انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان ساؤتھیمپٹن کے ایجس بول سٹیڈیم میں جاری دوسرا میچ جس ایک وجہ سے سب سے زیادہ یاد رکھا جائے گا وہ ہے موسم۔ بارش اور ناقص روشنی جیسے مسائل کی وجہ سے اس میچ کا مزہ کرکرا ہو گیا۔
یہ 1987 کے بعد انگلینڈ میں کھیلا جانے والا سب سے مختصر میچ تھا۔ موسمی حالات کی وجہ سے بار بار میچ روکے جانے کی وجہ سے میچ کا کسی بھی قسم کا مثبت نتیجہ اخذ کرنا ناممکن ہو گیا۔
خراب روشنی کی وجہ سے کھیل رک گیا اور کھلاڑیوں کو سٹیڈیم سے باہر جانے کو کہا گیا، لیکن حکام کی طرف سے کھلاڑیوں کو واپس میدان میں لانے پر سستی کرنے پر کافی بحث ہوئی ہے۔
اس صورتحال کے لیے کرکٹ شائقین اور تجزیہ کاروں نے ’حیران کُن‘ اور ’ذلت آمیز‘ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
اس غم و غصے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کیونکہ شائقین کورونا وائرس کی وجہ سے کرکٹ کے دوبارہ شروع ہونے کا انتظار کر رہے تھے اور کرکٹ کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے بہت زیادہ جتن کیے گئے تھے۔
بے شک یہ کرکٹ کے لیے ایک اچھی صورتحال نہیں۔ لیکن اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کیا اقداممات کیے جا سکتے ہیں؟
زیادہ روشن فلڈ لائٹس کا استعمال
خراب روشنی کرکٹ کی دنیا کا سب سے پرانا مسئلہ ہے۔ حالیہ برسوں میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فلڈ لائٹس یعنی کہ میدان میں لگی مصنوعی روشنی کا سہارا لیا گیا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اگر مصنوعی روشنی، قدرتی روشنی کے مقابلے میں زیادہ ہو جاتی ہے تب بھی کھیل روک دیا جاتا ہے۔
بی بی سی کے کرکٹ کے صحافی جانتھن اگنیو کہتے ہیں کہ مصنوعی روشنی کو بہتر بنانا اس مسئلے کو حل کرنے میں پہلا قدم ہونا چاہیے۔ جبکہ انگلش بیٹسسمین جو روٹ کہتے ہیں کہ مصنوعی روشنی کے حوالے سے دنیا بھر میں ایک معیار طے کیا جانا چاہیے۔
ایگنیو کہتے ہیں کہ ‘جب مصنوعی لائٹیں لگائی گئی تھیں تب یہ اپنے طرز کی سب سے جدید تھیں لیکن ٹیکنالوجی میں تیزی سے بہتری آنے کے بعد اب ایسا نہیں ہے۔’
ان کا کہنا ہے کہ ‘ٹیسٹ میچوں میں جدید اور طاقتور فلڈ لائٹس ہونی چاہیے اور جنھیں آپ کھیل کو اپنے اختتام تک پہنچانے تک استعمال کرسکیں۔‘
ہیمپشائر کاؤنٹی کرکٹ کلب کے چئیرمین روڈ برینسگرؤ کہتے ہیں کہ میدان میں لگی فلڈ لائٹس موزوں ہیں لیکن انھوں نے ان میں ‘واٹیج بڑھانے‘ کے بارے میں غور ضرور کیا ہے۔ واٹیج بڑھانے کا مطلب ہے کہ یہ زیادہ روشن ہوں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘میں نے ان فلڈ لائٹس کے بارے میں براہ راست کوئی شکایت نہیں سنی۔ اصل مسئلہ ردعمل ہے یعنی کہ آپ کب انھیں استعمال کر رہے ہیں۔ کس نہج پر ہمیں ان کو چلائیں۔ یہی مسئلے کی جڑ ہے۔‘
کھیل کے اوقات میں لچک اور تبدیلی
ویسے تو اس مسئلہ کا آسان حل یہ ہے کہ آپ کھیل کے اوقات میں تبدیلی کر کے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔
