل کے صحافیوں اور لکھاریوں کی کئی دہائیوں تک جنرل ضیاالحق پر سوئی اٹکی رہی، جو ’زندہ ہے بھٹو‘ کا نعرہ لگاتے ہیں سوئی اُن کی بھی جنرل ضیا پر ہی اٹکی ہوتی تھی۔ ہم لوگ ہر سیاسی تجزیہ، ہر سماجی رویہ جنرل ضیا کی مونچھوں میں ڈھونڈ لیتے تھے۔
ہمیں لگتا تھا کہ ہماری تاریخ شروع ہی اسی دن سے ہوئی جس دن جنرل ضیا نے اپنے فوجی بوٹ سے ٹھڈا مار کر ہماری کچی پکی جمہوریت کا چھابہ پلٹ دیا۔ ہم ایک دوسرے کو یہ بتاتے تھے کہ اس سے پہلے پاکستان روشن خیالوں کی جنت تھا۔
اس کے ثبوت کے طور پر ہم پاکستان ایئر لائنز کی فضائی میزبانوں کی وردیاں، کراچی کے چند بار، کیبرے اور افیم کے ٹھیکے پیش کرتے تھے۔ ہم یہ بھی سمجھتے تھے کہ پاکستان اور سوشلزم کی بننے جا رہی تھی جہاں مزدور کے ہاتھ اور آجر کے گریبان میں بس ایک نعرے کا فاصلہ تھا۔
ہم اپنی اس فرضی جنت کے مناظر بیان کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ جنرل ضیا کے بوٹوں کی دھمک سے کوئی پانچ سال پہلے ہی ہم ملک کے مشرقی حصے میں ایک قتل عام نما جنگ میں جُتے ہوئے تھے اور ملک کا آدھا حصہ گنوا کر بھی ہم اپنے آپ کو فاتح سمجھتے تھے اور امت مسلمہ کی رہبری کرنے کے خواب دیکھتے تھے۔
ضیا سے پہلے اور ضیا کے بعد کے پاکستان کا رونا روتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ ملک کو مردِ واحد نہیں چلا سکتا چاہے وہ فوج کا سپہ سالار ہی ہو اور آئین کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتا ہو۔
یقیناً چند صحافیوں نے کوڑے کھائے لیکن کتنے صحافیوں نے تلوے چاٹے؟ سیاستدان پھانسی پر جھومے، شاہی قلعے کے عقوبت خانوں میں رہے لیکن ان سے کتنے زیادہ تھے جو سیاسی کارکنوں کی لاشوں کو روندتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے۔
افغان جہاد سے ضیا الحق نے صرف اپنے اور اپنے ساتھیوں کی جیبیں نہیں بھریں بلکہ اسلام آباد اور کراچی کے اکثر محل اس جہاد کی برکت سے کھڑے ہوئے۔ مدرسے والوں اور عمامہ پوشوں نے یقیناً اپنا حصہ وصول کیا لیکن اپنے آپ کو سیکولر سمجھنے والے سیٹھوں اور ان کے ساتھ ساتھ ادیبوں، لکھاریوں اور شاعروں نے بھی اپنا اپنا چوگہ چُنا۔
ہمارے بزرگ صحافی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہم سب نے ضیا الحق کے دسترخوان سے کھایا اور پھر نمک حرامی کی۔ نہ ان کے نام پر کوئی شہر بنایا نہ ان کے نام پر کوئی بڑی سڑک نہ ایئر پورٹ، نہ ان کے ’یومِ شہادت‘ پر سرکاری چھٹی۔ ہم نے تو یہ جاننے کا تردد بھی نہیں کیا کہ ہمارے محبوب صدر کا قاتل کون تھا۔
ہمارا سیاسی سفر جنرل ضیا سے پہلے بھی جاری تھا اور ان کے بعد بھی جاری ہے۔ ضیا کے زمانے میں بلدیاتی انتخابات کے ذریعے سیاستدانوں کی جو نئی کھیپ تیار کی گئی انھیں مذاق سے۔۔۔۔ممبر کہتے تھے، آج بھی منتخب نمائندوں کو یہی طعنہ ہے کہ محلے کا کچرہ اٹھا نہیں سکتے، افغان پالیسی کیسے چلاؤ گے؟
نظریاتی طور پر بھی ہمارا سفر جاری ہے۔ پہلے ہم رونا روتے تھے کہ جناح کا پاکستان ضیا کا پاکستان ہو گیا پھر کچھ عرصے کے لیے حق نواز جھنگوی کا پاکستان ہوا، آج کل آثار یہ ہیں کہ خادم رضوی کا پاکستان بن گیا ہے۔ طاقت کے اصل مراکز ہل کے نہیں دیے۔
جنرل ضیا الحق کو لگا ملک ان کے بغیر نہیں چل سکتا تو ایک ملک گیر تماشہ لگا کر ریفرینڈم کرایا گیا۔ پوچھا گیا کہ اسلام چاہتے ہو تو میں پانچ سال اور بیٹھوں گا۔
موجودہ سپہ سالار کو لگا کہ ملک ان کے بغیر نہیں چل سکتا تو انھیں کسی سے کچھ نہیں کہنا پڑا سب ان کے تیور دیکھ کر ہی سمجھ گئے اور سترہ منٹ کے اندر حکومت، اپوزیشن، دائیں، بائیں اور پتا نہیں کدھر سے آتے سب سیاستدانوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ ملک آپ کے بغیر چل ہی نہیں سکتا۔
اب سپہ سالار یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ تم اپنے محلوں کا کچرہ تو اٹھا نہیں سکتے، سعودی عرب سے دوستی کا بوجھ کیسے اٹھاؤ گے، میں ہی کچھ کرتا ہوں۔