ٹی وی اینکرز کی قابلیت
دس برس پہلے کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ہم لوگ ایک ہوٹل میں بیٹھے کافی پی رہے تھے، سیاست پر گرما گرم بحث جاری تھی، گفتگو کرنے والوں میں آٹھوں گانٹھ کمیت کالم نگار شامل تھے۔ اچانک اُن میں سے ایک کالم نگار نے ہاتھ اٹھا کر دو ٹوک انداز میں پیش گوئی کی کہ یہ حکومت دسمبر میں ختم ہو جائے گی۔ سب حیرانی سے اُن کی طرف تکنے لگے۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’فیصلہ ہو چکا ہے اور دسمبر تک اِس فیصلے پر عمل ہو جائے گا۔ ‘‘ یہ پوچھنا بیکار تھاکہ یہ ’’فیصلہ ‘‘ کہاں ہوا ہے اور کس نے کیا ہے لیکن پھربھی میں نے یہ حماقت آمیز سوال کر ہی ڈالا۔ جس کے جواب میں انہوں نے مجھے ایسی میٹھی مسکراہٹ سے دیکھا، جیسی مسکراہٹ ایک محبوبہ اپنے عاشق کے فاسد خیالات کو بے اثر کرنے کے لیے چہرے پر لاتی ہے۔
میں نے مگر ہمت نہیں ہاری اور کہا کہ اِس بات پر شرط ہو جائے، انہوں کہا کہ ضرور، طے پایا کہ اگر دسمبر تک حکومت تبدیل نہ ہوئی تو وہ اِس خاکسار سمیت محفل میں موجود تمام احباب کے اعزاز میں فائیو سٹار ہوٹل میں عشائیہ دیں گے۔ ظاہر ہے کہ وہ صاحب شرط ہار گئے، عشائیہ دینا البتہ بھول گئے۔ اسی سے ملتا جلتا واقعہ چھ سال پہلے بھی پیش آیا، ایک جید کالم نگار نے مجھے فون کیا اور کہا کہ حکومت جا رہی ہے، میں نے وہی سوال پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا چلا، انہوں نے وہی جواب دیا کہ ’’فیصلہ ہو چکا ہے۔ ‘‘ میں نے کہا کہ ایسے مزا نہیں آئے گا، شرط لگاتے ہیں۔ وہ راضی ہو گئے۔ اِس مرتبہ یہ شرط روپوں میں لگائی گئی۔ ظاہر ہے کہ میں یہ شرط بھی جیت گیا۔ فراخ دلی سے انہوں نے شکست تسلیم کی اور کہا کہ کل رات کا کھانا میرے ساتھ کھانا، وہیں میں چیک کاٹ کر دے دوں گا۔ اگلے روز میں اُن کے در دولت پر حاضر ہوگیا، نہایت شفقت سے پیش آئے اور پر تکلف کھانے کے بعد اپنے ملازم کو کہا کہ چیک بُک لے کر آؤ۔ اپنا قلم نکالا۔ پھر اچانک انہیں یاد آیا کہ کھانے کے بعد چائے تو پی نہیں، ہم چائے پینے لگے۔ میں نے چائے کی تعریف کی تو انہوں نے مزید چائے پلائی، گپ شپ ہوتی رہی، رات کے ڈیڑھ بج گئے۔ میں اجازت لے کر چلا آیا، انہیں بھی چیک کاٹنا یاد نہیں رہا۔ خضر از آبِ حیواں تشنہ مے آرد سکندر را۔
بے شک یہ دونوں واقعات سچے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ درست پیش گوئی کرنے میں میرا کوئی کمال تھا اور نہ اُن کالم نگاروں کا کوئی قصور۔ دنیا میں آج تک ایسا کوئی علم ایجاد نہیں ہو سکا جو مستقبل کی درست پیش گوئی کر سکے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عالم بہت پیچیدہ ہے او راِس میں روزانہ کی بنیاد پر واقعات کا ایک لا متناہی سلسلہ وقوع پذیر ہوتا ہے جن کا احاطہ کرنا تا حال ممکن نہیں ہو سکا۔ اِس بات کو نوبل انعام یافتہ نفسیات دان ڈینئیل کاہنمین نے ایک بہت دلچسپ تحقیق کے ذریعے سمجھایا ہے جو ایک امریکی نفسیات دان فلپ ٹیٹلوک نے کی۔ یہ تحقیق 2005 میں کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہے، نام ہے Expert Political Judgment: How Good Is It? How Can We Know?