انگلینڈ میں موسم کو نظر انداز کرتے ہوئے کھیل کا آغاز عموماً صبح گیارہ بجے ہوتا ہے۔ اس کی وجہ، نشریاتی اداروں کے اوقات اور مداحوں کی کھیل کے میدان تک رسائی کا عمل بتایا جاتا ہے۔
لیکن ساؤتھیمپٹن میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان چوتھے دن جب میدان میں کوئی نہیں تھا تو نو بجے سے گیارہ بجے تک کرکٹ کھیلی جاسکتی تھی کیونکہ موسم صاف تھا۔
دوپہر 12 بجے کے قریب بارش ہونا شروع ہو گئی اور کھلاڑی صرف دس اوورز کے کھیل کے بعد پوویلین واپس لوٹ گئے۔ اس کے بعد پورے دن بارش کی وجہ سے ایک بھی اوور نہیں ہو سکا۔
مائیکل وان کہتے ہیں کہ ’یہ کتنا اچھا ہو کہ حکام کہیں کہ کھیل کا وقت ضائع ہوا ہے اور کل ہم ساڑھے دس بجے کیھل شروع کریں گے۔‘
انگلش خواتین کرکٹ ٹیم کی سابق بولر ایسا گوہا کہتی ہیں کہ ’گالف میں موسم کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کھیل کے اوقات میں تبدیلی کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں نشریاتی ادارے بھی خاص طور پر موجودہ صورتحال میں لچکدار ہیں ہونا پسند کریں گے۔‘
’یہاں پر یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ انگلش کنڈیشنز میں اوس پڑتی ہے۔ لیکن پھر بارش کے بعد بھی تو نمی ہوتی ہے۔ آپ کو اس سے نمٹنا ہو گا۔‘
مختلف گیند کا استعمال
کرکٹ میں خراب روشنی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے جس چیز پر سب سے زیادہ بحث ہوتی ہے وہ ہے گیند کا رنگ۔ روایتی لال گیند کو کم روشنی والی صورتحال میں مصنوعی روشنی کی موجودگی میں بھی دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ڈے نائٹ ٹیسٹ کرکٹ میں پنک بال یعنی کے گلابی رنگ والی گیند استعمال کی جاتی ہے۔اور سابق انگلش کپتان مائیکل وان کہتے ہیں کہ انھیں خراب رروشنی کی صورت میں ہر ٹیسٹ میں استعمال کیا جانا چاہیے۔
انگلش کامنٹیٹر سائمن مین کہتے ہیں کہ ‘گلابی رنگ کی گیند کو خراب روشنی کی صورت میں استعمال کرنے کے طریقے کار کو تجرباتی طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ جیسے ہی روشنی بہتر ہوئی آپ واپس لال رنگ کی گیند استعمال کریں۔‘
‘مجھے پتا ہے کہ اس بات کو سب پسند نہیں کریں گے لیکن خراب روشنی کا مسئلہ کل کی بات ہونی چاہیے۔ ہمیں وہ حل ڈھونڈنے چاہیے جس سے کھیل میں اضافہ ہو نا کہ کمی‘
انگلینڈ کی طرف سے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بالرز سٹوئرٹ براڈ اور جیمز انڈرسن نے دوسرے ٹیسٹ کے دوران کہا کہ وہ گیند کو بدلنے کے حق میں نہیں۔
گلابی گیند پورے ٹیسٹ میں استعمال ہو یا کچھ دیر کے لیے، اس بارے میں جاری بحث ایک طرف۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ گلابی گیند، لال گیند کے مقابلے میں زیادہ نرم ہوتی جاتی ہے اور اس کی شکل تیزی سے بگڑتی ہے۔
اگنیو کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں گلابی رنگ مسئلہ کا حل نہیں۔ ‘لال گیند کے بارے میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کھیل کا معیار اس سے بہت اچھا ہوتا ہے۔‘
