دنیابھرسے

رفیق حریری کی ہلاکت: لبنان کے سابق وزیر اعظم کے قتل کے مقدمے میں ایک شخص مجرم قرار، تین بری

Share

لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے 2005 میں قتل کے مقدمے میں نامزد چار ملزمان میں سے ایک کو اقوامِ متحدہ کی حمایت یافتہ خصوصی عدالت نے مجرم قرار دیا ہے۔

سلیم عیاش کو دہشتگرد حملے کی سازش کا مجرم پایا گیا جس میں حریری اور دیگر 21 افراد ہلاک ہوئے، اس کے علاوہ انھیں 226 دیگر افراد کے قتل کی کوشش کرنے کی سازش کا مجرم بھی پایا گیا۔

چاروں ملزمان، سلیم جمیل عیاش، حسن حبیب مرہی، حسین حسان اونیسی اور اسد حسان سابرا کے بارے میں معلومات نہیں ہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ ملزمان کا تعلق لبنان کے شیعہ گروپ حزب اللہ سے ہے اور ان پر غائبانہ مقدمہ نیدرلینڈز کے شہر ہیگ میں ایک خصوصی ٹرائبیونل میں چلایا گیا۔

ان چاروں نے اس مقدمے پر کوئی تبصرہ بھی نہیں کیا ہے لیکن عدالت کی جانب سے ان کے متعین کردہ وکلا نے ان پر چلائے گئے مقدمے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ صرف واقعاتی شہادت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان چاروں پر مقدمہ چلایا گیا ہے اور اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ چاروں حقیقتاً، بغیر کسی شک و شبہ کہ اس واقعے میں ملوث ہیں۔

ججز نے کہا کہ عیاش کے پاس اُن چھ میں سے ایک فون تھا جو حریری کا قتل کرنے والی ٹیم نے استعمال کیے تھے۔

دھماکہ
،تصویر کا کیپشناس دھماکے میں 220 افراد زخمی ہوئے تھے

حسن حبیب مرہی، حسین حسان اونیسی اور اسد حسان سابرا کو خصوصی ٹریبونل نے بری کر دیا۔

اس کے علاوہ مصطفیٰ بدرالدین نامی پانچویں شخص جو حزب اللہ کے عسکری ونگ کے کمانڈر تھے، انھیں سنہ 2016 میں شام میں ہلاک ہونے کے بعد ملزمان کی فہرست سے خارج کر دیا گیا تھا۔

استغاثہ نے انھیں حریری کے قتل کے ’آپریشن کا مجموعی کنٹرولر‘ قرار دیا تھا۔

جج ڈیوڈ رے نے یہ بھی کہا کہ اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں کہ حزب اللہ کی قیادت یا اس کے سرپرستوں میں سے ایک ملک شام اس حملے میں ملوث تھے۔

رفیق حریری
،تصویر کا کیپشنرفیق حریری لبنان کے ایک معروف سنی سیاستدان تھے اور اپنی موت سے قبل وہ شام سے مسلسل مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ لبنان سے اپنی فوجیں واپس بلا لے

مقدمہ ہے کیا؟

سنہ 2005 میں 14 فروری کی صبح لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق حریری، جو اس وقت ممبر پارلیمان تھے، اپنے کاروان کے ساتھ بیروت کے معروف سینٹ جارج ہوٹل کے پاس سے گزر رہے تھے جب ایک وین میں دھماکہ ہوا جس سے نزدیکی عمارتیں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔

رفیق حریری لبنان کے ایک معروف سنی سیاستدان تھے اور اپنی موت سے قبل وہ شام سے مسلسل مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ لبنان سے اپنی فوجیں واپس بلا لے جو کہ 1976 سے خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے وہاں تھیں۔

ان کی موت کے بعد ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین جمع ہو گئے اور اس وقت کی لبنان کی حکومت کے خلاف احتجاج کیا جو شام کی حمایتی تھی۔

اس ہلاکت کے دو ہفتے بعد حکومت مستعفی ہو گئی اور اپریل میں شام نے اپنی فوجیں ملک سے واپس بلا لیں۔

اقوام متحدہ اور لبنان نے شواہد جمع کرنے کے بعد سنہ 2007 میں ایس ٹی ایل قائم کیا تاکہ اس دھماکے میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جائے اور چار افراد پر ان کی غیر موجودگی میں ٹرائل کیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے اس دھماکے کی سازش تیار کی تھی۔

حریری کے حمایتی
،تصویر کا کیپشنحریری کی موت کے بعد ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین جمع ہو گئے اور اس وقت کی لبنان کی حکومت کے خلاف احتجاج کیا جو شام کی حمایتی تھی

حزب اللہ کے کمانڈر مصطفیٰ امین بدر الدین بھی ملزمان کی فہرست میں شامل تھے لیکن سنہ 2016 میں انھیں شام میں قتل کر دیا گیا جس کے بعد ان کا نام ملزمان کی فہرست سے نکال دیا گیا۔

حزب اللہ کے حامی اس ٹرائل کو مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سیاسی طور پر غیر جانبدار نہیں ہے۔

اس حملے کے بعد شام میں حزب اللہ کی پشت پناہی کرنے والوں نے 29 سال کے بعد لبنان سے اپنے فوجی واپس بلا لیے۔

تاہم حزب اللہ اور شام کی حکومت نے باضابطہ طور پر اس حملے میں ملوث ہونے کی ہمیشہ تردید کی ہے۔

لبنان کی تاریخ میں یہ انتہائی اہم واقعہ تھا جس کے بعد کئی گروہوں نے آپس میں مفاہمت کی اور اس سے لبنان کے سیاسی منظر نامے کی شکل بدل گئی۔

رفیق حریری کے بیٹے سعد نے شام مخالف، اور مغربی طاقتوں کی حمایت کرنے والے گروہوں کی قیادت کی اور اس کے بعد تین بار ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے سربراہی کی۔

اس ٹرائل کی اہمیت کیا ہے؟

ان چاروں افراد پر مقدمہ جب شروع ہوا تو لبنان میں اس کو سراہا گیا اور ایک تاریخ ساز لمحہ قرار دیا گیا۔

حزب اللہ نے اعادہ کیا ہے کہ وہ ان چاروں افراد کو کسی کے حوالے نہیں کریں گے چاہے فیصلہ ان کے خلاف آئے۔

حزب اللہ کا لبنان میں بہت اثر و رسوخ ہے اور وہ اپنی بھی ایک فوج رکھتے ہیں۔

حزب اللپ
،تصویر کا کیپشنحزب اللہ کے حامی اس ٹرائل کو مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سیاستی طور پر غیر جانبدار نہیں ہے

اس مقدمے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب لبنان اپنی تاریخ میں نہایت مشکل دور سے گزر رہا ہے۔

چار اگست کو بیروت میں ایک تباہ کن دھماکے میں کم از کم 180 افراد ہلاک ہو گئے جبکہ چھ ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔

اس کے علاوہ ملک کے معاشی حالات بھی بہت ابتر ہیں اور لبنانی کرنسی کی قدر بھی مکمل طور پر گر گئی ہے جس سے ملک میں مہنگائی میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے اور بیروزگاری بڑھ گئی ہے۔