ٹیٹلوک نے نہایت عرق ریزی کے ساتھ بیس برس تک تحقیق کی اور اِس دوران 284 لوگوں کا انٹرویو کیا جن کا کام سیاسی اور معاشی معاملات پر ماہرانہ رائے اور مشورہ دینا تھا۔ ٹیٹلوک نے اِن لوگوں سے کہا کہ وہ مستقبل قریب میں ہونے والے واقعات کی پیش گوئی کریں اور ایسا کرتے وقت وہ دنیا کے اُن خطوں کے بارے میں بھی رائے دیں جن کے وہ اپنے تئیں ماہر ہیں اور اُن علاقوں کے مستقبل کے بارے میں بھی اندازہ لگائیں جن کے وہ اتنے زیادہ ماہر نہیں۔ ٹیٹلوک کے سوالات کچھ اِس قسم کے تھے کہ کیا بغاوت کے ذریعے گوربا چوف کا تختہ اُلٹ دیا جائے گا؟ کیا امریکہ خلیج فارس میں جنگ چھیڑے گا؟ کون سا ملک دنیا کی اگلی بڑی معاشی منڈی بنے گا؟ جواب میں ٹیٹلوک نے اِن ماہرین سے 80,000 پیش گوئیاں اکٹھی کیں اور جب اِن تمام پیش گوئیوں کا تجزیہ کیا گیا تو پتا چلا کہ اِن کی حیثیت تیر تُکے سے زیادہ نہیں تھی، یعنی جو لوگ اپنے تئیں معاشی اور سیاسی امور کے ماہر بن کر پیش گوئیاں کر رہے تھے، اُن کی پیش گوئیوں کے درست ہونے کے امکانات کم و بیش اتنے ہی تھے جتنے اُس صورت میں درست ہوتے جب کسی بندر کو کہا جاتا کہ سامنے دیوار پر ٹنگی تین پیش گوئیوں میں سے کسی ایک پر تیر پھینکو۔
اِس تحقیق کی مزید دلچسپ بات یہ تھی کہ جب اِن ماہرین کو بتایا گیا کہ آپ کی پیش گوئیوں میں کوئی خاص بات نہیں تھی اور یہ سب کام تیر تکا ثابت ہوا ہے تو پہلے تو انہوں نے یہ بات ماننے سے ہی انکار کر دیا مگر جب اُن کے سامنے ناقابل تردید حقائق رکھے گئے تو جواب میں انہوں نے تاویلات کا ڈھیر لگا دیا، کسی نے کہا کہ فلاں غیر معمولی واقعے نے سارا منظر نامہ یکسر بدل کر رکھ دیا، کسی نے کہا کہ واقعات کا وقت بتانے میں کچھ تھوڑی بہت غلطی ہو گئی اور کسی نے کہا کہ وہ غلط ثابت ضرور ہوئے مگر وجوہات درست تھیں۔
دنیا میں جب بھی کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے تو اُس کے فوراً بعد ماہرین اور تجزیہ کار کمر کس کر میدا ن میں اتر آتے ہیں اور بقول غالب ’تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں‘ اور عام لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ اِس واقعے کا کیا پس منظر تھا اور آئندہ عالمی منظر نامے پر اِس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ گزشتہ بیس برس میں دوایسے واقعات ہوئے جنہوں نے دنیا یکسر تبدیل کرکے رکھ دی مگر کوئی مائی کا لعل اِن واقعات کی پیش گوئی نہیں کر سکا۔ ایک، انٹر نیٹ کا انقلاب، دوسرا، نو گیارہ کا حملہ۔ اِسی طرح بے شمار واقعات آئے روز ہوتے ہیں جن کی پیش گوئی کسی نے نہیں کی ہوتی مگر جونہی وہ رونما ہوتے ہیں تو ’’میں نے پہلے ہی کہا تھا ‘‘ ٹائپ تجزیے سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں تو یہ رواج اور بھی زیادہ ہے۔ پچھلے دس بارہ برسوں میں حکومتوں کے آنے جانے کی پیش گوئیوں پر اگر کوئی نوجوان دانشور تحقیق کرنا چاہے تو یہ ایک بہت دلچسپ اور چشم کشا موضوع ہوگا۔ زیادہ دور کیوں جائیں، پچھلے دو برسوں کے مضامین اٹھا کر پڑھ لیں، درجن بھر پیش گوئیاں تو مجھے یاد ہیں جو غلط ثابت ہو چکی ہیں۔ کبھی لکھا جاتا ہے کہ سردیوں کے بعد ’معاملات ‘ بدل جائیں گے، کبھی کہا جاتا ہے کہ بجٹ کے بعد ’تبدیلی‘ کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اب نیا غلغلہ ہے کہ سینٹ انتخابات کے بعد ’کچھ ‘ ہو گا۔
میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا کہ کسی میدان کے ماہرین بالکل عقل سے پیدل ہوتے ہیں اور اُن میں اور ایک عام آدمی میں کوئی فرق نہیں ہوتا، میری عرض صرف یہ ہے کہ سیاسی پیش گوئیاں، جیسے کہ حکومتوں کا آنا جانا یا معاشی پیش گوئیاں، جیسے سٹاک مارکیٹ یا سونے تیل کے بھاؤ کا اتار چڑھاؤ، کرنا ممکن نہیں۔ اور جو پیش گوئی درست ہو جاتی ہے وہ کسی سائنسی تجزیئے کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔ کم ازکم ٹیٹلوک کی تحقیق تو یہی ثابت کر تی ہے۔
ایک بنیادی اصول البتہ یاد رکھنے کا یہ ہے کہ کسی واقعے کے ہونے کے امکانات کا دارومدار اِس بات پر ہوتا ہے کہ وہ واقعہ کتنے مختلف طریقوں سے رونما ہو سکتا ہے۔ دس سال پہلے جب میں نے محترم کالم نگار سے شرط لگائی تھی تو اُن سے یہی پوچھا تھاکہ حکومت کس ممکنہ طریقے سے برخواست کی جائے گی، جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ تو نہیں پتا البتہ ’فیصلہ ہو چکا ہے !‘ سو کیا آج کی تاریخ میں ہے کوئی بندہ خدا جو پچھلے دو سال کی پیش گوئیوں کی پڑتال کرکے بتائے کہ اِن میں سے کتنے فیصد درست ثابت ہوئیں؟ ذرا ہمیں بھی پتا چلے اُن تجزیہ کاروں کی قابلیت جو روزانہ حکومتوں کی قابلیت ناپتے پھرتے ہیں!