سوچ میں تبدیلی
کرکٹ امپائرز خراب روشنی کے دوران کھیل روکنے کی مرکزی وجہ جو بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ میچ جاری رکھنے سے کھیل ‘خطرناک‘ ہو سکتا ہے۔
سابق انگلش سپنر فل ٹفنل کہتے ہیں کہ کھلاڑیوں کی حفاظت اولین ترجیع ہے لیکن کھلاڑیوں کے حفاظتی سامان کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے خراب روشنی میں کھیل جاری رکھنا چاہیے۔
‘اگر بہت زیادہ اندھیرا ہو گیا ہے تو کھیل روک دیا جانا چاہیے۔ بعض اوقات روشنی میں کمی ہو جاتی ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو آپ کو کھیل جاری رکھنا چاہیے۔ ہم ایک خطرناک کھیل کھیلتے ہیں، جب میں صبح ساڑھے بارہ بجے کڑی دھوپ میں کرٹلے ایمبروز کا سامنا کرنے جاتا تھا تو یہ بھی خطرناک تھا۔‘
امپائر پہلے دن کے کھیل کے اختتام پر جب کھلاڑی میدان سے نکل رہے ہوتے ہیں تب اپنے لائٹ میٹر سے ریڈنگ لیتے ہیں اور پھر یہی معیار اگلے چار دن تک خراب روشنی کو جانچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
سابق انگلش ٹیسٹ کھلاڑی مارکس ٹریسکوتھک کہتے ہیں روشنی کو جانچنے کے معیار میں کمی کی جانی چاہیے۔ ‘یہ بات بہت احمقانہ ہے کہ ہم ڈے نائٹ کرکٹ کھیلتے ہیں لیکن جب لال رنگ کی گیند سے کھیلتے ہوئے لائٹیں آن کی جاتی ہیں تو ہم کھیل ختم کر دیتے ہیں۔‘
ٹفنل کا کہنا ہے کہ امپائر اور کھلاڑیوں کی سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں: پرانے دنوں میں ہم بہت زیادہ کرکٹ کھیل رہے تھے۔ ایک روزہ، ٹیسٹ اور تین روزہ کرکٹ۔ اتنی زیادہ کرکٹ کھیلنے کے بعد جیسے ہم تھوڑی بہت کم روشنی دیکھتے کھیل کے دوران تو ہم کہتے کہ ’چلو چلتے ہیں، ہم تھک گئے ہیں۔ لیکن سینٹرل کانٹریکٹ معتارف کروانے کے بعد اب ٹیسٹ کرکٹ مرکزی چیز ہے۔ اس کی بہت اہمیت ہے۔ رویے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انھیں تھوڑا زیادہ پرجوش ہونا چاہیے۔ باہر نکلیں اور کھیلنا شروع کریں۔ بس کھیلیں۔‘
مالی جرمانے عائد کیے جائیں
گذشتہ ہفتے اس موضوع کے شے سرخیوں میں ہونے کے باوجور مائئکل وان کہتے ہیں کہ جب تک اس میں پیسہ شامل نہیں ہو گا تب تک کچھ نہیں کیا جائے گا۔ ان کا مشورہ ہے کہ اگر کھیل کا کچھ حصہ خراب روشنی کی وجہ سے مکمل نہیں ہو پایا تو منتظمین نشریاتی اداروں کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ نشریاتی اداروں کے ساتھ کیے گئے معاہدے بہت منافع بخش ہوتے ہیں۔
‘اگر ٹی وی کے سارے مالکان، جو رقم کی ادائیگی کے چیک پر دستخط کرتے ہیں، وہ ایک ساتھ مل کر یہ فیصلہ کریں کہ خراب روشنی کی صورت میں ہمیں ہمارا پیسہ واپس چاہیے تو میں آپ کو یقین سے کہتا ہوں کہ اس مسئلے کا حل بہت جلدی نکل آئے گا۔‘
اس مسئلے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بحث میں اتنا وقت ضائع ہو چکا ہے کہ ایک بات تو طے ہے، اس پہیلی کا حل اتنی آسانی سے نہیں ملے گا۔